گزشتہ ہفتے کو لاہور میں بیدیاں روڈ کے قریب پولیس ایلیٹ ٹریننگ سکول میں کاؤنٹر ٹیررازم فورس کے پہلے بیچ کی پاسنگ آؤٹ پریڈ بڑے تزک واحتشام سے ہو ئی ۔یہ تقریب اس لحا ظ سے منفرد تھی کہ اس میں وزیراعظم نواز شریف ،وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف ،چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف ،وزیر داخلہ چوہدری نثا ر علی خان کے علاوہ کورکمانڈرلاہور لیفٹیننٹ جنرل نوید زمان ،ڈی جی رینجرز اور دیگر اعلیٰ سول وفوجی حکام بھی موجود تھے۔ اخبارات کے ایڈیٹروں اور بعض اینکر حضرات کو بھی خصوصی طورپر مدعو کیا گیا تھا ۔اس لحاظ سے یہ تقریب اس عزم مصمم کی منہ بولتی تصویر تھی جو آپریشن ''ضرب عضب‘‘ اور بالخصوص 16دسمبر کے سانحہ پشاور کے بعد دہشت گردی کا یک جان ہو کر مقابلہ کر نے کے لیے کیا گیا تھا ۔کیا ہی اچھا ہوتا اس تقریب میں اپوزیشن کے رہنماؤں کو بھی بلا لیاجاتا بالخصوص جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور جمعیت علما ئے اسلام (ف ) کے سربراہ مولانافضل الرحمن جیسے جید علمائے دین اور سیاستدانوںکو جو دہشت گردی کے حوالے سے ابھی تک کنفیوژن کا شکار نظر آ تے ہیں ۔کاش پولیس ایلیٹ ٹریننگ سکول اور کا ؤنٹر ٹیر رازم کی طرح کی فورس سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی قائم کی جاتی۔ صوبہ سندھ نے تو پنجاب کی تقلید کرتے ہو ئے ایسے ادارے کے قیام کا اصولی فیصلہ کر لیا۔
ایلیٹ ٹریننگ سکول اور ایلیٹ فورس وزیراعلیٰ شہباز شریف کی کاوشوں سے ہی 1998ء میں قائم ہو ئی تھی۔اس وقت اگرچہ مذہبی دہشت گردی کا دوردورہ نہیں تھالیکن یہ ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ ایسی فورس ہو نی چاہیے جو چاق و چوبند دستوں پر مشتمل ہو اور روایتی پولیس سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکے۔جب اپریل 1998ء میں اس کا افتتاح ہو اتو میں اس تقریب میںبھی موجو دتھا ،ایلیٹ ٹریننگ سکول دہشت گردوں کو بھی کھٹکتا تھا اور 2011ء میں اس پر بزدلانہ حملہ کیا گیا جس میں ایک پو لیس اہلکار سمیت 2افراد شہید ہوئے تھے اور اس کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول بھی کر لی تھی جس پر پنجاب میں ایک نیا ادارہ سی ٹی ڈی انسداد دہشت گردی کے نام سے قائم کیا گیا اور اس کے لیے فنڈز بھی مختص کیے گئے ۔اس شعبہ کی کو کھ سے ہی کاؤنٹر ٹیررازم فورس نے جنم لیا ۔اس میں 1182 کارپورلز بھرتی کیے گئے ہیں،421 پر مشتمل پاس آؤ ٹ ہونے والا کارپورلز کا پہلا جتھہ جن میں 16خواتین بھی شامل ہیں‘ کی تربیت میں نہ صرف پاک فوج نے بھرپور اعانت کی بلکہ اس ضمن میں برادر اسلامی ملک ترکی کی قومی پولیس کے45سینئر افسربھی مددگار ثا بت ہو ئے اور اب دوسرے جتھے کی تربیت جاری ہے۔
تقریب کے شرکاء کے سامنے انٹیلی جنس ،کاؤنٹر انٹیلی جنس اور دہشت گردوں کی سرکو بی پر مبنی ایک فرضی مشق Mock Demonstration)) کا مظاہر ہ بھی پیش کیا گیا ۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے خواتین وحضرات کا رپورلرزمیںانعامات بھی تقسیم کئے۔ تقریب کے دوران یہ انکشاف بھی ہوا کہ بعض خواتین وحضرات میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کمانڈو بنے ہیں ۔وزیر اعلیٰ میاں شہبا ز شریف نے اپنے نسبتاً طویل خطاب میں بڑی صراحت سے حکومت کے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے کے عزم مصمم کا ذکر کیا ۔یہ وہ شہباز شریف نہیں لگ رہے تھے جن کے بارے میں ماضی میں یہ خبریں چھپتی رہی ہیں کہ اگر پنجابی طالبان ہمیں کچھ نہیں کہتے تو ہم انھیں کیوں چھیڑیں۔یقینا ان کی تقریر کے خصوصی مخاطب آ رمی چیف تھے کہ سویلین حکومت دامے درمے سخنے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔تقریب کے اختتام سے عین قبل سیکرٹری انفارمیشن پنجاب مومن آ غا نے بعض سینئر صحا فیوں کے کان میں سر گوشی کی کہ میاں نواز شریف میڈیا سے کچھ گپ شپ کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہمیں پہلے ہی ایک خیمے میں لے جایاگیا ۔میاں صاحب دہشت گردی پر بات چیت کرنے کے موڈ میں نہیں تھے بلکہ وہ یہ اعلان کرنا چاہتے تھے کہ یکم فروری سے تیل کی قیمتیں مزید کم کی جارہی ہیں‘ نیز انھوں نے اعدادوشمار کے حوالے دے کر یہ بھی بتا یا کہ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں خطے میں پہلے ہی سب سے کم ہیں ۔ تا ہم انھوں نے ساتھ ہی 5فیصد جی ایس ٹی بڑھانے کا مژدہ بھی سنایااور کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں قریباً چالیس فیصد کمی ہو نے سے حکومت کو اس مد میں نقصان ہو رہا ہے جس کو جزوی طور پرپورا کرنے کے لیے ٹیکس لگانا ضروری تھا۔
میرے اس سوال کامیاں صاحب کو ئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے کہ تیل سستا تو ہو گیا ،کیا ملے گا بھی؟میاں صاحب جو کافی خوشگوار موڈ میں تھے، نے انکشاف کیا کہ بعض افسروں اور تیل کمپنیوں کی نااہلی اور بعض عناصر کی مفا د پرستی کی وجہ سے تیل کی قلت پیداہو ئی لیکن ان کے بقول میڈیا نے جلتی پر تیل کاکام کیا ۔میاں صاحب جب بے نظیر دور میں اپوزیشن میں تھے تو انھوں نے مجھ سے کئی مرتبہ یہ کہاکہ انھیں وزیر اعظم بننے کا کو ئی شوق نہیں کیو نکہ وزیر اعظم کو تو اصل بات پتہ ہی نہیں چلتی۔ اس کے بعد میاں صاحب دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے ہیں‘ اب تو انھیں کچھ پتہ لگ جانا چاہیے کہ ان کے اردگرد کیا ہو رہا ہے ۔کاش میاں صاحب میڈیا پر ملبہ ڈالنے کے بجائے اپنی ٹیم کے ارکان‘ جو اصولی طور پر اپنے محکموں کی عدم کا رکر دگی کے لیے جو ابدہ ہیں‘ کو ذمہ دار ٹھہرا کر ان سے استعفے طلب کریں ۔نمبرداری کے ساتھ ذمہ داری جمہوریت کا ارفع اصول ہے لیکن ہمارے ہاں یکطرفہ ٹریفک ہے۔ نمبردار زیا دہ ہیں اور ذمہ دار کم ۔میاں نواز شریف جب آرمی چیف کے ساتھ چائے پیتے ہو ئے لو گوں میں گھلنے ملنے میں مشغول ہو گئے تو کچھ ایڈیٹرز اور اینکرز نے میاں شہباز شریف کو گھیر لیا ۔میری صحا فتی رگ پھڑکی ،میں نے مجیب الرحمن شامی اور حامد میر کی موجو دگی میں سوال کیا کہ وہ گورنر کسے بنارہے ہیں تو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہبا ز شریف نے بر جستہ طور پر کہا کہ آ پ بن جا ئیں ،میں نے بھی اسی غیر سنجیدہ انداز میں کہا کہ حضور میں حا ضر ہوں‘ جس پر میاں صاحب مسکرائے اور کچھ لاجواب ہو گئے، کہنے لگے کہ گورنر بنانا تو میرے اختیار میں ہے ہی نہیں ۔اب یہ خبر آ ئی ہے کہ میاں نواز شریف نے ان کو یقین دلایا ہے کہ پنجاب میں گورنر ان کی آ شیر با د سے ہی بنے گا ۔اب دیکھتے ہیں کہ قرعہ فال کس کے نام نکلتا ہے ۔میری رائے میں تو گورنر ایک سینئر یا کم از کم منجھاہو ا سیاستدان ہو نا یا ہو نی چاہیے۔مجھے اس بات سے اتفاق نہیں ہے کہ گورنر غیر سیاسی ہو نا چاہیے کیو نکہ غیر سیاسی گورنر غیر سیا سی ادوار میں ہی لگا ئے جاتے ہیں ۔سیاسی دور میں سیاسی گورنر ہی ہو نا چاہیے اور اس سلسلے میں جنوبی پنجاب کی کسی شخصیت کو ترجیح دی جانی چاہیے کیو نکہ تخت لاہور کی نمائندگی اور کلہ پہلے ہی بہت مضبوط ہے۔میاںشہباز شریف ایک اور معاملے میں بھی عملی دلچسپی لے رہے ہیں جو خوش آئند ہے اور وہ ہے ملک کے اندر ایجنڈا اور ترجیحات بدلنے کا معاملہ۔حکومت کو تیل تاریخی طور پر سستا ہو نے کی صورت میں اصلاح احوال کرنے کا بہت شاندار موقع ملا ہے۔ جب تک پسماندگی دور کرنے، تعلیم کے فروغ ،قانون کی حکمرانی کے احیا ،سستے اور بروقت انصاف کی فراہمی کے علاوہ عوام کو روزگار کے مواقع فراہم نہیں کئے جاتے دہشت گردی کے خلاف حکومت کی جنگ تشنہ ہی رہے گی۔اس کے علاوہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے قائد اعظمؒ کی ان تقاریر او ر فرمودات کو اوڑھنا بچھونا بنانے کی ضرورت ہے جو ملک میں ''جیواور جینے دو‘‘ کی پالیسی کاپرچارکرتے ہیں ۔اس سلسلے میں کچھ کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں لیکن کمیٹیاں توان کاموں کے لیے بنائی جاتی ہیں جنہیں سردخانے میں ڈالنا ہو۔ لہٰذا امید ہے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پاکستان کو نئی جہت دینے کے لیے عملی کارکردگی بھی دکھائیں گے کیونکہ محض ضرب عضب اور فوجی عدالتیں قائم کرنے سے ذہنوں کی جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔