"ANC" (space) message & send to 7575

دہشت گردی، جارحیت… قیادت کا امتحان

دہشت گردی سے نبٹنے اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے مو ثر اور مربوط حکمت عملی وضع کرلی گئی ہے ۔کافی لے دے اور بحث وتمحیص کے بعد 21ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظور ہو چکی ہے اب فوجی عدالتیں قائم ہو جائیں گی۔گو یا کہ تحریک طالبان کی پاکستان میں پھیلائی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بساط بچھا ئی جا چکی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ دہشت گردوں کا بلاکم وکاست اب مکمل صفایا کیا جائے گا۔وزیراعظم نواز شریف اور پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف دونوں اس سلسلے میں پوری طرح فعال اور یکسو ہیں، پاک فوج کے ترجمان کے مطابق قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے چاروں صوبوں میں اعلیٰ سویلین اور فوجی عہدیداروں پر مشتمل اپیکس کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں جن کامقصد فوج اور حکومت میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔پاک فوج کے سربراہ جو ان کمیٹیوں کے اجلاسوں میں شرکت کے لئے چاروں صوبوں کے دورے کر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناکامی کا سوال ہی پید ا نہیں ہوتا۔ یہ تمام عوامل اپنی جگہ درست اور حوصلہ افزا ہیںلیکن عین ایسے مرحلے پر جب پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہے ہماری سرحدوںپر ایک اور فتنہ کھڑا ہو گیا ہے اور وہ ہے انتہاپسندبھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پاکستان کے خلاف جارحا نہ پالیسی۔
ورکنگ باؤنڈری پر پاکستانی فوجیوں پر بزدلانہ فائرنگ جس میںمتعدد فوجی شہید ہو ئے اس بات کا بین ثبوت ہے کہ بھارت پاکستان کو ٹف ٹائم دینا چاہتا ہے۔بھارتی زعماء پاکستان پر یہ بھونڈا الزام عائد کرتے ہیں کہ پاکستانی فوجی دراندازوں کو مقبوضہ کشمیر میں داخل کرنے کے لیے بھاری اسلحے سے فائرنگ کر رہے تھے جس کا بی جے پی کی ہندو نواز اور پاکستان مخالف حکومت نے بقول اس کے سخت جواب دینے کا فیصلہ کیا ۔اس کے بعد ورکنگ باؤنڈری پر گز شتہ دنوں گجرات کے قریب سمگلروں کی ایک کشتی کو بھارتی بحریہ نے بم سے اڑا دیا اور یہ عذر لنگ پیش کیا کہ یہ دہشت گرد بھارت میں ممبئی طرز کا حملہ کرنا چاہتے تھے لیکن بھارتی میڈیا نے ہی اس جھوٹ کا بھا نڈا پھوڑ دیا اور کہا کہ بھارت نے بین الاقوامی سمندری حدود میں جا کرچھوٹے موٹے سمگلروں کے خلاف یہ کارروائی کرکے عالمی قانون کی دھجیاں اڑائیں،دوسری طرف اپوزیشن جماعت کانگریس بھی خاموش نہ رہ سکی اور کہا کہ یہ سوانگ رچایا گیا ہے ۔ ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی فائرنگ سے ایک بچی اور پانچ شہریوں کی شہادت کی بھی اطلاع ملی ہے، اس پرمعذرت یا وضا حت پیش کرنے کے بجائے بھارت نے ڈھٹا ئی کا مظاہرہ کرتے ہو ئے ورکنگ باؤنڈری پر فائرنگ کے بارے میں پاکستان کی شکایت کو بھی مسترد کر دیا ۔ محسوس ہو تا ہے کہ بھارت کی جانب سے یہ سب کچھ سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا جارہا ہے جس کامقصد پاکستانی فوج کو مزید دباؤ میں لانا ہے ۔غالباً بھارتی منصوبہ سازوں کا تجزیہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج اس وقت دہشت گردوں کے ساتھ نبردآزما ہے لہٰذا اس پر دبا ؤ ڈالنے کا یہ موقع اچھاہے ۔حال ہی میں مجھے کسی نے بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت اگروال کے ایک لیکچر کی ویڈیو بھیجی۔اجیت اگروال جو پہلے بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں ،اس وقت بھارت کے نئے وزیر دفاع منوہر پار یکر کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف پالیسی بنانے میں پیش پیش ہیں ۔ معلوم نہیں لیکن ویڈیو دیکھنے سے لگتا ہے کہ یہ کچھ عر صہ پہلے کا ریکارڈ شدہ لیکچر ہے، اس میں مو صوف فرماتے ہیں کہ پاکستان بھارت کا دشمن ہے جس کی ہر قیمت پر بیخ کنی ضروری ہے ۔اس ''عقاب‘‘ کا یہ بھی کہنا ہے کہ محض اس لیے کہ پاکستان اسلامی دہشت گردوں سے لڑ رہا ہے ہمیںپاکستان کے ساتھ نرم رویہ نہیں رکھنا چاہیے، پہلے پاکستان کا شر ختم کریں اس کے بعد اسلامی انتہا پسندوں سے ہم خود ہی نبٹ لیں گے ۔ اجیت اگروال نے پاکستان کے خلاف جا رحا نہ عمل کی ایک نئی ڈاکٹر ائن پیش کی ہے جس کے مطابق پاکستان کے بارے میں offensive defenceپالیسی کے تحت عمل کیا جا ئے گا۔ دوایٹمی طا قتوں کے درمیان یہ محاذآرائی انتہا ئی خطرناک ہے لیکن بھارت کی ہندونواز انتہا پسند حکومت اور جدید اسلحہ سے لیس بھا رتی افواج پاکستان کے لیے بہت بڑاخطرہ ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ دو محاذوں والی صورت حال پاکستان کے لیے ایک انتہا ئی سنگین معاملہ ہے ۔یقینا اس سے نبٹنے کے لیے ہماری افواج پو ری طرح تیا ر ہیں لیکن اندرونی طور پر قوم کو جس طرح بنیان مرصوص بن جا نا چاہیے ایسا نہیں ہو رہا ۔ایک طرف تو وہ مذہبی انتہا پسند ہیں جو ہر قیمت پر اپنے ایجنڈے سے ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں ،چاہے وہ لا ل مسجد کے خود ساختہ خطیب مولاناعبدالعزیز کی گیدڑ بھبکیاں ہوںیا وہ لوگ ہوں جنہوں نے گز شتہ روز سلمان تا ثیر کی برسی کے مو قع پران کی یاد میں نکلنے والی ریلی پر حملہ کیااور دوسری طرف وہ لبرل فاشسٹ ہیں جو مختلف فورمز اور میڈیا کے ذریعے اس بات کارونا رو رہے ہیں کہ فوجی عدالتوں کے قیام سے ملک میں جمہوریت کا دھڑن تختہ ہو گیا ہے ۔اس امر کے باوجود کہ فوجی عدالتیں دوسال کے لیے ہوں گی اور یہ صرف چھٹے ہو ئے دہشت گردوں کے خلاف استعمال ہوں گی‘ انسانی حقوق کے یہ نام نہاد نام لیوا ان عدالتوں کی سر تو ڑ مخالفت کر رہے ہیں ۔اگرچہ کچھ لو گ غا لباً ایمانداری سے یہ سمجھتے ہیں کہ کو ئی حکومت یا فوج مستقبل میں ان اختیارات کو دہشت گردوں کے علاوہ سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کر سکتی ہے۔اسی بنا ء پر سابق وزیر قانون چوہدری اعتزاز احسن نے یہ تجو یز پیش کی تھی کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم سے ہی کام چلایاجائے‘ لیکن شاید ایسے ڈنگ ٹپاؤ اقدامات سے بات نہیں بن رہی تھی۔ لہٰذا اب جبکہ جمعیت علماء اسلام (ف)اور جماعت اسلامی کے سوا سب کااس بات پر اتفاق رائے ہے کہ ہم اس وقت حالت جنگ میں ہیں اور دہشت گردوں نے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ لہٰذا اس غیر معمولی صورتحال سے نبٹنے کے لیے غیر معمولی اقدامات ناگریز ہیں۔ لیکن یہ عجیب معاملہ ہے کہ حقوق انسانی کے بعض چیمپئن پاکستان میں کسی غیر مسلم کے خون کی ارزانی پرتو نو حہ کناںہو تے ہیں لیکن بھارت میں مسلمانوں پر ہو نے والے مظالم اور اس کی جا رحانہ پالیسی کے بارے میں منہ میںگھنگنیاں ڈال کر بیٹھے رہتے ہیں۔بھارتی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی پاکستان دشمن پالیسیوں کی مذمت میں ایک لفظ بھی نہیں کہتے۔ایک طرف تو یہ رونا رویا جاتا تھا کہ ہماری حکومتیں اور فوج دہشتگردوں سے ملی ہو ئی ہیں اور چوڑیاں پہن کر بیٹھی ہو ئی ہیں لیکن اب جبکہ حکومت اور فوج ایک صفحے پر آ کر دہشت گردوں کے نا سور کے خاتمے کے لیے جا رحانہ پالیسی پر عمل پیرا ہو رہی ہیں تو ان لو گوں کے پیٹ میں جمہو ریت کے نام پر مروڑ اٹھ رہے ہیں ۔
یقینا بھارت کے ساتھ ڈپلومیٹک سطح پر معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اوربھارتی زعماء کو باور کرانا چاہیے کہ دہشت گردوں کے خلا ف لڑ ی جانے والی جنگ میں اس کی بھی بقا مضمر ہے ۔ممبئی حملے کے مبینہ سرغنہ ذکی الرحمن لکھوی کے معاملے میں بھی حکومت پاکستان نے سخت موقف اختیار کر رکھا ہے ،اس کے با وجود نئی دہلی مطمئن نہیں ہو پا رہا ۔ میاں نواز شریف اور سیاسی قیادت کو اکٹھے ہو کر اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کا ر لاکرنہ صرف اندرونی دہشت گردی بلکہ بیرونی جارحیت کے خلاف بھی قوم کو اکٹھا کرنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں