برادرم مجیب الرحمن شامی جو کونسل آف پاکستان نیوز پیپرزایڈیٹرز کے صدر بھی ہیں‘ کی وساطت سے سی پی این ای کے ارکان اور لاہور کے مدیران اخبارات وجرائد کی لاٹر ی نکل آ ئی اور2013ء کے بعد پہلی مرتبہ وزیراعظم میاں نوازشریف سے ان کی بالمشا فہ ملاقات ہو گئی اور انھیں نہ صرف وزیراعظم کے رشحات فکر ، جو وہ اکثر سنتے رہتے ہیں،سننے بلکہ پہلی مرتبہ سوالات کی بو چھاڑ کرنے کا موقع بھی مل گیا۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کھل کر بات کی کہ میڈیا قومی سلا متی کی خا طر بالغ نظری سے کام لے اور دو برس کے لیے ریٹنگ کی دوڑ کو چھوڑ کر کم از کم دہشت گردی کے خلاف جنگ اور قومی ایشوزکے حوالے سے خود پر رضا کارانہ مو ریٹریم لگا لے ۔اگرچہ وزیر اعظم میاں نواز شریف پرنٹ میڈیا کی تنظیم کی تقریب میںگفتگو کر رہے تھے لیکن ان کاتمام تررو ئے سخن الیکٹرانک میڈیا ہی تھا ۔ وہ قومی ایکشن پلان کے حوالے سے میڈیا کی غیر مشروط حمایت کے متمنی نظر آئے ۔میاں صاحب نے یہ بات بھی دہرائی جو آ ج کل وہ اکثر کہتے رہتے ہیں کہ ''وزارت عظمیٰ کا عہدہ پھولو ں کی سیج نہیں‘ کانٹو ں کا بستر ہے‘‘ مسا ئل بے شمار ہیں او ر وسا ئل کم۔میاں صاحب نے ایک دلچسپ بات کہی کہ میڈ یا کے زیا دہ تر ارکان نے پر ویز مشرف کے مارشل لا ء کا ساتھ دیا اور جن صحا فیوں نے جمہو ریت اور قانون کی عمل داری کا دم بھرا اور قربانیاں دیں وہ انھیں آج بھی اچھی طرح یا دہیں ۔مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا ،کیو نکہ حکمران اکثر اقتدار میں آنے کے بعد اپوزیشن کے دور میں برداشت کی گئی صعوبتوں کو بھول جاتے ہیں یا نظرانداز کر دیتے ہیں ۔جسد سیاست اور میڈیا میں پائے جانے والے کا سہ لیسان از ل کی اکثر یت ان کے اردگرد جمع ہو جاتی ہے ۔اسی بناء پر میں نے اجلاس کے بعد لنچ کے موقع پر میاں صاحب سے دوبارہ پو چھا کہ ان کو جمہو ریت پسند صحا فیوں کے نام واقعی یا د ہیں تو انھوں نے اثبات میںجواب دیا ۔
محترم مجیب الرحمن شامی نے اپنے ابتدائی کلمات میں بجا طور پر یہ کہا کہ میاں نواز شریف کے موجودہ دور حکومت میں میڈیا پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی اور نہ ہی اشتہارات کو میڈیا پر دباؤ کے حربے کے طور پر استعمال کیا گیا ۔یہ حقیقت بھی ہے کیو نکہ الیکٹرانک میڈیا پر بعض چینل اور مخصوص اینکر حضرات ہر شام ان کی پت اڑاتے ہیں لیکن ماضی کے بر عکس اب میاں صاحب ان سب کی تنقید کو برداشت کر لیتے ہیں ۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے انکشاف کیا کہ ہمت،صبر،اور ضبط سے کام لینا اب ان کا وتیرہ بن چکا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ وہ میڈیا پر قدغن لگانے کا کو ئی ارادہ نہیں رکھتے لیکن میڈیا کو رضاکارانہ طور پر نہ صرف اپنا ضا بطہ اخلاق بنانا چاہیے بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کرنا چاہیے اور اپنی صفوں میں پائی جانے والی کالی بھیڑوں کا احتساب بھی میڈیا کی تنظیمیں از خو د ہی کریں ۔میاں صاحب نے یہ انکشاف بھی فرمایا کہ انھوں نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ تین ماہ یا تین سال میں لو ڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی تا ہم انھوں نے یہ خوشخبر ی بھی دے دی کہ وہ حکومت کی ٹرم پوری ہو نے تک لو ڈشیڈنگ ختم کرنے کی پو ری کو شش کریں گے۔ ''میاں صاحب کے منہ میں گھی شکر‘‘۔ انھوں نے بتا یا کہ ترکمانستان سے بھی گیس لا ئی جا ئے گی اور ایران سے گیس لانے کے لیے پا ئپ لائن بھی بچھا ئی جا ئے گی۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو ۔لیکن وہ زرداری دور میں کی جانے والی اپنے برادر خورد میاں شہباز شریف اور خواجہ آ صف سمیت بعض سا تھیوں کی تقاریر دلپذیر کا اب جائز ہ لیں جو اس وقت تو ہرمرض کی جڑ زرداری دور کی کرپشن کو قرار دے رہے تھے اور نیز یہ دعوے بھی کیے جارہے تھے کہ ہم چند ماہ میںلو ڈ شیڈنگ سمیت سب کچھ ٹھیک کر دیں گے ،اسی لیے لو گوں کی ڈھا رس بندھی تھی اور میاں نواز شریف اور ان کی ٹیم کو تیسری بار منتخب کیا گیا ۔عام طورپر لو گوں کوتو قع تھی کہ میاں نواز شریف کا دور جیسا بھی ہو گا بہر حال پیپلز پارٹی کی بد انتظامی سے بہتر ہوگا‘ لیکن دوسال سے کم عرصے میں گورننس کا ایسا بیڑ ہ غرق ہوا ہے کہ بعض لو گوں کو وہ دور بہتر لگنا شروع ہو گیا ہے ۔میاں صاحب نے میڈیا سے بالعموم اور نام لیے بغیر اینکرز سے بالخصوص اس بات کا گلہ کیا کہ گز شتہ بر س دھرنے کے دوران یہ لو گ مجموعی طور پر عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے ڈھنڈورچی بن گئے تھے ۔وزیر اعظم نے کسی فرد یا ادارے کا نام لیے بغیر یہ بات باور کرائی کہ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کی ملی بھگت ایک مذموم سازش کا حصہ تھی اور کہا کہ ان اینکروںنے تو دھرنے کے دوران بطور وزیراعظم ان کی چھٹی کرادی تھی ۔میاں صاحب نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ ہم خود جکڑے گئے لیکن میڈیا کو نہیں جکڑا ۔انھوں نے میڈیا کو تلقین کی کہ وہ بہتان تراشی سے کام نہ لے،لوگوں کی پگڑیاں نہ اچھالے کیونکہ انھوں نے خو د بہت عرصہ پہلے دل میں تہیہ کر لیا تھا کہ وہ غیبت نہیں کریں گے اور آج تک اس پر قائم ہیں لیکن یہ بھی کہا کہ بعض اوقات وہ اصلاح احوال کی غرض سے کچھ باتیں کر دیتے ہیں۔ حسب توقع ان کے خطاب کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس میں سے بعض سوالات بہت دلچسپ تھے لیکن بعض صحا فیوں کے سوالات کم اور تقاریر زیا دہ تھیں اور بعض کے رشحات فکر توانوکھے اور منفرد تھے ۔ محسوس ہو رہا تھا کہ عمو می طور پر سوالات کا معیا ر وہ نہیںجو قومی ایڈیٹروں کی ایک تقریب میں ہو نا چاہیے تھا بلکہ بعض سوالات تو بالکل فروعی نو عیت کے تھے مثلاً روحانی جریدے ''آئینہ قسمت‘‘ کے چیف ایڈیٹر زنجانی صاحب‘ جوزائچے پر مبنی جنتر ی بناتے ہیں‘ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تما م مسائل کی وجہ منگل کے روز گوشت کا نا غہ ہے اوراس روز سنت ابراہیمی پو ری نہیںہو رہی اور وطن عزیز سے نحوست کا سایہ اسی وقت اٹھے گا جب منگل کو گوشت کا نا غہ ختم کر دیا جا ئے گا ۔موصوف کے پاس میاں نواز شریف کے اس بر جستہ استفسار کا کوئی جواب نہیںتھا کہ پھر خا لی منگل ہی کیوںبدھ کو بھی ا ڑا دینا چاہیے؟۔
سی پی این ای اور اے پی این ایس کے صدر کے طور پر میں نے محترمہ بینظیر بھٹو ،میاں نواز شریف ،شوکت عزیز اور جنرل پر ویز مشرف کو کئی مرتبہ ایسے اجتماعات میں مدعوکیا اور عرصۂ دراز سے شامی صاحب کی تو جہ اس جانب مبذول کرارہا تھا کہ وہ میاں صاحب کو سی پی این ای کے پلیٹ فارم پر مدعو کریں ،اور شامی صاحب نے اس بات کا کھانے کی میز پراظہار بھی کیا ۔ ہفتہ کے روز یہاں وزیر اعظم کی آمدمیں محترم عرفان صدیقی اور برادرپرویز رشید کا رول کلیدی تھا ۔میرے زمانۂ صدارت میں سی پی این ای ایک غریب تنظیم ہو تی تھی اور محض اے پی این ایس کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر تنویر طاہر کے تعاون سے بروشر میں چھپنے والے اشتہاروں کے ذریعے ایسی تقریبات کے اخراجات کے لیے فنڈزجمع کیے جاتے تھے‘ لیکن مجیب الرحمن شامی صاحب نے ایک ہی جست میں سی پی این ای کو ایک قلاش تنظیم سے اے پی این ایس سے بھی زیا دہ مالدار تنظیم بنا دیا ہے اور اس کا کریڈٹ انہی کو جاتا ہے۔ شامی صا حب نے سی پی این ای کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر جبار خٹک کے مشورے سے میاں صاحب سے 5کروڑ روپے کی گرانٹ کا مطالبہ کیاحالانکہ میاں صاحب کچھ زیا دہ دینے کے موڈ میں تھے ۔انھوں نے ایڈیٹروں کی تنظیم کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اپنے ہیڈ کوارٹر کی تعمیر کے لیے پلاٹ دینے کے مطالبہ پر بھی صاد کہا ۔میاں صاحب نے ازراہِ تفنن کہا کہ شامی صاحب نے سپاسنامے میں کہا ہے کہ حکومت پلاٹ دے گی تو ہم بصد شکر یہ قبول کر لیں گے‘ گویا سی پی این ای کے لیے حکومت سے پلاٹ قبول کر کے حکومت پر احسان کر یں گے تو ٹھیک ہے حکومت پلاٹ دے کر یہ احسان لینے کو تیا ر ہے ۔امید ہے کہ میاںنواز شریف ایڈیٹروں سے ملاقات کی اس روایت کو آگے بڑھا ئیں گے اور اب پھر دو برس کے لیے عنقانہیں ہو جا ئیں گے۔