ہم لوگ عادتوں سے مار کھا جاتے ہیں۔ ویسے تو ہم سب کو ولایت کا ویزا چاہیے‘ امپورٹڈ گاڑیاں‘ میک اَپ اور ازار بند تک ہم امپورٹڈ ہی پسند کرتے ہیں لیکن جہاں ولایتیوں کی اچھی باتوں کو اپنانے کی بات آئے تو وہاں ہم پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں۔ دنیا میں اگر کوئی قیمتی ترین شے مفت دستیاب ہے تو وہ عادت ہے جو آپ کسی بھی کامیاب شخص کو دیکھ کر اپنا سکتے ہیں اور اس کے بعد آپ اسی طرح سے دِکھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہم لوگ تو اتنے بدقسمت ہیں کہ پلیٹ میں کھانا ڈالنے سے لے کر پلیٹ صاف کرنے تک اپنے دین کی تعلیمات پر بھی عمل نہیں کر سکے۔ دعوتوں پر کہیں کھانا مفت مل رہا ہو تو یوں پلیٹ میں ڈالا جاتا ہے جیسے موت سے پہلے آخری مرتبہ کھانے لگے ہوں۔ انگریز ہمیشہ پلیٹ کے ایک چوتھائی حصے میں کھانا ڈالتے ہیں۔ آپ کو شاید ہی کسی کی پلیٹ لبالب بھری نظر آئے۔ جبکہ ہم لوگ پلیٹ میں کے ٹو یا نانگا پربت نہ کھڑی کر لیں ہمارا دل نہیں بھرتا۔ پھر جب پلیٹ صاف کرنے کی باری آتی ہے تو اس میں بھی ندیدہ پن صاف دکھائی دیتا ہے۔ پلیٹ کو اچھی طرح صاف کرنا سنت ہے اور اس سے نہ صرف رزق ضائع نہیں ہوتا بلکہ پلیٹ دھونا آسان ہوتا ہے‘ صابن‘ پانی اور وقت کم لگتا ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ باتیں بہت چھوٹی ہیں اور یہی چھوٹی باتیں اور عادتیں ہمیں چھوٹا بنائے ہوئے ہیں۔ ہم شاید بڑا ہونا بھی نہیں چاہتے۔ اگر ہم رزق کو ضائع کرنے میں عار نہیں سمجھتے تو پھر ہمیں قدرت سے رحمت کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے۔ ہماری یہی عادتیں ہماری کامیابی میں رکاوٹ ہیں۔
عادتیں کتنی اہم ہوتی ہیں اس کیلئے اگر ہم دنیا بھر پر نظر ڈال لیں تو ہمیں ہر کامیاب اور ناکام شخص میں ایک بنیادی فرق نظر آئے گا اور وہ فرق ہو گا عادت کا۔ ہمیں ان کی عادتیں ایک دوسرے سے مختلف ملیں گی اور یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ عادتیں ہی انسان کو انسان بناتی ہیں اور یہ عادتیں ہی ہیں جو انسان اور جانور میں فرق کرتی ہیں۔ عادت اپنانے میں کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوتا۔ ہم جانتے ہیں کہ رات کو جلدی سونا اور صبح جلدی اٹھنا اچھی عادت ہے۔ اسے اپنانے میں آخر کیا امر مانع ہے؟ فیصلہ کی قوت اور کیا؟ جو شخص اپنا دن پانچ چھ بجے شروع کرے گا وہ اس شخص سے کہیں زیادہ امور نمٹا لے گا جو شخص گیارہ بارہ بجے سو کر اٹھے گا۔ اگر ایک عام انسان صرف اچھی عادتیں ہی اپنانا شروع کر دے تو اس کی نوے فیصد زندگی تبدیل ہو جائے گی اور بقایا دس فیصد خود بخود تبدیل ہو جائے گی اور وہ ناکام سے کامیاب انسان بن جائے گا۔ کامیاب ہونے کے لیے سب سے پہلے ان عادتوں کی لسٹ بنا لیں جو آپ میں نہیں ہیں یا جو کامیاب انسانوں میں دکھائی دیتی ہیں۔ مثلاً کامیاب لوگ ہمیشہ صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں‘ وہ بروقت میٹنگز یا ملاقات کے لیے پہنچتے ہیں۔ وہ جھوٹے بہانے نہیں کرتے۔ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ وقت ضائع نہیں کرتے۔ اپنی صحت کا خیال رکھتے ہیں۔ جنک فوڈ نہیں کھاتے۔ اپنے جسم اور روح کے لیے روزانہ وقت نکالتے ہیں۔ ورزش کرتے ہیں۔ اپنے دل کو عبادت کے ذریعے تسکین دیتے ہیں۔ بری محفل میں نہیں جاتے۔ ہمیشہ اچھے دوست بناتے ہیں۔ تبدیلی کو اپنانے اور تسلیم کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ماضی پر افسوس نہیں کرتے بلکہ آگے کی طرف چلتے ہیں۔ یہ لوگ ایسے مواقع تلاش کر لیتے ہیں جہاں عام آدمی کی نظر نہیں پڑتی۔ یہ سبق تلاش کرتے ہیں جبکہ دوسروں کو صرف مسائل نظر آتے ہیں‘ یہ خوفزدہ تو ہوتے ہیں لیکن خوف کے سامنے جھکتے نہیں‘ یہ ایسے سوال پوچھتے ہیں جو انہیں مثبت راہ پر لے جائیں‘ یہ بہت کم شکایت کرتے ہیں‘ یہ الزام لگانے سے پرہیز کرتے ہیں اور یہ اپنے کام کی ذمہ داری اور اس کے نتائج کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں۔
آپ کامیاب لوگوں کی ہسٹری نکال کر دیکھ لیجئے ہر مشکل میں یہ کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کرتے دکھائی دیں گے۔ کامیاب لوگ ہمیشہ کسی کام میں مصروف رہتے ہیں‘ یہ فارغ ہوں تو کوئی نہ کوئی کتاب پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ اپنی جیسی سوچ رکھنے والے لوگوں میں بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔ یہ اپنے مقصد میں واضح ہوتے ہیں۔ یہ ٹرینڈ سیٹر ہوتے ہیں‘ ٹرینڈ فالوور نہیں اور یہ لوگ کبھی یہ نہیں سمجھتے کہ ہم نے جو سیکھنا تھا سیکھ لیا بلکہ یہ زندگی کی آخری سانس تک سیکھتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ بڑے دلچسپ ہوتے ہیں۔ یہ ہمیشہ مثبت پہلو دیکھتے ہیں‘ یہ مستقل مزاج ہوتے ہیں‘ یہ خطرات سے بھی کھیلتے ہیں لیکن ہوم ورک کرنے کے بعد۔ یہ مسائل کو فوری اور مؤثر طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ قسمت‘ چانس اور لاٹری پر یقین نہیں رکھتے‘ یہ باتوں سے زیادہ عمل کرنا پسند کرتے ہیں۔ یہ جذبات میں آ کر فیصلے نہیں کرتے‘ ان کی گفتگو شائستہ ہوتی ہے‘ یہ جو بھی منصوبے بناتے ہیں انہیں حقیقت میں بدلنے کیلئے منظم انداز اختیار کرتے ہیں‘ یہ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں اور آپ حیران ہوں گے کہ یہ طویل اور مشکل راستہ اختیار کرتے ہیں لیکن شارٹ کٹ کے پیچھے نہیں جاتے‘ جو چیزیں اور جو کام ان کیلئے اہم ہوتے ہیں یہ ان کو ہمیشہ اہمیت دیتے ہیں۔ انہیں بے پناہ دولت بھی غیرمتوازن نہیں کر سکتی۔ یہ نظم و ضبط کی اہمیت سے خوب واقف ہوتے ہیں۔ یہ سخی اور مہربان ہوتے ہیں۔ یہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے اور معافی مانگنے میں ندامت محسوس نہیں کرتے۔ تحفہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ بخوشی قبول کر لیتے ہیں۔ یہ حالات کے مطابق خود کو ایڈجسٹ کرنا جانتے ہیں اور یہ صرف پیسہ اور شہرت کمانا ہی نہیں جانتے بلکہ یہ جسمانی طور پر بھی خود کو فٹ رکھتے ہیں۔ یہ سخت جان ہوتے ہیں اور سستی کو قریب تک نہیں پھٹکنے دیتے اور سب سے اہم یہ کہ یہ مایوس نہیں ہوتے اور دوسروں کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔ یہ ایسے معاملات میں وقت ضائع نہیں کرتے جو انسان کے بس سے باہر ہوں‘ یہ لہروں کے مخالف تیرنا پسند کرتے ہیں‘ یہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا پسند کرتے ہیں‘ یہ کسی کام کو چھوٹا نہیں سمجھتے اور آپ کو کامیاب لوگ یہی کہتے نظر آئیں گے یہ کبھی ناکامی سے مایوس نہیں ہوئے بلکہ ناکامیاں ان میں نیا حوصلہ پیدا کر دیتی ہیں۔ یہ ایک کام کرتے اور اگلے پر نظر رکھتے ہیں اور یہ ہمیشہ وہ کام کرتے ہیں جو زیادہ موثر ہو نہ کہ وہ جو زیادہ آسان ہو۔
اگر ہم متذکرہ بالا باتوں میں سے پچیس فیصد بھی اپنا لیں تو ہماری زندگی میں تبدیلی کا سفر شروع ہو جائے گا۔ ایک مرتبہ شروع ہو گیا تو رفتار بھی تیز ہو جائے گی۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سیدھا چوتھے یا پانچویں گیئر میں چلے جاتے ہیں۔ زندگی مگر صبر اور استقامت کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چالیس دن تک کوئی عادت مسلسل اپنانے سے وہ پکی ہو جاتی ہے۔ کسی جگہ یہ دن سولہ بتائے گئے ہیں تاہم یہ انسان کے اپنے پر منحصر ہے کہ وہ خود کو تبدیل کرنے کے لیے کس قدر سنجیدہ ہے۔ یاد رکھیں ہماری عادتیں اور حرکتیں ہی دنیا میں ہمیں بدنام بھی کرتی ہیں اور ہمارا قد اونچا بھی کر سکتی ہیں۔ یہ جو آئے روز ہم ہنگاموں میں اپنی ہی املاک توڑنے لگتے ہیں‘ اپنی ہی چیزیں جلانے لگتے ہیں یہ سب دنیا نوٹ کررہی ہوتی ہے اور ہم پھر دنیا میں کہیں بھی چلے جاتے ہیں‘ یہ لیبل ہمارے ساتھ چپکا ہوتا ہے اور ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ اگر ہم اپنی شناخت سے نہیں پہچانے جاتے تو اپنی عادتوں پر پکڑے جاتے ہیں لہٰذا اپنی عادتوں کو بہتر بنا کر ہم دنیا بھر میں اپنا اور ملک کا امیج بہتر کر سکتے ہیں۔