"ANC" (space) message & send to 7575

کینسر کا علاج پین کلر سے ممکن؟

کراچی میں رینجر زکے ہاتھوں ایم کیو ایم کی ''بھل صفائی‘‘ زور وشور سے جاری ہے۔تختہ دار پر لٹکنے سے صرف چند گھنٹے پہلے صولت مرزا کے ویڈیو بیان نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے لئے پریشانی تو پیدا کی لیکن ساتھ ہی ساتھ پورے ملک میں ایک ہیجان بھی برپا کردیا ہے۔ بعض ماہرینِ قانون اور تجزیہ کار انواع واقسام کی تاویلیںپیش کر رہے ہیں کہ کے ای ایس سی کے ایم ڈی شاہد حامدکا قاتل جو اس قتل کا اعتراف بھی کر چکا ہے‘ کے اس بیان کی کو ئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔یہ درست ہے کہ مجسٹریٹ کی عدم مو جو دگی میں انکشافات پر مبنی بنائی گئی یہ ویڈیو جس کے عوض صولت مرزا کی پھانسی نوے روز کے لیے مو خر کر دی گئی ہے ،ایک ڈیل سے زیا دہ کچھ نہیں ہے‘ لیکن اس کے وسیع تر سیاسی محرکات سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا ۔ صولت مرزا کے بیان سے صرف ایک روز قبل ہی پیپلز پارٹی کے شر یک چیئرمین آ صف علی زرداری نے اپنے ارکان اسمبلی کے اعزاز میں دیئے گئے ظہرانے میں یہ اعلان فرما دیا تھاکہ پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کوجپھی ڈال کر حکومت میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیاہے چونکہ وہ اپنے سیاسی دوستوں کو مشکل وقت میں تنہا نہیں چھو ڑسکتے ۔شنید ہے کہ یہ فیصلہ پارٹی کے زعما کے لیے کو ئی پاپولر فیصلہ نہیں تھا۔ اکثر شرکا ء تو اس مو قع پر خامو ش رہے لیکن جن اکا دکا خواتین وحضرات نے معمولی سا اختلاف بھی کیا تو زرداری صاحب نے انھیں یہ کہہ کر چپ کرا دیاکہ آپ سیاست کے اسرارورمو زکو نہیں سمجھتے؛ تاہم اگلے ہی روز زرداری صاحب کو اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرناپڑی ۔اب وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا فرمانا ہے کہ موجو دہ حالات میں ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کرنا ممکن نہیں ،یہ واقعی زرداری صاحب کی ذرہ نوازی تھی کیو نکہ ایم کیوایم سے اس مرحلے پر الائنس پیپلز پارٹی کے لیے سراسر گھاٹے کا سودا تھا۔یہ ایسا فیصلہ تھا جس کی نہ تو پارٹی کی اندرون سندھ بیس میںپذیرائی تھی اور نہ ہی اس کو کراچی میں جاری آپریشن کے کنٹرول روم میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا ہو گا ۔اسی دوران لیا ری گینگ وار کے مفرور سرغنہ عزیر بلو چ نے دبئی سے پیپلز پارٹی کی قیا دت کے خلاف ایک بیان داغ دیا کہ وہ سب کچھ زرداری صاحب کے ایماء پر کرتے تھے۔پیپلز پارٹی کے مخالف بعض عنا صرنے بغلیں بجانا شروع کر دیں کہ پیپلز پارٹی کا ''صولت مرزا ‘‘بھی میدان کا رزارمیں کو د پڑا ہے لیکن جیسا کہ پارٹی کے بعض حلقوں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ عزیر بلو چ کے خلاف کارروائی میں سندھ حکومت نے بھرپور تعاون کیا تھا لہٰذادبئی سے اس کا بیان معتبر قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی اس با ت کا امکان ہے کہ ایم کیو ایم کے بعد پیپلز پارٹی کی باری آ جا ئے گی ۔کیو نکہ'' بلا ول ہا ؤس‘‘ نائن زیرو نہیں اور پیپلز پارٹی ملک گیرسیاسی جماعت ہے جو تشدد ،لسانیت اور بھتے کی بنیا د پر سیاست نہیں چمکاتی۔
قبل ازیں یہ کہا جارہا تھا کہ ایم کیو ایم کواپنی صفوں سے بھتہ خوروں ،ڈاکوؤں ،قاتلوں اور آتش زنوں کو نکالنا ہو گا تا کہ ایک سیاسی جماعت کی طرح شہری سندھ میں وہ اپنا بھرپو ر کردار ادا کرتی رہے،تا ہم اگر صولت مرز اکے بیان میں رتی بھر بھی صداقت ہے تو پھراس پارٹی کا تو آ وے کا آ وا ہی بگڑا ہوا ہے اور اگر پُرتشدد پالیسیوں کے حوالے سے انگلی قائد تحریک پر اٹھتی ہے تو پھر تطہیر کا عمل کہا ں سے شروع ہوگا اور کہا ں ختم؟۔یہ بات اب واضح ہو تی جارہی ہے کہ حکومت پاکستان بھی اب اس حوالے سے متحرک ہو گئی ہے اور عمران فاروق کے لندن میں قتل اور وہاں پر الطاف حسین کے خلاف منی لا نڈرنگ کیس کے ضمن میں بھی بر طانوی حکومت الطاف حسین کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے ۔ادھر ایم کیو ایم نے جمعہ کوقومی اسمبلی میں شدید احتجاج کر تے ہو ئے کہا ہے کہ اگر ان کے دفاترپر سونامی گزر گیا تو کراچی میں سب سیاسی جماعتوں کے دفاتر بند ہو جائیںگے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ نواز شریف اور ہم اٹک جیل میں اکٹھے ہوں۔فاروق ستار کی اس وارننگ کو سیاست دانوں کو سنجید گی سے لینا چاہیے اور اپنے معاملات کو فور ی طور پر درست کرنا چاہیے۔
حال ہی میں لاہو رمیں عیسا ئی بستی یو حناآباد میں 2گرجا گھروں میں دہشت گردی کے واقعات کے فوری بعد دوافراد کو جلانے کا واقعہ اپنے محرکات کے لحا ظ سے شاید کراچی سے بھی زیا دہ سنگین ہے اورایسے لگتا ہے کہ ملک تیز ی سے انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے اور شہریوں کے مظلوم طبقے قانون نا فذ کرنے والے اداروں کی نا اہلی ، تسا
ہل پسندی اور سیا ستدانوں کی بے رخی کی وجہ سے مایو س ہو کر اب قانون کو اپنے ہا تھ میں لینے پر مائل نظر آتے ہیں ۔وطن عزیز میں عیسا ئی، قادیا نی اقلیتوں کے علاوہ اہل تشیع اور دیگر فرقوں کے خلاف ملک بھر میں دہشت گردی کی کارروائیوں پرسیاسی قیا دتیں محض کف افسوس ملتی رہ جاتی ہیں ۔یوحنا آ باد میں 2بے گنا ہ افراد کو شر پسندوں کے مشتعل ہجوم نے نذر آتش کر دیا ، اس افسوسناک واقعہ کے ذمہ دار افراد کو کڑی سزا دینی چاہیے لیکن لگتا ہے کہ یہ اسی طرح کی کارروا ئی ہے جس انداز سے کو ٹ رادھا کشن میں عیسائی جو ڑے کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔ضیاء الحق دور کے وہ قوانین جو محض اس آمر مطلق نے اسلام کے نام پر اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے بنا ئے تھے، میں انصاف کے تقاضوں کو مد نظررکھتے ہو ئے ردوبدل کرنے کا سیاستدانوں کا نہ تو ارادہ ہے اور نہ ہی ان میں جرأت رندانہ۔انھیں تو اپنی لوٹ مار اور اقتدار کے مزے لینے سے ہی فر صت نہیں ہے۔اس تناظر میں جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں فوج ہی ہے جو دہشت گردی ،انارکی اور قانون شکنی کے سرطان کا علاج کرنے کی سعی کر رہی ہے۔ستم ظریفی ہے کہ دہشت گردی کے ناسور اور ایم کیو ایم کی بنیادیں فوجی ادوار میں ہی رکھی گئیں اور اب ان سے نبٹنے کا بیڑہ بھی فوج نے ہی اٹھا یا ہے، اس ضمن میں معاملات کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے سیاستدانوں کو بھرپور کردارادا کرنا چاہیے لیکن وہ ایسا نہیں کر رہے ۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن'ضرب عضب ‘بھی نواز شریف حکومت نے فوج کا موڈ دیکھتے ہو ئے طوعاًکرہاًہی شروع کیا ۔21ویں ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کا قیام بھی اسی تناظر میں ہوا اور جہاں تک سزا ئے موت بحال کرنے کے فیصلے کا تعلق ہے تو اس کے تانے بھی جی ایچ کیو سے ملتے ہیں ۔لیکن یہ سب کچھ تو محض کینسر کو جڑ سے اکھاڑنے کے بجائے اس کی علامتوں کا علاج Pain Killerسے کرنے کے مترادف ہے ۔اس ضمن میں جو آ ئینی، قانونی اور نظریا تی طور پر اقدامات کرنے چا ہئیں ان کی شروعات بھی نہیں ہو ئیں۔میاں نواز شریف صاحب موٹر ویز، ائیر پو رٹس اور پاور پراجیکٹس میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ یہ پراجیکٹس بھی خاصے اہم ہیں لیکن اس سے بھی زیا دہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی سیاسی اور نظریا تی جہت کو آ ئینی اور قانونی طریقوں سے بدلا جا ئے جس کے نتیجے میں جمہو ری ادارے مضبو ط ہو ں کیو نکہ عوام یہ سوال پو چھنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر سب کچھ افواج پاکستان کو آ ؤٹ سورس کیاجا رہا ہے تو پھر کو نسی جمہوریت اور کیسی جمہوریت؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں