"ANC" (space) message & send to 7575

’ضرب عضب‘ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں!

'ضرب عضب‘پوری قوت سے جاری ہے لیکن اس کے باوجوددہشت گردوں کے خلاف اس آپریشن میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔شمالی وزیرستان میں بری فوج کے علاوہ دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے کیلئے فضائیہ کا بھی کافی موثر طریقے سے استعمال ہو رہا ہے ۔چند روز قبل ہی وادی تیرہ میں طیاروں کی بمباری سے 48 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیااور ان کے ٹھکانے تباہ کر دیئے گئے۔ اس مربوط کارروائی کوشروع ہوئے قریباً 9 ماہ ہو چکے ہیں لیکن اس خطے میں انواع و اقسام کے دہشت گرد اس حد تک اثرکر چکے تھے کہ ابھی تک ان کا مکمل طور پر قلع قمع نہیں کیا جا سکا۔یہ علاقے میڈیا کے لئے ہنوز ''نو گو ایریاز‘‘ ہیں اور ہمارے تک جو خبر پہنچتی ہے اس کا ذریعہ آئی ایس پی آر یا فوج کے جاری کردہ بیانات ہی ہوتے ہیں۔ابھی حال ہی میں یہ نوید بھی سنائی گئی ہے کہ آئی ڈی پیز کو جلد واپس بھیج دیا جائے گا‘ لیکن اگر ابھی تک ان علاقوں کو تحریک طالبان سے مکمل طور پر صاف نہیں کیا گیاتو ان علاقوں کے باسی اپنے گھروں کو واپس کیسے جاسکتے ہیں ۔
چند روز قبل مسلم لیگ(ق ) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین جو سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں‘ نے مجھے بتایا کہ وہ شمالی وزیرستان تشریف لے گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں مساجد کے سوا سب کچھ زمین بوس ہو چکا ہے اور دہشت گردوں کا سرنگوں کا جال اتنا وسیع تر ہے کہ دیکھ کر خوف آتا ہے کہ یہ عناصر موجودہ آپریشن سے پہلے کس حد تک اس علاقے میں سرایت کر چکے تھے اور فوج کی موجودگی کے باوجود اپنی من مانی کرتے تھے۔چودھری صاحب نے کہاکہ آپ اچھے اخبار نویس ہیں کہ اب تک وہاں گئے ہی نہیں... میرا ان کو جواب یہ تھا کہ کوشش پوری ہے کہ ہم وہاں جائیں۔جب سٹی 42 کے دفتر میں میری ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے بھی عرض کیا کہ اخبار نویسوں کو اس علاقے میں جانا چاہیے اور اس ضمن میں آئی ایس پی آر کو بطور سہولت کار اپنا کلیدی رول ادا کرنا چاہیے۔تاہم اس معاملے کو فالو نہ کرنے کی کوتاہی کو میں تسلیم کرتا ہوں لیکن چودھری صاحب نے جو نقشہ کھینچااور آپریشن کی جواطلاعات وہاں سے آتی رہتی ہیں اس تناظر میں دیکھا جائے تو وہاں امن و امان کی بحالی یا اس علاقے کو دہشت گردوں سے مکمل پاک کرنے کیلئے ابھی اور بہت پاپڑ بیلنے پڑیں گے جن کیلئے وقت درکار ہوگا۔
مقام شکر ہے کہ موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے اس عذر لنگ کو درخوراعتنا نہیں سمجھاجسے ان کے پیشرو جنرل اشفاق پرویز کیانی نے آپریشن نہ کرنے کے حوالے سے اپنایا ہوا تھا۔کیانی صاحب جنہوں نے 6 برس تک آرمی چیف کا منصب سنبھالے رکھا،میڈیا سے وقتاً فوقتاً گپ شپ لگاتے رہتے تھے ،ان سے میری ذاتی یاداللہ بھی تھی۔جنرل کیانی ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ اگر طالبان کے خلاف بھرپور آپریشن کیا گیا تو اس کا 'بلو بیک ‘ملک بھر میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی صورت میں سامنے آئے گا۔پاکستان کی فوج پہلے ہی مشرقی سرحدوں کی حفاظت پر مامورہے‘ اگر ایسا ہوا تو معاملات بہت بکھر جائیں گے۔جنرل کیانی صاحب خود کو ایک دانشور جرنیل کے طور پر پیش کرتے تھے۔امریکہ سے کولیشن سپورٹ فنڈکی مد میں امداد لینے،ڈرون حملوں کو برداشت کرنے اور ابتدائی طور پر سی آئی اے سے انٹیلی جنس شیئرنگ کے باوجود وہ خطے میں امریکی پالیسیوں پر صاد نہیں کرتے تھے۔جنرل کیانی مارچ 2010 ء میں اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی قیادت میں سٹریٹجک ڈائیلاگ کے لئے واشنگٹن تشریف لے گئے تو انہوں نے امریکی صدر اوباما کو اپنا تحریر کردہ 14 صفحات پر مشتمل نان پیپرپیش کیا جسے بعد ازاں انہوں نے کچھ میڈیا پرسنز سے بھی جی ایچ کیو بلا کر پاور پوائنٹ پریذینٹیشن کی صورت میں شیئر کیا۔کیانی صاحب کا کہنا تھا کہ امریکیوں کے پاس گھڑیاں ہیں تو طالبان کے پاس وقت۔نیز طالبان ہمارے ہمسائے ہیںاوریہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ہمسائے تبدیل نہیں کئے جا سکتے۔لہٰذا پاکستانی فوج طالبان کے خلاف کسی آپریشن کا حصہ نہیں بنے گی۔ جنرل راحیل شریف نے چیف آف آرمی سٹاف بننے کے بعد ان اعتراضات کو رد کر دیا اور اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی نیمے دروں نیمے بروں سوچ کو بھی بالآخر بدلنے میں کردار ادا کیا اور مذاکرات، مذاکرات کی رٹ لگانے کے بعد نواز شریف حکومت کو 'ضرب عضب‘ پر صاد کرنا پڑا۔
حال ہی میں ایک امریکی دفاعی مجلہ "Long War Journal" میں یہ دعویٰ کیا گیاہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ایک مرحلے پر تحریک طالبان پاکستان سے کہا تھا کہ آپ پنجاب میں اپنی کارروائیاں نہ کریں ،باقی ملک میں جو مرضی کریں۔اس وقت وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی ۔دوسری طرف پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل(ر) شجاع خانزادہ نے اس خبر کی دو ٹوک تردید کی ہے۔ویسے بھی اس عرصے میں پنجاب بھر میں دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رہیں۔ اب خادم اعلیٰ طالبان کے خلاف کارروائی کے زبردست حامی ہیں اور وہ Narratives بدلنے کی بھی بات کرتے ہیں لیکن اس ضمن میں اب بھی وفاقی حکومت کی طرف سے کوئی خاص سرگرمی نظر نہیں آ رہی، اس کی وجہ غالباً یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میاں صاحب کو موٹرویز کے جال بچھانے اور پاور پراجیکٹس لگانے کے خواب دیکھنے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔اسی بنا پر مسلم لیگ کی جانب سے قائداعظم ؒکے جیو اور جینے دو کے فرمان کو قطعاً اجاگر نہیں کیا جا سکا،ویسے بھی مسلم لیگ(ن) کا نام تو مسلم لیگ ہے لیکن اس میں قائدؒ کے افکار کی چھاپ نہیں ملتی۔
درحقیقت دہشت گردوں کاجال پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے اور ابھی فوج کو شمالی وزیرستان سے ہی فرصت نہیں ملی،فوجی عدالتیں بھی فعال نہیں ہو سکیں،اپیکس کمیٹیوں کے اجلاس ضرور ہو رہے ہیں لیکن دہشت گردی کا مکمل قلع قمع کرنے کے لئے ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں