گریٹ خان‘‘ کہاں سے چلے اور کہاں پہنچ گئے ۔ گزشتہ برس 14اگست کا لانگ مارچ ،اسلام آباد میںطویل ترین دھرنااور اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں ریلیاں اور جلسے ان کی سیاسی زندگی کا عروج تھا ۔ اگست کے اواخراور ستمبر کے اوائل میں خان صاحب کے طنطنے اور دباؤ کے علاوہ پروفیسر علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے کے نتیجے میں نواز شریف کی حکومت مفلوج ہو چکی تھی حتیٰ کہ عوامی تحریک کے جیالے ڈی چوک میں حکومت کی قبریں کھود رہے تھے۔اس وقت معاملات واقعی بہت گمبھیر تھے۔ پی ٹی آ ئی کے سربراہ اور ان کے حواری نواز شریف کے استعفے سے کم کسی بات پر سودا کرنے پر تیا ر نہیں تھے۔ اس بحران کو حل کرنے کے لیے فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی بالواسطہ طور پر میدان میں کو دپڑے تھے ،ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف مزید وقت ضا ئع کیے بغیر معاملات سلجھا لیں لیکن خان صاحب ڈٹے رہے۔ اس دوران ریت ان کی مٹھی سے سرکتی گئی اور وہ امپائر جن کی انگلی اٹھنے کا انتظا ر تھا ،اکتوبر میں ریٹا ئر ہو گئے ۔دوسری طرف درون خانہ خان صاحب کی ذاتی زندگی میں ایک ہلچل مچی ہو ئی تھی ۔وہ ایک نجی ٹیلی وژن کی اینکر ریحام خان کے عشق میں گرفتا ر ہو چکے تھے اور اوائل محرم میں عقدبھی ہو گیا‘ جس کا اعلان دوماہ سے زائدعرصہ بیت جانے کے بعد کیا گیا ۔16دسمبر کا سانحہ پشاور اگرچہ ہماری تا ریخ کا سیا ہ ترین باب ہے لیکن اس کے نتیجے میںخان صاحب کو دھرنے سے دستبردار ہو نے کا موقع مل گیا ۔بعداز اں جوں جوںحکومت مستحکم ہو تی گئی‘ یہ عمران خان سے کیے گئے وعدوں سے پھرتی چلی گئی ۔انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے سپریم جوڈیشل کمیشن کے قیام کا وعدہ بھی ایشیا ئی معشوق کا وعدہ ثابت ہوا ۔اب خان صاحب کی سیاست انتخابی عذرداریوں اور پریس کانفرنسوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے اوروہ اس لحا ظ سے بھی نمبر لے گئے ہیں کہ گز شتہ ایک ماہ میں 15سے زیا دہ پریس کانفرنسیں کر کے انہوں نے تمام سیاستدانوں کا ریکارڈ مات کر دیا ہے۔
موصوف پارٹی میں بھی مشاورتی عمل پر کم ہی یقین رکھتے ہیں اور اکثر فیصلے خود ہی کرتے ہیں‘ کیو نکہ ان کے اردگرد مشیروں میں سے کسی کو تو یہ مشورہ دینا چاہیے تھا کہ سیاستدان کے پاس اگر کہنے کو کچھ نہ ہوتو خاموشی یا کم گوئی ہی بہتر ہو تی ہے۔ ان کی تازہ گوہر افشانی ملا حظہ فرمائیں ،فرماتے ہیں کہ اس ملک کی بد قسمتی ہے کہ اسے نہ تو حقیقی جمہو ری لو گ ملے اور نہ ہی حقیقی آمر ملے ہیں۔ آمروں نے اپنے آپ کو جمہو ری ثابت کرنے کی کوشش کی اور جمہوری کہلانے والے آمر بن گئے ۔اگر کو ئی ٹھیک ڈکٹیٹر مل جا تا تو ملک آگے چلا جا تا ،ڈکٹیٹروں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اداروں کو تبا ہ کیا ۔
بعض حلقوں کا یہ خیال ہے کہ پاکستان میںفو جی آمر جمہوریت کا لبا دہ اوڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور سیاستدان آمریت کا۔ لگتا ہے خان صاحب اور ان کے بہت سے حواریوں کو فوجی آمریت سے کو ئی نظریا تی اختلاف نہیں ہے اور نہ ہی وہ جمہو ریت اور جمہوری عمل پر پختہ یقین رکھتے ہیں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ بہت سے پرویز مشرف کے حامی نوجوان‘ پڑھے لکھے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد، سوشل میڈیا کے دھنی حضرات و خواتین پی ٹی آئی کے بھی حامی ہیں۔ اب تو وہ 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی مسلسل دہا ئی دے رہے ہیں لیکن ایک وقت میں عمران خان خو د بھی پرویز مشرف کے تحت وزیر اعظم بننے کے لیے بے تاب ہو گئے تھے۔ انہیں 2002ء کے جھرلو انتخابات، مسلم لیگ(ق) جیسی مرغ دست آموز پارٹی کے قیام اور پیپلز پارٹی سے ٹوٹنے والے 'پیٹریاٹس‘ میں کو ئی خرابی نظر نہیں آئی۔یہ بات واضح ہے کہ جمہو ریت پر خان صاحب کا ایمان غیر متزلزل نہیں ہے۔ وہ آزاد عدلیہ کا دم بھی بھرتے ہیں لیکن صرف اس شرط پر کہ وہ ان کے حق میں فیصلے صادر کرے۔چونکہ پی ٹی آ ئی کے فلسفے کے تحت ہر وہ شخص‘ چا ہے وہ جج ہویا صحا فی‘ اگر اس کے خلا ف ہے تو نواز شریف یا آصف زرداری کے ہاتھوںمیں بکا ہوا ہے ۔
سینٹ کی آدھی نشستوں پر انتخابات کی آمد آمد ہے۔ اس سلسلے میں جو ڑ توڑ بھی جا ری ہے۔ پی ٹی آ ئی نے بھی انتخابات میں خیبر پختونخوا کی حد تک حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ان کے مطابق تو2013ء کے انتخابات پراگندہ تھے۔ پھرا س کی کوکھ سے جنم لینے والی قومی وصوبائی اسمبلیوں پر مشتمل الیکٹورل کالج ہی نئے سینیٹروں کا انتخاب کرے گا۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ خیبر پختونخوامیں کو ئی دھاندلی نہیں ہوئی‘ چونکہ وہاں وہ جیت گئے‘ لہٰذا وہاں انتخابی عمل بہتر تھا۔ لہٰذا اگر پی ٹی آ ئی صوبے سے چھ سات سینیٹر منتخب کر لیتی ہے تو اس میںکیا حرج ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ سینٹ بھی پارلیمنٹ کا حصہ ہے توقومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی شدہ پی ٹی آئی کے رہنما ایسے ایوان میںکیوں بیٹھنے کو تیا ر ہیں ؟ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پی ٹی آ ئی اپنے اس غلط فیصلے پر بھی نظر ثانی کرتی اور قومی وصوبائی اسمبلیوں سے استعفے دینے کا فیصلہ واپس لے لیتی لیکن یہ عجیب طرفہ تماشا ہے کہ نہ تو پی ٹی آ ئی کے ارکان انفرادی طور پر سپیکر کے سامنے پیش ہونے کو تیا ر ہیں تا کہ استعفوں کی تصدیق ہو سکے اور نہ ہی اسمبلیوں میں واپس آ رہے ہیں ۔جب خان صاحب نے اسمبلیوں سے استعفے دینے کا فیصلہ اپنے ارکان پر ٹھونساتھا‘ اس وقت ان کی سیاست عروج پر تھی اور اس لحا ظ سے استعفے دینے کی تُک بھی بنتی تھی۔ اگر اسمبلیاںہی نہ رہیں تواستعفے دینے میں کیا حرج ہے‘ لیکن اب جبکہ وقت گز ر چکا ہے‘ فوج اور حکومت کے درمیان تال میل بہت بہتر ہو چکا ہے ۔اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ موجودہ حکومت کی چھٹی ہو جائے گی اور اسمبلیاں گھر چلی جا ئیں گی۔ اس صورت حال میں پی ٹی آ ئی کے ارکان کوان کے حلقوں کی نمائندگی سے محروم کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ سیاست میں ہر فیصلے کی ٹائمنگ ہوتی ہے۔ اگر وقت گزرنے کے بعد درست فیصلے بھی کیے جا ئیں تو وہ الٹے ہی پڑتے ہیں ۔جس وقت حکومت قریباًگھری ہو ئی تھی ،خان صاحب کو اس وقت نواز شریف کے استعفے پر اصرار کرنے کے بجائے جوڈیشل کمیشن بنوا لینا چاہیے تھا‘ لیکن انہوں نے یہ مطالبہ واپس لے لیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ حکومت ان کی شرائط پر کیو نکر ایسا جو ڈیشل کمیشن بنائے گی جس کے ٹرم آف ریفرنس کی بنیا دہی یہ ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کی منظم سازش ہو ئی تھی۔اس وقت عوام مسلم لیگ (ن) کی نا قص کا رکردگی اور گورننس سے سخت نا لاں ہیں اور سندھ کے علاوہ باقی ملک میں پیپلز پارٹی کا حال بھی بہت پتلا ہے ۔اس طرح دیکھا جا ئے تو پی ٹی آ ئی ایک متبادل قیادت کے طورپر ابھر ی ہے ۔لیکن عمران خان اگر وزیراعظم بن بھی گئے تو کیسے وزیراعظم ہوں گے‘ کیونکہ ان کا نیا پاکستان پرانے پاکستان سے زیا دہ مختلف نظر نہیں آتا۔کہیں ان کے ناقدین کو یہ نہ کہنا پڑے کہ پی ٹی آ ئی نئی بوتل میں پرانی شراب ہی ہے۔