ہم اکثر یہ سنتے ہیں کہ ہمارا لائف سٹائل خراب ہے۔ ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ ہمارا لائف سٹائل یا زندگی گزارنے کا انداز آخر خراب کیونکر ہوا۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ہم تنِ آسانی کا شکار ہو رہے ہیں۔ بیٹھ کر کام کرنے کا رواج بڑھ رہا ہے اور ہر کوئی انٹرٹینمنٹ کے لیے موبائل اور ٹی وی کی لت کا شکار ہو چکا ہے۔ کھانا کھاتے وقت موبائل پر کوئی وڈیو لگانا بھی زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے۔ سب سے زیادہ تشویش چھوٹے بچوں اور نئی نسل کے بارے میں ہوتی ہے جو ایسے دور میں پروان چڑھ رہی ہے جب ٹیکنالوجی نے زندگیوں کو پوری طرح سے کنٹرول کیا ہوا ہے۔ کھانا منگوانا ہے‘ کسی کو پیغام بھیجنا ہے‘ سواری منگوانی ہے‘ کتاب پڑھنی ہے‘ یہ سب کام اب سکرین کے محتاج ہیں۔ اس قسم کے لائف سٹائل سے لامحالہ بیماریاں‘ ڈپریشن اور دیگر نفسیاتی عارضے پھوٹتے ہیں جو قسم قسم کے دیگر مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ پھر ہماری زندگیوں میں سیاست نے الگ ہلچل مچا رکھی ہے۔ لوگ اتنا اپنی صحت اور کام کے بارے میں متفکر نہیں ہوتے جتنا کہ سیاسی معاملات کے بارے میں پل پل انہیں جاننے کی فکر لگی رہتی ہے۔
بہرحال قصہ مختصر یہ ہے کہ لائف سٹائل کو جتنا جلد ہو سکے تبدیل کر لیا جائے‘ اتنا ہی اپنی ذات کے لیے بھی بہتر ہے اور گھر کے دیگر فیملی ممبرز کے لیے بھی کیونکہ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی زندگی میں آنے والے اتار چڑھاؤ سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔ لائف سٹائل کو بہتر کرنے کا پہلا اور موثر ترین قدم روزانہ ورزش ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہر کوئی روزانہ کوئی نہ کوئی ورزش ضرور کرتا ہے جبکہ ہم لوگوں کے پاس ہمیشہ یہی عذر ہوتا ہے کہ وقت نہیں نکلتا۔ کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ ترقی یافتہ ممالک کے لوگ فارغ ہوتے ہیں اور ہم بہت زیادہ مصروف قسم کی قوم ہیں جو ہمارے پاس اپنی صحت کیلئے بھی تیس چالیس منٹ نہیں ہوتے۔ یقینا ترجیحات کا فرق ہے اور جن کی اہمیت کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب ہم ڈاکٹر کے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں ۔کسی بھی قسم کی ورزش یا روزانہ کی واک انسان کی صحت کو بہتر بناتی ہے۔ جم جانا ضروری نہیں۔ کم از کم واک بھی کر لی جائے تو بھی معاملات زیادہ نہیں بگڑتے۔ اسی طرح ہم صحت مند خوراک سے بھی دور ہوتے جا رہے ہیں اور بازاری اور جنک کھانے کھا کر ہماری صحت بھی ویسی ہو رہی ہے۔ صحت مند کھانا کھانا‘ پھلوں اور سبزیوں کا کثرت سے استعمال صحت کو بہتر بناتا ہے۔ رات کو دیر تک کھانا اور کھانے کے بعد واک نہ کرنا موٹاپے اور دیگر عوارض کو دعوت دیتا ہے۔ اچھی نیند جسمانی اور دماغی صحت کے لیے یکساں مفید ہے۔ روزانہ اچھی نیند لینا‘ کم سے کم سات آٹھ گھنٹے بے خبر ہو کر سونا بادشاہوں کو بھی نصیب نہیں ہوتا لیکن جھونپڑ پٹی میں غریب ایسے ہی خراٹے مار کر زمین پر سو جاتا ہے۔ اس لیے کہ بادشاہ کو زر‘ زمین اور جاہ و جلال کی فکریں ستائے رکھتی ہیں جبکہ غریب دو وقت کی روٹی سے آگے خواب پالتا ہی نہیں اور اسی لیے پُرسکون رہتا ہے۔ ڈاکٹر آپ کو ہر بیماری میں یہی مشورہ دیں گے کہ سٹریس کم کریں۔ سٹریس کو کم کرنا‘ میڈی ٹیشن یا ری لیکسیشن ٹیکنیکس‘ جیسا کہ یوگا یا گہرے سانس والی ورزش‘ سے بہت ضروری ہے۔ ایک اور چیز کی کمی جو ہماری قوم میں ہے‘ وہ وقت کا کھل کر ضیاع ہے۔ وقت کو درست استعمال کرنا‘ ٹائم مینجمنٹ کرنا اور ضروری کام کو پہلے کرنا یہ سب چیزیں ہمیں سکول کالج سے سکھائی جانی چاہئیں بلکہ سکول جانے سے بھی پہلے یہ باتیں بچوں کو ازبر کرائی جائیں تو بچوں کو ہمیشہ کے لیے ذہن نشین ہو جائیں گی۔ لائف سٹائل کو بہتر بنانے کے لیے خود میں پڑھائی اور سیکھنے کا شوق پیدا کیجئے۔ روزانہ کچھ نیا سیکھنا‘ کتابوں کو پڑھنا یا کوئی نیا ہنر سیکھنا آپ کے لیے فائدہ مند ہے۔ اس سے آپ خود میں روزانہ ایک نئی توانائی اور امید کی کرن محسوس کریں گے۔ کوشش کریں کہ اپنے حلقۂ احباب میں ایسے لوگ شامل رکھیں جن کے ساتھ آپ قہقہے لگا سکیں اور دل کی بات کر سکیں۔ دوستوں اور فیملی کے ساتھ وقت گزارنا بھی آپ کو ذہنی سکون فراہم کرتا ہے۔ یہ صحت مند رشتے کہلاتے ہیں اور ان خوشگوار رشتوں کو برقرار رکھنا اور فیملی ٹائم کو اہمیت دینا لازمی ہے۔ اسی طرح ایک جگہ منجمد رہنے سے بھی لائف سٹائل متاثر ہوتا ہے۔ کچھ وقت باہر جا کر گزارنا چاہیے۔ چاہے گھر کے قریب کسی پرانے پیڑ کے نیچے چند منٹ بیٹھ جائیں۔ پرندوں کو اڑتے بیٹھتے دیکھیں۔ گھاس پھونس پر نظر ڈالیں۔ پودوں اور پھولوں سے باتیں کریں۔ قدرت سے جڑ کر رہیں گے تو قدرتی طور پر مضبوط رہیں گے۔ زیادہ تر لوگ جسمانی صحت کا خیال رکھتے ہیں اور طرح طرح کی ورزش شروع کر دیتے ہیں لیکن دماغی صحت سے کوتاہی برتتے ہیں۔ مینٹل ہیلتھ کا خیال رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا جسمانی صحت کا۔ اگر ضرورت ہو تو کسی سے مشورہ کر لینا چاہیے جہاں پر کوئی بے چینی محسوس یا رکاوٹ ہوتی ہو۔
آئیڈئل لائف سٹائل تبھی حاصل ہو گا جب ہم خود کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔ کسی بھی طرح کے تبدیلی کو قبول کرنا اور سیکھنا‘ ترقی کی شاہراہ پر چلنے کا پہلا اصول ہے۔ اسی طرح خوشی مزاجی سے لوگوں سے ملنا‘ ان کی مدد کرنا اور خوشیاں بانٹنا بھی انسان کی سوچ پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے یہ ہم سب کو معلوم ہے لیکن ہم میں سے کتنے اس پر پوری طرح عمل کرتے ہیں۔ جسمانی اور روحانی صفائی باقاعدگی سے کی جائے تو اس کے نتائج بھی فوری ملتے ہیں۔ اسی طرح نیکی کرنا بھی زندگی کو پائیدار بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ چاہے کسی بھی طرح کی نیکیاں کی جائیں‘ چاہے چھوٹی چھوٹی ہی کیوں نہ ہوں۔ ہم لوگ تو کام سے اتنے دور ہو چکے ہیں کہ اپنے گھر کی دہلیز بھی صاف کرنا توہین سمجھتے ہیں کہ یہ بھی سرکار آ کر کرے گی۔ ہم تو اپنے گھر کے اندر کے ذمہ دار ہیں جبکہ جدید ممالک میں یہ رواج عام ہے کہ آپ کے گھر کے بیرونی لان میں گھاس زیادہ بڑی ہو چکی ہے تو ساتھ والا کوئی ہمسایہ اپنی مشین لے آئے گا اور اسے صاف بھی کرے گا اور آپ سے کوئی پیسے بھی نہیں لے گا۔ ایسا لوگ خود کو مصروف رکھنے اور علاقے کو صاف رکھنے کے لیے بھی کرتے ہیں اور اپنے دل کو سکون پہنچانے میں بھی انہیں اس طرح کے کاموں سے مدد ملتی ہے۔ وہ کمیونٹی میں چھوٹے چھوٹے کام کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح زندگی کی سمت درست کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی غلطیوں سے سیکھا جائے اور آئندہ دہرانے سے باز رہا جائے۔ بے شک انسان اپنی غلطیوں سے نہیں بلکہ غلطیوں پر اصرار سے تباہ ہوتا ہے۔ اپنے لیے‘ اپنے آس پاس کے لوگوں کے لیے اور اپنی زندگی کے لیے شکر گزاری کا جذبہ لازمی پیدا کریں۔ اگر ہم کسی نعمت کے نہ ملنے پر پریشان ہیں تو دیکھیں کہ درجنوں سینکڑوں اور نعمتیں بھی تو ہمارے پاس ہیں جو کسی اور کے پاس نہیں ہیں۔ زندگی کی قیمت کو سمجھیں۔ ہر اک پل کو قیمتی سمجھنا اور اسے برابری طور پر قبول کرنا ہمیں عاجز بنائے گا اور عاجز بندہ کبھی بے چین نہیں رہتا۔ ہمیشہ زندگی کا مقصد تلاش کرنے کے بارے میں سوچئے۔ اپنے آپ کو بہتر بنانے کے لیے محنت کیجئے۔ جھوٹ سے بچنا اور سچائی پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے‘ چاہے مشکل ہی کیوں نا ہو۔ ہمیشہ سیکھنے کی تلاش میں رہنا چاہیے‘ ہر نئے دن کو نئے جذبے سے قبول کرنا نئی توانائی فراہم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اپنے ٹیلنٹ کو پہچاننا اس لیے اہم ہے کہ آپ جس چیز میں ماہر ہوں گے‘ اس میں زیادہ ترقی کریں گے۔ خود پر محنت کریں۔ اپنے آپ پر انویسٹ کریں۔ چاہے کتابیں پڑھنے کی صورت میں یا پھر جسمانی اور ذہنی کارکردگی کو بڑھانے کے لیے۔ لائف سٹائل یا زندگی گزارنے کے انداز بہتر بنانے کے لیے سب سے اہم محنت اور صبر ہے۔ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی‘ جلد یا بدیر اس کا پھل ضرور ملتا ہے۔ زندگی تو گزر جاتی ہے لیکن زندگی گزارنے کے انداز میں تھوڑی سے تبدیلی کر لی جائے تو یہ نسبتاً کم تکلیف اور خوشگوار لمحات کے ساتھ گزرے گی۔