جاپان ترقی کے لحاظ سے تو دنیا میں مثالی ہے ہی، لیکن معمر افراد کی تعداد کے حوالے سے بھی جاپان دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ جاپان میں اوسط عمر اسی برس سے اوپر ہے؛ تاہم کئی دیگر ممالک کے طرح وہ بھی اسی مسئلے سے دوچار ہے کہ وہاں بچوں کی پیدائش اس رفتار سے نہیں ہو رہی اور اسی لیے نوجوانوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ جاپان سمیت کئی یورپی ممالک کو بھی اس مسئلے کے باعث کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی سبب کئی ممالک نے اپنی امیگریشن پالیسیوں میں نرمی کر دی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ہنرمند نوجوان ان کے ملک میں آئیں‘ ان کے لیے کام کریں‘ اپنے لیے بھی پیسے کمائیں اور اپنے ملک کو بھی فائدہ پہنچائیں۔ پاکستان اگرچہ کئی طرح کے معاشی چیلنجز میں گرفتار ہے لیکن یہ کئی لحاظ سے بہت سے ممالک کی نسبت اس حوالے سے خوش نصیب ہے کہ یہاں کی بیشتر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پینسٹھ فیصد سے زائد آبادی کی عمریں تیس برس سے کم ہیں ۔
ہم جدید دور سے گزر رہے ہیں اور آج کل کی نئی نئی چیزیں نوجوانوں کو جلد سمجھ آ جاتی ہیں اس لیے یہ ہنر سیکھتے ہیں اور جلد روزگار کمانے کے قابل ہو جاتے ہیں یا بیرونِ ممالک چلے جاتے ہیں۔ تاہم بدقسمتی سے سیاسی جماعتیںنوجوانوں کی اس کثیر تعداد اور ان کے سکلز کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ سابق حکمران جماعت نے نوجوانوں کو مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے‘ کردار پر کیچڑ پھینکنے اور جعلی سوشل میڈیا پوسٹس پر لگا دیا۔ مخالف سیاستدانوں کی طرح طرح کی میمز بنائی جانے لگیں اور انہیں دھڑا دھڑا مختلف گروپوں میں اور پوسٹس کی صورت فارورڈ کیا جانے لگا۔ اس گھنائونے عمل کا نتیجہ نو مئی کے سیاہ دن کی صورت میں نکلا جب پی ٹی آئی چیئرمین کوگرفتار کیا گیا تو سوشل میڈیا پر اداروں اور حکمرانوں کے خلاف غلیظ اور ریاست دشمن قسم کے ٹرینڈز چلائے جانے لگے۔ موصوف کی گرفتاری کو یوں پیش کیا گیا جیسے کوئی ایسا کام ہو گیا ہو جو بہت انہونا ہو یا سابق ادوار میں نہ ہوا ہو۔ موصوف کی اپنی حکومت کے ساڑھے تین سالہ دور میں مخالف جماعتوں کے لیڈروں کو جیلوں میں ڈالا گیا‘ ان پر مقدمات بنائے گئے اور جھوٹے الزامات لگائے گئے مگر ان کی گرفتاری پر ملک بھر میں جلائو گھیرائو شروع ہو گیا، سرکاری و نجی املاک اور شہدا کی یادگاروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس سارے ماحول میں اصل نقصان نوجوانوں کا ہوا اور وہ جذبات اور پروپیگنڈا کی رو میں بہہ کر اپنے اصل مقصد سے بہت دور نکل گئے۔
اب جبکہ اس جماعت کے لیڈران کے مقاصد آشکار ہو چکے ہیں‘ اب بھی یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور سوشل میڈیا پر اداروں اور ان کے سربراہان کے خلاف مذموم مہم کا سلسلہ جاری ہے۔ ریاستی اداروں کے خلاف ایسی ہی ایک مہم کی وزیراعظم شہباز شریف نے سخت مذمت کی اور متعلقہ حکام کو ذمہ داروں کو کیفرِکردار تک پہنچانے کی ہدایت کی۔نوجوانوں میں اداروں کے خلاف نفرت کے جو بیج بوئے جا رہے ہیں‘ اس سے سیاسی جماعت کو کچھ بھی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ اس سے اس کی اپنی رہی سہی ساکھ تباہ ہو جائے گی؛ تاہم اس میں ان کچے ذہنوں کا بہت نقصان ہو گا جنہیں یہ شرپسند عناصر اپنے گھنائونے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔بچوں اور نوجوانوں کا اس میں وقت کتنا ضائع ہو رہا ہے‘ اس کی کسی کو بھی پروا نہیں حالانکہ انسان کی ترقی کی بنیاد انہی ابتدائی برسوں میں رکھی جاتی ہے۔
کوئی بھی شخص اپنی عمر کے ابتدائی بیس سے تیس برس میں جو کچھ سیکھتا ہے‘ جو کرتا ہے‘ اسی کا پھل وہ بعد میں کھاتا ہے۔ ان سیاستدانوں نے تو خود بچ جانا ہے یا دوسری جماعتوں میں جا کر پناہ لے لینی ہے، پچھلی ساری باتوں سے اظہارِ برأت کر دینا ہے، یہ ثابت کر دینا ہے کہ وہ تو موقع پر موجود ہی نہیں تھے لیکن یہ بچے‘ یہ ہمارے نوجوان کہاں جائیں گے۔ ان کے پیچھے تو کوئی آیا ہے نہ آئے گا جیسا کہ نو مئی کے واقعات میں ہم نے دیکھا کہ وہ سیاسی لیڈر جو اِن نوجوانوں کو ورغلاتے تھے‘ انہوں نے بعد میں ان کے فون سننے سے ہی انکار کر دیا‘ و ہ انہیں جیلوں سے چھڑوانے کے لیے بھی ان کے پیچھے نہیں گئے اور نہ ہی اب ان کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار ہیں۔ ایسے کئی نوجوانوں کی کہانیاں خود ان کی زبانی ہم سن چکے ہیں کہ کیسے وہ دربدر پھرتے رہے مگر ان کے ماسٹر مائنڈز نے انہیں پہنچاننے تک سے انکار کر دیا۔ پاکستان میں خاندانی اور فیملی کلچر کو بھی سیاسی جتھوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ یقینا ہر کسی کو اپنی پسند‘ ناپسند کا حق حاصل ہے مگر جو شرانگیزی اور نفرت آمیز مہم سابق دور میں چلائی گئی اس نے بھائی کو بھائی سے اور باپ کو بیٹے سے لڑوا دیا ۔ ایک ہی گھر میں جہاں لوگ اکٹھے رہتے تھے‘ وہاں سیاست پر ہونے والی بحثیں فساد اور لڑائیوں میں تبدیل ہو گئیں اور کئی واقعات میں تو لوگوں نے صرف اس لیے ایک دوسرے کو قتل کر دیا کہ وہ ان کے پسندیدہ لیڈر کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔
آج نوجوان،بچے اور والدین‘ سبھی سوشل میڈیا کے زیرِ اثر ہیں یہی وجہ ہے کہ آج کے والدین اور بچوں میں ذہنی ہم آہنگی کم ہو رہی ہے۔ آج ایک چھت کے نیچے رہ کر بھی اکثر لوگ ایک دوسرے کے احساسات سے اور ضروریات سے نا واقف ہیں اور کئی کئی دن ایک دوسرے سے ملاقات ہی نہیں کر پاتے۔ ایسے ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں کہ دل دہل جاتا ہے ۔ ہر کوئی سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے نت نئے رنگ ڈھنگ اپنا رہا ہے۔ سوشل میڈیا نے جہاں لوگوں کو مالی تباہی وبربادی کے گڑھے میں دھکیلا ہے، وہاں مشرقی شرافت وتہذیب کا بھی جنازہ نکال دیا ہے ۔ سماجی میڈیا کو اب بند تو نہیں کیا جا سکتا لیکن اصل چیلنج یہ ہے کہ ہم نے اپنے سیاسی و قومی شعور اور سماجی مسائل کے حل کے حوالے سے اس شتر بے مہار فورم سے کتنا مثبت کام لینا ہے۔ اگر سوشل میڈیا کو اسی طرح استعمال کیا جاتا رہا تو نوجوان رہی سہی اخلاقی قدریں بھی کھو دیں گے اور یہ میڈیا فورم معاشرے کے نفسیاتی مریضوں اور بیمار ذہنوں کے ہاتھ میں مزید خطرناک ہتھیار بنتا جائے گا۔
انسانی تاریخ گواہ ہے کہ خواہ اجتماعی زندگی ہو یا انفرادی‘ جب سماجی زندگی حالتِ اعتدال میں ہو تو زندگی پُرسکون ہو جاتی ہے مگر جب بھی کوئی چیز حالتِ اعتدال سے نکل کر انتہا پسندی کی حدوں کو چھونے لگے تو سماج سے تعفن کی بو آنے لگتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ جو سوشل میڈیا پر نفرت کا کلچر پنپ رہا ہے اور مخالفین اور وہ سازشی عناصر‘ جو ملک کے سیاسی و معاشی استحکام کے خلاف پھر سے سرگرم ہیں اور شہدا کے خلاف اور اداروں کے حوالے سے غلیظ میڈیا مہم چلا رہے ہیں‘ انہیں اس کام سے روکنے کی ضرورت ہے۔ والدین‘ اساتذہ اور امام مساجد سمیت عوام پر اثر انداز ہونے والے تمام طبقات کی بھی اس معاملے میں ذمہ داری اتنی ہی اہم ہے جتنی میڈیا اور دیگر شعبوں کی۔ نو مئی کو ذاتی مفاد اور اقتدار پر قبضے کے لیے ملک میں خانہ جنگی کی سازش بروقت ناکام بنا دی گئی، وگرنہ یہ ٹولہ تو اپنے اقتدار کے جانے پر پورے ملک کو ہی تباہی کے گڑھے میں دھکیلنے پر تلا ہوا تھا۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے آپ پر ازخود کچھ پابندیاں لاگو کر لیں‘ ہر وقت موبائل سے کھیلنا چھوڑ دیں اور کتاب کلچر کو دوبارہ زندہ کریں۔ نوجوانوں کے اذہان کو منتشر ہونے سے بچائیں اور خود بھی مثبت مواد کا مطالعہ کریں تاکہ یہ جو جنگل کا معاشرہ بنتا جا رہا ہے‘ اسے تہذیب اور اخلاقیات کے دائرے میں واپس لایا جا سکے۔