گریٹ خان کو اپنی ہی تجویز کر دہ دوا کی ڈوز مل رہی ہے ۔ چند روز قبل جب وہ اپنی ''نئی نو یلی دلہن‘‘ کے ہمراہ پشاور میں آرمی پبلک سکول کے دورے پر گئے تو دہشت گردوں کے ہا تھوں شہید ہو نے والے بچوں کے مشتعل والدین پھٹ پڑے اور انھوں نے ''گو عمران گو‘‘ کے نعرے بلند کر دیئے ۔خان صاحب شسدررہ گئے کہ یہ کیا ہورہا ہے ؟سکیورٹی اہلکار انھیں سکول کا دورہ کروا کر عقبی دروازے سے نکال کر لے گئے۔بعدازاں تحریک انصاف کے سربراہ نے پریس کانفرنس میں اس بات پر حیرانی کا اظہا ر کیا کہ آ خر شہید بچوں کے والدین ان سے ناراض کیوں ہیں ۔شاید کنٹینر پر کئی ماہ تک للکارے مارنے اور ملک بھر میں بقول ان کے 2013ء کے عام انتخابات میں ایک مذموم سازش کے تحت دھاندلی کے خلاف تحریک چلاتے چلاتے وہ یہ بات بھول گئے کہ خیبر پختونخوا میں جو سب سے زیا دہ دہشت گردی کا شکار ہے‘ ڈیڑھ سال سے زیا دہ عرصے سے انہی کی حکومت ہے ۔ظاہر ہے کہ ان والدین‘ جن کے لخت جگر 16دسمبر کے سانحے میں شہید ہوئے‘ کے زخموں پر پھا ہا رکھنے والا کو ئی نہیں تھالیکن جہاں تک خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت کا تعلق ہے اس پر یہ الزام بھی عائد ہو تا ہے کہ انٹیلی جنس رپورٹوں کے باوجود چو کنانہ ہونے او ربروقت حفاظتی اقدامات کے فقدان کی وجہ سے یہ سانحہ رونما ہوا۔ تا ہم آرمی چیف جنرل راحیل شر یف نے اس سانحہ کے بعد جس فیصلہ کن انداز سے قوم کو دہشت گردی کے خلاف اکٹھا کر نے کا ڈول ڈالا اس سے لو گوں کی خا صی حد تک تشفی ہو ئی ۔لیکن خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک، خا ن صاحب کے پی اے زیا دہ اور وزیر اعلیٰ کم لگتے ہیں ۔ایک اطلاع کے مطابق وہ قریباًہر روز ہی پشاور سے نجی دورے پر اسلام آبا د آجا تے ہیں۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے کنٹینر پر ڈانس کرنے کے مناظر بھی عوام کے ذہنوں پر ابھی تک نقش ہیں ۔
16 دسمبر کے سانحے کے بعد عوام کا موڈ بدل چکا ہے ۔لیکن خان صاحب دھاندلی کے الزامات کے گھوڑے پر اب بھی سر پٹ دوڑ رہے ہیں اوران کی سوئی جو ڈیشل کمیشن کی تشکیل اور حلقہ این اے122 پر اٹکی ہو ئی ہے ۔جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو انھوں نے قومی اتفاق رائے کے لیے بلا ئی گئی اے پی سی میں شرکت کر کے مدبرانہ قدم اٹھا یا ،فوجی عدالتوں کے قیام کی بھی انھوں نے طوعاًکر ہاً حمایت کی۔لیکن ایک طرف تو انھوں نے اور ان کی ٹیم نے2013ء کے انتخابات کے حوالے سے خود پر ہذ یا نی کیفیت طاری کر رکھی ہے‘ دوسری طرف دہشت گردی اور اس کے محرکا ت کے سدباب کے بارے میں معنی خیز خاموشی اختیار کیے ہوتے ہیں ۔اس کے بر عکس وزیر اعظم میاں نواز شریف نے شروع میں ہی یہ بھانپ لیا کہ فوج نے 16دسمبر کے سانحے کے بعد اب ہر قسم کے دہشت گردوں کا قلع قمع کر نے کے بارے میں دوٹوک فیصلہ کر لیا ہے ۔لہٰذا ماضی قر یب میں طالبان سے ہر قیمت پر مذاکرات کرنے کی حامی حکومت ،یکدم دہشت گردی کا سر کچلنے کے لیے یکسو اور سرگرم ہو گئی ۔اس طرح سیاسی حکومت نے اس الزام کے باوجود کہ ''سافٹ کو‘‘ ہو چکا ہے ،فوج کے ساتھ تال میل بڑھا کر دہشت گردی کے خلا ف فیصلہ کن اقدامات کرنے شروع کر دیئے ۔ماحول میں اس تبدیلی کو خان صا حب نے بھی جز وی طور پر تو یقینا محسوس کیا ہے۔ اگرایسا نہ ہو تا تو وہ اپنا دھرنا ختم نہ کرتے اور دوبارہ دھرنا دینے کی دھمکی کو دھرنا کنونشن میں تبدیل نہ کرتے ۔یقیناحکومت کو بھی وزیر اطلا عات پرویز رشید کے بیانا ت کے ذریعے انتخا بی دھاندلیوں کی بنا ء پرخا ن صاحب کو مطعون کر نے سے اجتناب کر نا چاہیے اور کسی قسم کا جو ڈیشل کمیشن بنا کر خان صاحب اور ان کے ساتھیوں کی تسلی کر دینی چاہیے۔ اپنی گزشتہ پر یس کا نفرنس میںخان صاحب نے بھی کمیشن کے بارے میں نسبتا ًلچکدار رو یہ اختیا ر کر لیا ہے اور کہا ہے کہ وہ عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم کرنے کوتیا ر ہیں۔ اگر وہ کہتی ہے کہ گز شتہ عام انتخابات میں منصوبہ بندی کے ساتھ منظم دھاندلی نہیں ہو ئی تو وہ اسے تسلیم کر لیں گے۔ امید ہے کہ آج پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان اس سلسلے میں مذاکرات کی تجویز نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔ سیاست میں صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کر نا ہی اچھے سیا ستدان کا طر ہ امتیا ز ہو تا ہے۔پلڈاٹ(PILDAT )کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق جماعت اسلامی کے بعد پی ٹی آئی ہی سب سے زیا دہ جمہو ری پا رٹی ہے ۔لیکن اس ''جمہوری پارٹی‘‘ میں بھی خان صاحب خودہی فیصلے کر لیتے ہیں۔اگست کے اواخرمیں جب ان کے اور طاہر القادری کے دھرنوں نے اسلام آبا د میں نفسانفسی کی کیفیت طاری کی ہو ئی تھی تو انھیں آ رمی چیف جنر ل راحیل شریف کی اس پیشکش پر صاد کرنا چاہیے تھا کہ وہ وزیراعظم نوازشریف کا سر لینے کے مطالبے کو چھوڑ کر با قی ساڑھے پانچ نکا ت پر عمل درآمد کرا لیں لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا اور وہ جس امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کا انتظا ر کر رہے تھے وہ واپس اس امپا ئر کی جیب میں واپس چلی گئی ۔
اب صورتحا ل مختلف ہے۔ میاں نواز شریف نے اپنا قبلہ درست کر لیا ہے اور فوج ان کو اپنے صفحے پر لے آ ئی ہے۔ پیپلز پا رٹی سمیت پارلیمانی جماعتیں بھی ان کا ساتھ دے رہی ہیں ۔اپنی ذاتی زندگی میں بھی خان صا حب نے خراب ٹا ئمنگ کامظاہرہ کیا۔ وہ لو گ جو ریحام خان ( اب مسز عمران خان) کے کر دار پر ان کے ما ضی کے حوالے سے کیچڑ اچھا ل رہے ہیں، اچھا نہیں کر رہے ۔شادی ایک نجی معاملہ ہے۔ تا ہم اس حوالے سے بھی اگر خا ن صاحب با خبر لو گوں کے مطابق ماہ محرم میں نکاح کر لینے کے فوراً بعد ہی خاموشی سے اس کا اعلان کر دیتے تو بہتر ہوتا ۔ لیکن سا نحہ پشاور کے شہداء کے چالیسیویںکا انتظا ر کرنے کی بجا ئے انھیں آ خر دلہا میاں بننے کی کیا ضرورت تھی ۔پی ٹی آئی ما شاء اللہ مقبو لیت کے حوالے سے اس ملک کی سب سے زیا دہ ترقی پذیر جما عت ہے ۔عمران خان اپنی محنت شاقہ سے نواز شریف کے برانڈ کو تبا ہ کرچکے ہیں ۔اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی اس سیاسی برتری کو منظم کریں اور آئندہ انتخابات سے پہلے انتخا بی اصلا حا ت پر زور دیں ۔اس حوالے سے انھیں اور ان کے ایم این ایز کو قومی اسمبلی میں واپس چلے جانا چا ہیے کیو نکہ اگر پا رلیمنٹ تحلیل نہیں ہو رہی تو پی ٹی آ ئی کے ارکان اسمبلی کے استعفے دلوا کر سوائے اس کے کہ انھیں اپنے حلقہ انتخا ب سے کاٹ دیا جا ئے، کیا حا صل ہو گا اورمارچ میںہو نے والے سینیٹ کے انتخابات میں بھی یہ پی ٹی آئی کے لیے گھا ٹے کا سودا ہو گا ۔
جہا ں تک حکومت کا تعلق ہے تو اس کی پالیسیوں اور گو رننس کے دیوالیہ پن کا ایک بین ثبوت پورے ملک بالخصوص پنجاب میں پیدا ہو نے والا پٹرول کا بحران ہے ،اب نہ بجلی ہے،نہ گیس،اور نہ تیل۔حکومت کی انر جی پالیسیاں جگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہیں۔وزیر خز انہ اسحق ڈار نے بر سر اقتدار آتے ہی ڈینگ ماری تھی کہ وہ پیپلز پارٹی کی نا اہلی اور مبینہ کرپشن کی تلافی کر دیں گے ۔اسی حوالے سے انر جی سیکٹر کے گر دشی قر ضے اتا رنے کے لیے پا نچ سو بلین رو پے کا بڑے طمطراق سے اعلا ن کیا گیالیکن ڈھا ک کے وہی تین پات۔اب تو انر جی کے حوالے سے گر دشی قر ضو ںنے بالا ٓ خر ایسا رنگ دکھا یا ہے کہ سب کچھ بند ہو گیا ہے ۔ پی آئی اے اور آئی پی پیز نیم سرکاری پاکستان سٹیٹ آئل کے اربوں رو پے کے نادہند ہ ہیں۔ کوئی بنک اب اس دیوالیہ کمپنی کی ایل سی کھولنے یا گارنٹی دینے کو تیا ر نہیں ۔اس صورتحال میں مستقبل قریب میں پٹرول کے بحران کا کو ئی حل بھی نظر نہیں آرہا ۔ ستم ظریفی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے سیکرٹری پٹرولیم سمیت وزارت پٹرولیم کے چار اعلیٰ افسروں کو نا اہلی کی بناء پر معطل کر دیا ہے لیکن وزیر پٹرولیم بدستور قائم ودائم ہیں،استعفی تو ان کا مانگنا چاہیے تھا ۔ یقینا حکومت کو اپنی ایڈ ہاک از م کی پالیسیوں کے نتا ئج بھگتنا پڑیں گے اور اس کا فا ئدہ عمران خا ن کو ہو گا ۔انھیں گورننس کے مسا ئل پر بھی کچھ ہوم ورک کر نا چاہیے۔ بدقسمتی سے ابھی تک دیکھا جا ئے توان کا نیا پاکستان پر انے پاکستان سے زیا دہ مختلف نہیں ہے۔