"ANC" (space) message & send to 7575

عمران ریحام شادی اور میڈیا

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سیاستدان ہی نہیںبلکہ ایک معروف اور پر کشش شخصیت بھی ہیں اس لیے ان کی دوسری شادی کے باقاعدہ اعلان اور رسم سے میڈیا میں غیر معمولی ارتعاش پیدا ہو نا فطری امر تھا۔جب میں نے اوائل نومبر میں ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں عمران خان کی شادی کی خبر بریک کی تو میڈیا میں خان صاحب کے بعض حواریوںکے علاوہ پی ٹی آئی میں بھی ہاہاکار مچ گئی ۔پی ٹی آئی کے جیالوں کے بنائے ہو ئے بے نام ٹویٹر اکائونٹس کے ذریعے مجھے خوب برابھلا کہا گیا اور یہاں تک کیچڑ اچھالا گیا کہ خان صاحب کی ریحام خان کے ساتھ شادی کی بے پر کی خبرنواز شریف کے ایماء پر اڑا ئی جا رہی ہے کیونکہ میں بھی خدانخواستہـ ''شریفوں کا تنخواہ دار‘‘ ہوں۔ دوسری طرف ایک چینل (دنیانہیں) کے ایک اینکر نے ریحام خان جو خود ''ڈان ٹی وی‘‘ کی اینکر تھیں‘ کو انٹر ویو کے لیے بلا کر خبر کی بالواسطہ تردید کرانے کی کوشش کی ۔ اس پروگرام میںمحترمہ کا ارشاد تھا کہ بعض بزر گ اینکرزان جیسی نوجوان اینکرز کے آنے سے خوفزدہ ہیں کیو نکہ ان کی رو زی خطرے میں پڑ گئی ہے ۔خبر کی تردید کرنے کے بجائے انھوں نے محض یہ کہنے پر اتفاق کیا کہ وہ ایسی مکھیوں کو بائیں ہاتھ سے ماردیتی ہیں ۔اس وقت تو میں نے ان الزامات اور تردیدی بیانات کو اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ ان کا جواب بھی دیا جا ئے لیکن بعدازاں مجھے یہ کہنا پڑا کہ نہ تو میں اتنا بزرگ ہوں اور نہ ہی محترمہ اتنی نو خیز... اور یہ کہ میری خبر ٹھیک ہے اور ٹھیک ہی ثا بت ہو گی اور ایسا ہی ہوا۔
میرے لیے صحا فت ہی اوڑھنا بچھونا ہے اور قطعاً ایک ایسا زینہ نہیں ہے جس کے ذریعے ''کچھ اور‘‘ حا صل کیا جا ئے ۔میں تو کئی مدوجزر دیکھنے کے باوجود ابھی تک صحا فت کے ساتھ ہی منسلک ہوں ۔کالم بھی لکھتا ہوں‘ ٹی وی پروگرام بھی کرتا ہوں اور اخبار کی ایڈیٹری بھی ۔لیکن محترمہ اب ڈان ٹی وی کی اینکر کی بجائے ''مسز عمران خان‘‘ بن چکی ہیں ۔شادی کے اعلان موقع پر میں نے نو بیاہتا جوڑے کو مبارک دینے کی ٹویٹ کی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ "He who laughs last, laughs best"‘ بہرحال اب خان صاحب دوبارہ شادی شدہ ہو چکے ہیں اور ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں لیکن بعض نا قدین کا خیال ہے کہ میڈیا کا ایک حصہ ان کی شادی پر کچھ زیادہ ہی ڈونگرے برسارہا ہے اور وہ چینل بھی جو خان صاحب کے بدترین مخالف سمجھے جاتے ہیں وہ بھی پیچھے نہ رہے اورانھوں نے بھی سپیشل پیکج چلائے ۔ بھانڈوں کی طرح مبارک سلامت کے اس راگ سے ایسا لگتا تھا کہ پاکستان میں خان صاحب کے بیاہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو رہا ۔
خان صاحب سے یہ گلہ بھی کیا گیاہے کہ انہیں شہدائے پشاور کے چالیسویں کا انتظار کر لینا چاہیے تھا؛ تاہم ان کا کہنا ہے کہ شادی کے بارے قیاس آرائیوں اور میڈیا کی یلغار کی بنا پر انہیں شادی کا اعلان جلدی کرنا پڑا ۔ میری اطلاع کے مطابق توعمران اور ریحام کا نکاح نومبر2014ء میں ہی ہو گیا تھااور ادراک کے مطابق خان صاحب ایک خوبرو اور پڑھی لکھی خاتون کے ساتھ بغیر نکاح کے وقت گزارنا افورڈ ہی نہیں کر سکتے تھے۔ اُن کی شادی کی خبروں کے حوالے سے محترمہ ریحام خان پر بھی غیر ملکی میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے کافی کیچڑ اچھالا گیا ۔ جن لوگوں نے بھی ایسا کیا ، اچھا نہیں کیا‘ کیونکہ اس سے خان صاحب کے لیے خاصی مشکلات پیدا ہوئیں۔ خان صاحب کے والدین تو حیات نہیں ہیں لیکن ان کی چار بہنیں اس شادی کی سخت مخالف بن گئی ہیں ۔ اسی طرح ان کا کوئی بھی ذاتی دوست یا قریبی ساتھی شادی کے اعلان کی باقاعدہ تقریب میں شریک نہیں ہوا اور پارٹی کے سینئر رہنما بھی تقریبات سے عنقا تھے۔ اس خوشی کے موقع پر خان صاحب کو کم سے کم اپنی بہنوں کو منانے کی ضرور کوشش کرنی چاہیے تھی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ یہ سوال بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ جب نومبر میںنکاح ہو چکا تھا تو اب 8جنوری کو مفتی سعید کی طرف سے دوبارہ نکاح پڑ ھانے کی کیا شرعی حیثیت ہے؟تو بہرحال اب ناقدین کی زبانیں بند ہوجانی چاہئیں کیونکہ ''میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی‘‘۔ 
عمران خان پہلے یا آخری سیاستدان نہیں ہیں جنہوں نے اپنی سیاسی زندگی کے دوران دوسری شادی کی ہو۔ ہمارے اکثر سیاستدان دوسرا بیاہ اپنے سیاسی عروج کے دوران کرتے ہیں۔ اس ضمن میں تمغۂ امتیاز توپنجاب کے سابق گورنر غلام مصطفیٰ کھر کو ملنا چاہیے‘ جنہوں نے کئی شادیاں کیں۔ خادمِ اعلیٰ میاں شہباز شریف بھی تین شادیاں کر چکے ہیںاور اس ضمن میں ان کی کچھ ذاتی مجبوریاں ہوں گی‘ لیکن خان صاحب کی شادی اس لحاظ سے منفرد ہے کہ وہ اپنی پہلی اہلیہ جمائما کو طلاق دے چکے تھے ۔ جب انہوں نے کنٹینر پر نئے پاکستان کے ساتھ نئی شادی کا عندیہ دیا تو لوگوں کے کان کھڑے ہوئے۔ تا ہم نیا پاکستان تو نہیں بن سکا لیکن ان کی نئی شادی ہوگئی ہے۔ جمائما خان نے بھی اس موقع پر اپنے نام سے خان کا لاحقہ ہٹا دیا ہے ۔دیگر سیاستدانوں کے برعکس خان صاحب کی شادی کا میڈیا پر اتنا چرچا ہوا جس کی مثال پاکستان میں نہیں ملتی۔ میڈیا کی کوریج سے کچھ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پشاور کا سانحہ ہوا ہی نہیں ۔ ملک میں فوجی عدالتیں بننے کا عمل قصۂ پارینہ ہے اور دہشت گردی کی جنگ کی نظریاتی جہت بدلنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ۔ شاید کچھ چینلز نے ریٹنگ کی جنگ میں کچھ بڑھا بھی دیا زیبِ داستان کے لیے۔ 
اس وقت قومی اسمبلی کی اطلاعات ونشریات میڈیا کی قائمہ کمیٹی کی سربراہ ماروی میمن دہشت گردی کے حوالے سے میڈیا کا قبلہ درست کرنے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں سٹیک ہولڈرز کے ساتھ کچھ میٹنگز بھی ہوئی ہیں لیکن بہتر ہو گا کہ ہم میڈیا کے لوگ خود بیٹھ کر بدلے ہوئے حالات میں اپنا لائحۂ عمل تیار کریں لیکن دوسری طرف جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ میڈیا کو سیاستدانوں کے نجی معاملات میں دلچسپی نہیں لینی چاہیے‘ اصولی طور پر درست ہے لیکن ایسے نجی فیصلے جو اُن کے سیاسی مستقبل پر اثرانداز ہوتے ہوں‘ ان پر میڈیا کو خیال آرائی کرنے کا پورا حق ہے۔محترمہ بینظیر بھٹو کی7 198ء میں آصف علی زرداری کے ساتھ شادی بھی ایک بڑا میڈیا ایونٹ تھا اور اب تک یہ بحث چل رہی ہے اور جیسا کہ حالات نے بعد میں بھی ثابت کیا کہ زرداری صاحب کا بینظیر کی سیاست پر مثبت یا منفی ،گہرا اثر پڑا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ریحام خان صرف گھر ہستن بن کر رہیں گی یا اُن کا پی ٹی آئی میں کوئی سیاسی رول ہوگا۔ کواکب اورسیاسی مبصرین ایسے ہی بتاتے ہیں کہ وہ یقینا اپنا ایک سیاسی رول متعین کریں گی۔پی ٹی آئی کا بھی اور خان صاحب کابھی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں