پتہ نہیں ہم بار بار دنیا کو یہ کیوں یاد کرانا چاہتے ہیں کہ ہم ابھی تک انسانیت اور اخلاقیات کا بنیادی سبق سیکھ سکے ہیں نہ ہی دین کی تعلیمات پر عمل کرنا جانتے ہیں۔ نہ جانے ہر چند ماہ بعد ہم کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کیوں کرتے ہیں جس سے عالمی سطح پر پھر تواتر سے یہ پیغام پہنچ جاتا ہے کہ یہ قوم ابھی تک نہیں سدھری‘ یہ مذہب کا نام تو لیتی ہے لیکن مذہب کی روح کو سمجھنے کو تیار نہیں۔ یہ اپنے ملک کو نظریۂ اسلام پر بنائے جانے کا کریڈٹ تو لیتی ہے لیکن دینِ اسلام جو کچھ سکھایا ہے‘ اس دین پر عمل کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہے۔ جڑانوالہ واقعہ پہلا سانحہ تھا نہ آخری۔ اس سے قبل بھی کب کب کیا کچھ نہیں ہو چکا۔ ہر مرتبہ ہم وہی حرکت دہراتے ہیں اور ایک نیا نوحہ لکھنے کو مل جاتا ہے۔ نہ ماضی سے سبق سیکھتے ہیں نہ مستقبل کے لیے خود کو تیار کرتے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں ہر واقعے کے بعد ہمیں لوگوں کو یہ کیوں بتانا پڑتا ہے کہ اسلام میں اقلیتوں کو بھی حقوق حاصل ہیں۔ وہ بھی انسان ہیں‘ انہیں بھی ہمارے دین‘ ہمارے آئین میں اسی طرح حقوق دیے گئے ہیں جیسے مسلمانوں کو۔ ہر مرتبہ ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے اور ہر مرتبہ ہم دوبارہ سے اسی ڈگر پر چل نکلتے ہیں۔ دنیا میں کہیں مسلمانوں کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ ہو جاتا ہے اور ہم اپنی ہی املاک کو جلانے اور توڑنے پھوڑنے کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ ہماری زندگی بس اسی گھن چکر میں پھنس چکی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے نہ ہمیں اس بات کی پروا ہے کہ دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچے گی۔ چلیں دنیا کی پروا نہ بھی کریں تو ہم خدا کے سامنے کس منہ سے جائیں گے۔ دین کو ہم صرف زبانی کلامی حد تک ہی محدود کیوں رکھتے ہیں۔ کیا ہم اتنے کم عقل ہیں‘ کیا ہماری مت ماری گئی ہے جو ہم جانتے بوجھتے بھی ایک ہی فعل کو بار بار دہراتے جا رہے ہیں۔ پہلے ہی مسلمانوں پر زمین تنگ ہے۔ دنیا میں کہیں چلے جائیں اگر تو آپ کے پاس پاکستانی پاسپورٹ ہے اور اوپر سے آپ مسلمان ہیں تو پھر آپ کے ساتھ کس درجے کا سلوک ہو گا‘ یہ ساری دنیا جانتی ہے۔ نائن الیون کے بعد تو مسلمانوں کو دنیا بھر میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ خاص طور پر مغربی ممالک میں تو ان کے لیے گھروں سے نکلنا مشکل ہو گیا۔ وہ پاکستانی مسلمان جو اُن ممالک میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے‘ انہیں بھی کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے میں بھارتی اور یہودی لابی اور زیادہ متحرک ہو گئی اور پاکستانیوں کو خاص طور پر نشانے پر رکھ لیا گیا۔ ان لوگوں کے کاروبار ماند پڑ گئے‘ لوگ انہیں ملنے سے کترانے لگے۔ پاکستانیوں کو ویزا ملنا مشکل ہو گیا‘ جس کو ملتا اسے ایئرپورٹ امیگریشن پر کئی کئی گھنٹوں سوالات اور تفتیش کا سامنا کرنا پڑتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ چاہے یہ مُٹھی بھر لوگ ہیں جنہوں نے چرچ اور مسیحی بھائیوں کے گھر جلائے لیکن اس کا امپیکٹ عالمی میڈیا میں بہت وسیع ہوا ہے۔ وہاں یہ نہیں کہا جاتا کہ یہ کچھ لوگوں یا گروہ کا فعل تھا بلکہ ساری کی ساری کارروائی پاکستان اور پاکستانیوں سے منسوب کی جاتی ہے۔ ایسی حرکت کوئی ایک پاکستانی بھی کرے تو نام پورے پاکستان کا لگتا اور بدنام ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں اور کسی کے جذبات نہیں ہیں اور کیا جذبات کی رو میں بہہ کر مذہبی تعلیمات کو یوں پس پشت ڈالا جا سکتا ہے اور کیا انسانیت سے انتہائی نیچے گر کر اخلاقیات کے اس طرح بخیے بھی ادھیڑے جا سکتے ہیں کہ کوئی اقلیت محفوظ نہ رہے۔
نہ جانے ہم کب اور کیسے سمجھیں گے کہ اسلام شرفِ انسانیت کا علمبردار دین ہے۔ ہر فرد سے حسنِ سلوک کی تعلیم دینے والے دین میں کوئی ایسا اصول یا ضابطہ روا نہیں رکھا گیا جو شرفِ انسانیت کے منافی ہو۔ دیگر طبقاتِ معاشرہ کی طرح اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا ہے‘ جن کا ایک مثالی معاشرے میں تصور کیا جا سکتا ہے۔ سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کے بعد پوری دنیا میں ہم نے اپنی پہچان ایک شدت پسند قوم کے طور پر کروا دی تھی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایسا بھی نہیں کہ اس طرح کا مائنڈ سیٹ چند لوگوں یا کسی ایک گروہ کا ہے‘ یہاں تو ایسے لوگ بھی ہیں جو صرف دیکھا دیکھی ایسی حرکتوں میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ نہ جانے ہمارے ذہنوں میں یہ بات کیوں سمائی ہوئی ہے کہ ہم دنیا بھر سے افضل ہیں اور جب چاہے جس کی چاہے پگڑی اور عزت اچھال سکتے ہیں۔ یہ کام باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا جاتا ہے جس میں مخالفین پر الزام لگایا جاتا ہے‘ حملوں کا جواز بنایا جاتا ہے اور پھر ہجوم کو اُکساکر اقلیتوں پر ہلہ بول دیا جاتا ہے۔ آخر کب تک ہم مذہب کے لبادے کے پیچھے خود کو چھپاتے رہیں گے۔ یہی سلسلہ جاری رہا تو ہمیں دنیا میں منہ دکھانے کو جگہ نہیں ملے گی۔ ہم یہ بھی نہیں دیکھتے کہ جن کے ملکوں میں ہم بطور اقلیت جا کر رہتے ہیں‘ جہاں کی شہریت اور پی آر لینے کے لیے مرے جاتے ہیں‘ وہ ہمارے ساتھ اپنے ملکوں میں کیا سلوک کرتے ہیں۔ آپ جان کر حیران ہوں گے کہ امریکہ کی کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں ڈیڑھ کلومیٹر کے اندر اندر دس سے زیادہ مساجد ہیں۔ یہ ایسے ملک کی بات ہے جسے ہم تہس نہس بھی کرنا چاہتے ہیں اور اس کی شہریت بھی لینا چاہتے ہیں۔ وہاں اسلامی سکول بھی ہیں‘ مدرسے بھی ہیں اور اسلامی تقریبات بھی ہوتی ہیں اور مسلمانوں کو اپنے عقائد کے ساتھ زندگی گزارنے کا پورا پورا حق دیا جاتا ہے۔ امریکہ میں کل تین ہزار اور برطانیہ میں پندرہ سو سے زائد مساجد ہیں۔ وہاں نہ تو مساجد کے باہر سے جوتیاں چوری ہوتی ہیں نہ ہی سکیورٹی گارڈ کو بیٹھنا پڑتا ہے۔ جبکہ ہمارے ملک میں آپ کو جوتی اپنی صف تک لے جانی پڑتی ہے تب جا کر کچھ سکون ہوتا ہے۔ یہاں تو آپ وضو کی جگہ پر صابن بھی نہیں رکھ سکتے کہ چوری ہو جائے گا۔ یہ تو ہمارا اصل چہرہ ہے اور آہستہ آہستہ یہ چہرہ ہم دنیا بھر کے سامنے عیاں کرتے جا رہے ہیں۔ دینی تعلیمات سے ہم خود دور بھاگتے ہیں اور توہینِ مذہب کا الزام دوسروں پر لگاتے ہیں۔ امریکہ میں پچاس ساٹھ لاکھ مسلمان رہتے ہوں گے جو امریکہ کی کل آبادی کا ایک ڈیڑھ فیصد یا اس سے بھی کم ہوں گے لیکن وہاں تو کوئی ان پر الزام لگا کر ان پر نہیں چڑھ دوڑتا۔ اِکا دُکا انفرادی نوعیت کے واقعات ہونا اور بات ہے لیکن ہمار ے ہاں جس طرح ہوتا ہے وہاں ایسا کب ہوتا ہے؟ ایک طرف تو ہم مہنگائی‘ بیروزگاری اور ملکی حالات کی وجہ سے ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں تو دوسری طرف ہماری حرکتیں ایسی ہیں کہ شاید ہمیں کوئی بھی ملک اپنے ہاں گھسنے کی اجازت ہی نہ دے۔ جڑانوالہ سانحے کے ذمہ داروں کو چن چن کر سزا ملنی چاہیے۔ انہیں دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا چاہیے تاکہ دنیا کوپیغام مل سکے کہ یہ واقعتاً ایک مخصوص گروہ کا ذاتی فعل تھا جس کی ریاست‘ ادارے اور ملک کے عام شہری سخت مذمت کرتے ہیں۔ اس مرتبہ اگر ذمہ داران بچ گئے تو پھر ایسے واقعات کو آئندہ ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔ خدا کے لیے پاکستان پر رحم کریں۔ اسے جینے لائق رہنے دیں۔