فلسطین کی تازہ ترین صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ غزہ میں بچے بھوک مٹانے کیلئے گھاس اور آلودہ پانی پینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ کئی مہینے تک مسلسل اسرائیلی بمباری کی زد میں رہنے کے بعد اب غزہ میں قحط پھوٹ پڑا ہے۔ پہلے فلسطینیوں کا سامنا صرف میزائلوں اور بموں سے تھا لیکن اب بھوک کا عفریت بھی ان کی جان لینے کو تیار ہے۔ غزہ مکمل طور پر ایک جیل بن چکا ہے کہ جہاں قیدیوں کو روٹی کا ایک نوالہ یا پانی کا ایک قطرہ بھی سپریٹنڈنٹ جیل کی اجازت کے بغیر میسر نہیں ہو سکتا۔ غزہ میں بھوک سے بلبلاتے بچوں کی صورت میں ایک نیا انسانی المیہ جنم لے چکا ہے لیکن طاقتور دنیا ابھی تک ان پر نرمی برتنے کو تیار نہیں۔وہ حماس کے ایک حملے کے جواب میں غزہ کے بے گناہ عام لوگوں کو بھی قصور وار سمجھتے ہوئے ان کی جان لینے کے درپے ہیں۔
عالمی میڈیا پر غزہ کی ایک تصویر جاری کی گئی ہے جس میں سینکڑوں افراد جن میں اکثریت بچوں کی ہے‘ہاتھ میں برتن اٹھائے خوراک کے حصول کی جستجو کر رہے ہیں۔اگرچہ یہ سوال امریکہ اور اسرائیل سے متواتر کیا جا رہا ہے کہ اگر اسرائیل کا ٹارگٹ حماس تھی اور وہ اسے اپنے اوپر ہوئے حملے کا ذمہ دار سمجھتا ہے تو پھر اس کا بدلہ غزہ کے عام شہریوں اور مظلوم بچوں ‘بوڑھوں اور عورتوں سے کیوں لیا جا رہا ہے۔ غزہ میں ہر ایک فلسطینی بھوک سے تڑپ رہا ہے۔ فلسطین کی ایک چوتھائی آبادی شدید قحط کی لپیٹ میں آ چکی ہے اور یہ دنوں کی بات ہے۔ اگر مسئلہ حل کی طرف نہ گیا تو باقی آبادی بھی بھوک کا شکار ہو جائے گی۔ دنیا میں کئی جنگیں ہوئی ہیں لیکن کسی بھی جنگ میں مقامی شہری آبادی کو اتنی تیزی سے قحط کا شکار ہوتے نہیں دیکھا گیا جتنا کہ غزہ میں دیکھا جا رہا ہے۔دیگر جنگوں میں اقوامِ متحدہ اور دیگر سماجی تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت ہوتی ہے اور آزادی بنیادی انسانی حقوق کے تحت دی جاتی ہے جس میں قید کیلئے گرفتار کیے گئے دشمن قیدی کو بھی بنیادی سہولیات مہیا کیا جانا ضروری ہے‘ تاہم یہاں تو بدلہ ان لوگوں سے لیا جا رہا ہے جن کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور فلسطین کی سرزمین پر مقیم ہیں۔ ان کا سب سے بڑا جرم فلسطینی ہونا ہے جس کی سزا انہیں برابر دی جا رہی ہے۔
دنیا بھر سے مسلمان ممالک غزہ کیلئے امداد بھجوا رہے ہیں‘ کئی بھجوانا چاہتے ہیں لیکن مسئلہ وہی ہے کہ غزہ مکمل طور پر اسرائیل کے حصار میں ہے اور اس نے ہر قسم کی غذائی‘طبی اور دیگر امداد کو روک رکھا ہے۔اگر کسی ٹرک کو جانے کی اجازت ملتی بھی ہے تو اس کی انتہائی گہری سکریننگ کی جاتی ہے اور اس میں اتنا زیادہ وقت صرف کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے انتہائی قلیل مقدار میں چیزیں آگے پہنچ پاتی ہیں جو متاثرین کی تعداد اور ان کی طلب کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہیں۔چند سو لوگ ہی امداد وصول کرتے ہیں کہ سامان ختم ہو جاتا ہے اور ہزاروں‘ لاکھوں منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اسرائیل نے نہ صرف براہِ راست شہری آبادی‘ عمارتوں اور سڑکوں وغیرہ کو نشانہ بنایا ہے بلکہ شمالی غزہ میں بائیس فیصد زرعی رقبے کو بھی بمباری کے ذریعے ملیامیٹ کر دیا ہے جس کا مقصد غزہ کیلئے بحران در بحران پیدا کرنا ہے۔مچھلی پکڑنے والی ستر فیصد کشتیاں بھی تباہ کر دی گئی ہیں اور یہ وہ چیزیں ہیں جن کا اسرائیل پر حملے سے دور پار کا تعلق نہیں تھا ۔اسی طرح لوگوں کو سمندر تک رسائی کی اجازت بھی نہیں ہے۔لوگوں کے گھر‘ہسپتال پہلے ہی تباہ ہو چکے ہیں۔ انہیں علاج معالجے سے بھی پہلے خوراک اور صاف پانی کی ضرورت ہے۔ دوامل بھی جائے تو اس کا فائدہ بھی تب ہوتا ہے جب جسم کو متواتر خوراک مل رہی ہو۔خوراک کے بغیر ادویات تو بے کار ہی رہیں گی۔
غزہ میں روز بروز پیچیدہ ہوتی انسانی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سیکرٹری جنر ل اقوامِ متحدہ انتونیو گوتریس نے امریکہ اور مغربی ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ فلسطینی امدادی ایجنسی کیلئے امداد فوری طور پر بحال کی جائے تاکہ بھوک کے باعث جنم لینے والے کسی بھی المناک انسانی المیے سے بچا جا سکے۔اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ کی پٹی میں 22لاکھ افراد تیزی سے قحط کے خطرے سے دوچار ہیں جبکہ ایک چوتھائی ایسے ہیں جنہیں انتہائی نچلے یعنی پانچویں درجے کی فاقہ کشی کا سامنا ہے جسے تباہ کن درجہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس درجے میں انسان کو ایک دن میں بمشکل روٹی کا ایک نوالہ ہی میسر ہو پاتا ہے اور وہ تیزی سے نقاہت کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔خوراک کے بعد غزہ میں دوسرا بڑا مسئلہ آباد کاری ہے ۔ اکتوبر سے اب تک اسرائیلی بمباری میں 19 لاکھ افراد سڑکوں پر آ چکے ہیں‘ ان کے گھر یا تو مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں یا پھر وہ رہنے کے قابل نہیں رہے کیونکہ ہر قسم کا انفراسٹرکچر بھی ساتھ ہی ساتھ ختم کر دیا گیا ہے اور علاقے کا بجلی‘گیس‘پانی‘سیوریج حتیٰ کہ سڑکوں کو نظام بھی تہ تیغ کر دیا گیا ہے اس لئے وہاں رہنے کا کوئی بھی فائدہ نہیں کہ کسی قسم کی امداد بھی وہاں تک پہنچانا ناممکن ہو چکا ہے۔ زیادہ تر آبادی اب ہجوم کی شکل میں ایسی جگہوں کے قریب کھلے آسمان تلے مقیم ہے جہاں امدادی سامان آنے کا امکان ہے یا پھر مقامی سطح پر خوراک کا کسی نہ کسی سطح پر اہتمام کیا جا رہا ہے۔ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق بہت کم لوگوں کو رہائش کیلئے کیمپ میسر ہیں جبکہ کثیر آبادی کھلے آسمان تلے سردی اور بارش کا مقابلہ کر رہی ہے۔ہزاروں بچے ایسے ہیں جن کے والدین اور اہلِ خانہ شہید ہو چکے ہیں جبکہ کئی افراد ایسے بھی ہیں جو اپنے اپنے خاندان میں تنہا ہی زندہ بچ پائے ہیں۔ یہ لوگ بھی اب کچھ اور سوچنے کے قابل نہیں رہے کہ بھوک نے انہیں بے حال کر دیا ہے۔مقامی طور پر وسائل اور خوراک تیزی سے ختم ہو رہی ہے اور لوگوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ پیٹ کا دوزخ بھرنے کیلئے گھاس اور پتے کھانا شروع کر دیں۔ اسرائیل ایک بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح سب کچھ روندنے پر مُصر ہے۔ امریکہ کی جانب سے بظاہر اسرائیل کو ڈھکے چھپے تنبیہ بھی کی جاتی ہے اور حماس اور عام شہریوں میں تفریق رکھنے کا بھی کہا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صورتحال اس نہج تک کبھی نہ پہنچتی اگر اسرائیل کو امریکہ کی کھلی اشیر باد حاصل نہ ہوتی۔
گزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے ایسے کھلے بیانات دیے گئے جس میں انہوں نے اسرائیل کی واضح حمایت کی۔دیکھا جائے تو دوسری عالمی جنگ کے بعد جس ملک نے سب سے زیادہ امریکی وسائل حاصل کیے وہ اسرائیل ہے۔امریکی کانگریس کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ 1946ء سے لے کر 2023ء تک امریکہ نے اسرائیل کو 260ارب ڈالر کی امداد دی جس میں سے نصف عسکری امداد تھی۔امریکی نے بارہا اسرائیل کیلئے ویٹو کا حق بھی استعمال کیا۔اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی تاریخ کو دیکھا جائے تو امریکی نے 80سے زائد بار ویٹو کا حق استعمال کیا جس میں سے نصف بار اسرائیل کو بچانے کیلئے استعمال کیا گیا۔ کئی بار امریکہ اسرائیل کے حق میں ووٹ دینے والا اکیلا ملک تھا۔ اس پس منظر میں امریکہ سے یہ بعید رکھنا کہ وہ اسرائیل کو اس امر پر آمادہ کر لے گا کہ وہ جنگ کا دائرہ کار صرف حماس تک محدو د رکھے‘بھولے پن کے سوا کچھ نہیں۔