نہ جانے ہم کب سمجھیں گے‘ کب اس دورِ جاہلیت سے باہر نکلیں گے۔ دنیا کہاں جا رہی ہے اور ہم ابھی تک بیٹا اور بیٹی کے چکر سے ہی باہر نہیں نکل سکے۔ بنیادی مسائل اور معاملات کو ہی حل نہیں کر سکے۔ ایک اور افسوسناک واقعہ۔ ایک خاتون تیسری بیٹی کی پیدائش پر ہسپتال کی کھڑکی سے کود گئی۔ یقینا اسے ڈر ہوگا کہ اس کی ساس‘ اس کا شوہر اسے طعنے دیں گے اور اس کی زندگی اجیرن کر دیں گے۔ یہ کوئی پہلا یا آخری واقعہ نہیں ہے‘ آئے روز ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ اخبارات ایسی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں۔ کبھی بیٹی کی پیدائش پر بیوی کی شامت آ جاتی ہے‘ کبھی پیدا ہونے والی بچی کو ہی موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور کبھی میاں بیوی کے جھگڑے پوری فیملی کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں اور اس طرح سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ قوم ابھی تک نہیں سدھر سکی اور جاہلیت کی نئی مثالیں قائم کرنے کے درپے ہے۔ یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ آج کے دور میں بھی لوگ بیٹوں کو بیٹیوں پر کیوں ترجیح دیتے ہیں کہ جب لڑکیاں لڑکوں کی طرح تقریباً ہر میدان میں ترقی کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں برطانیہ میں ایک پاکستانی نژاد بچی نے ذہانت میں آئن سٹائن کا ریکارڈ توڑ دیا۔ پاکستان میں کئی ایسے غریب خاندان بھی ہیں جن میں کسی کی چار بیٹیاں ہیں تو چاروں انتہائی پڑھی لکھی ہیں جبکہ ہم ایسی بھی مثالیں دیکھتے ہیں کہ کسی کے چار بیٹے ہیں اور چاروں ہی نکھٹو نکلے ہیں۔ آج کل تو لوگ بچے اس لیے بھی زیادہ پیدا کرتے ہیں کہ زیادہ بیٹے ہوں گے تو زیادہ چانس ہو گا اور بہت اچھی قسمت ہوئی تو ایک آدھ اچھا نکل آئے گا۔ جبکہ وہی توجہ اگر بیٹیوں پر دی جائے تو بیٹیاں کبھی مایوس نہیں کرتیں۔ اگر آپ کی چار بیٹیاں بھی ہیں اور آپ ان پر یکساں توجہ دے رہے ہیں‘ ان کی تعلیم‘ صحت اور دیگر لوازمات کا بھرپور خیال رکھ رہے ہیں تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ کی بیٹیاں آپ کو مایوس کریں۔ باقی ہر بندہ اپنی اپنی قسمت اور تقدیر لے کر آتا ہے۔ کچھ کیس مختلف بھی نکل آتے ہوں گے لیکن اکثر میں بچیاں زیادہ تابعدار‘ زیادہ قابل اور زیادہ پریکٹیکل دکھائی دیں گی۔
ابھی تو ہمارا معاشرہ بھی خواتین فرینڈلی نہیں ہے۔ لڑکیوں کو گھر سے باہر نکلتے وقت کئی مرتبہ سوچنا پڑتا ہے‘ والدین دعائیں پڑھ کر انہیں باہر بھیجتے ہیں اور گندی نظریں ان کا ہر جگہ پیچھا کرتی ہیں۔ اگر یہ کلچر تبدیل ہو جائے اور انہیں ہر جگہ اسی طرح عزت دی جائے جیسے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو دی جاتی ہے تو یہی بچیاں کامیابی اور کامرانی کے اعلیٰ ترین معیار قائم کر دیں جیسا کہ مغرب میں ہوتا ہے۔مغرب تو دور کی بات ہے آپ خلیجی ممالک میں چلے جائیں۔ کئی ممالک میں تو رات کے دو بجے بھی لڑکی پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کر لیتی ہے اور بغیر کسی خوف کے تنہا سفر کرتی ہے لیکن پاکستان میں تو بچیاں دن کے اجالے میں بھی خود کو غیرمحفوظ سمجھتی ہیں۔ شاید یہی وہ خوف ہیں جن کی وجہ سے بچیوں کی پیدائش میں ہچکچاہٹ آتی ہے۔ تاہم ایسی خبریں آپ کو ان ترقی یافتہ ممالک سے شاید ہی ملیں جن کے بارے میں فتوے لگاتے ہم تھکتے نہیں ہیں۔ ان کے ہاں اور طرح کے مسائل ہیں اور بالغ لڑکے اور لڑکیوں کو اور طرح کی چھوٹ حاصل ہے تاہم وہاں پر بیٹی کی پیدائش پر بین نہیں کیے جاتے‘ نہ ہی انہیں ان کے حقوق سے زبردستی دور رکھا جاتا ہے۔ ہم دین کی باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے۔ ہمارا سارا زور عبادات پر ہے۔ حقوق العباد کی ہمیں خبر ہے نہ پروا۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنی بیٹیوں بہنوں کو جائیدادوں میں پورا پورا حصہ دیتے ہیں اور یہ چلن کسی ایک طبقے کا نہیں بلکہ بڑے بڑے عالم فاضل بھی اس معاملے میں کوتاہی برت جاتے ہیں۔ حالانکہ مسلمان کا امتحان خدا نے انہی چیزوں اور معاملات میں ہی تو رکھا ہے۔ اگر انہیں بھی پورا نہیں کرنا تو پھر دنیا میں لینے کیا آئے ہیں۔ اگر کھانا پینا‘ کمانا سونا ہی تھا تو یہ کام تو جانور ہم سے بہت بہتر کر رہے تھے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ تمام مخلوقات میں اشرف بنایا جانا انسان کے لیے صرف اعزاز کی بات نہیں بلکہ امتحان بھی ہے جس پر پورا اترے بغیر خدا کو راضی کرنا ممکن نہیں۔ ہمارے ہان اولادِ نرینہ کے لیے لوگ کیا کیا جتن نہیں کرتے لیکن اگر انہیں پتہ چل جائے کہ یہی بیٹے کل کو بڑے ہو کر ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے‘ وہ کبھی بھی ایسی تمنا نہ کریں۔ جو مل گیا اس پر شکر اور جو نہیں ملا اس پر صبر کرنا ہی بہتر ہے۔ ان معاملات میں ہمارے دین نے ہماری بہترین رہنمائی کی ہے اور دین کو کامل اسی لیے کہا گیا ہے کہ یہ تمام معاملات میں ہمیں راستہ دکھاتا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ جس کے ہاں دو بیٹیاں پیدا ہوں اور جب تک وہ اس کے پاس رہیں اس نے ان کے ساتھ بھلائی کی تو یہ اس کو جنت میں لے جائیں گی۔
اسلام نے دنیا میں جب اپنا نور بکھیرنا شروع کیا تو اس نے گویا دنیا کا نقشہ ہی تبدیل کر ڈالا۔ وہی بیٹی جسے پیدائش پر زندہ گاڑ دیا جاتا تھا‘ اسے عزت اور تکریم حاصل ہو گئی۔ وراثت میں اس کا حصہ مقرر ہوا حتیٰ کہ یہاں تک فرما دیا گیا کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ اسلام نے زمانۂ جاہلیت کی رسومات کو ماضی کا حصہ بنا دیا۔ بھٹکے ہوئے لوگوں کو ظلم اور جہالت کی دلدل سے باہر نکالا۔ ان کی تربیت کی اور انہیں ان کا کھویا ہوا مقام واپس دلایا۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ یہ دنیا آخری مقام نہیں بلکہ ایک سرائے ہے۔ یہاں نہ کسی نے ہمیشہ کے لیے رہنا ہے نہ ہی سب کو ایک جیسے حالات ملتے ہیں۔ کسی کو اولاد نہیں ہوتی‘ کسی کو صرف بیٹیاں ملتی ہیں‘ کسی کو دونوں اور کسی کو صرف بیٹے۔ دعا یہ کرنی چاہیے کہ خدا جو بھی عنایت کرے‘ بہترین نصیب اور رزق کے ساتھ عنایت کرے۔ بگڑی ہوئی اولاد چاہے وہ بیٹی ہو یا بیٹا‘ انسان کے لیے وبالِ جان بن جاتی ہے۔ قرآن میں بھی کئی جگہ فرمایا گیا کہ یہ مال اور اولاد تو دنیاوی زندگی کی چند روزہ آزمائش ہیں‘ اصل ٹھکانہ تو آخرت ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رکھنے کی ہے کہ اولادِ نرینہ بھی ایک آزمائش ہے اور جس طرح غربت آزمائش ہے اسی طرح خدا دولت دے کر بھی آزماتا ہے کہ انسان اس دولت کو کن مقاصد میں خرچ کرتا ہے۔ قرآن میں ایک جگہ دشوار گزار گھاٹی کا ذکر ہے اور کہا گیا ہے کہ تمہیں کیا معلوم کہ وہ دشوار گزار گھاٹی کیا ہے۔ آگے چل کر بتایا گیا ہے کہ کسی غلام کی گردن چھڑانا یا کسی قریبی یتیم کو کھانا کھلانا بہترین عمل ہے۔ اس طرح کے بے شمار احکامات قرآن میں واضح طور پر دیے گئے ہیں۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو ان پر عمل کرتے ہیں۔ صرف بیٹا یا بیٹی کا حصول سب کچھ نہیں ہوتا۔ زندگی اعمال کے مجموعے کا نام ہے۔ خدا کے ہاں کوئی ایک اور چھوٹا سا عمل بھی انسان کی معافی کا سبب بن سکتا ہے اگر خالص اللہ کی رضا کے لیے کیا گیا ہو۔ زندگی میں کرنے کو بہت سے کام ہیں لیکن ہم چند بنیادی حقائق کو بھی تسلیم نہیں کر سکے۔ بیٹیاں والدین کی زیادہ خدمت کرتی ہیں‘ لڑکوں کی طرح لااُبالی طبیعت نہیں رکھتیں اور والدین کی زندگی میں ان کیلئے زیادہ دعا گو رہتی ہیں اور رحلت کے بعد ان کے لیے زیادہ ایصالِ ثواب اور صدقہ و خیرات کرتی ہیں۔
بہت ہو گیا‘ خدا کے لیے اس بیٹا بیٹی کے چکر سے باہر نکلیں‘ خدا جو عنایت کرے اس پر مطمئن رہیں‘ ان کی صحت‘ رزق میں کشادگی اور اچھے نصیب کی دعا کرتے رہیں‘ اسی میں عافیت ہے۔