گزشتہ دنوںبنوں میں آ ئی ڈی پیز کے اجتماع میں''گو نواز گو‘‘کے نعرے لگانے والوں کی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے سرزنش سے مجھے خشونت سنگھ کا ایک کالم یاد آ گیا‘ جس میں انہوں نے تحریک پاکستان کے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے۔بھارت کے مشہو ر صحا فی، کالم نگار اور انگریزی کے مزاح نگار خشونت سنگھ جن کا حال ہی میں انتقال ہو اہے، خالص لاہوری تھے۔چندبرس قبل بھارت کے یوم آزادی پرشائع ہونے والے اپنے ایک کالم میںلکھتے ہیں کہ لاہور کے لارنس گارڈن کے اردگرد جہاں عالیشان بنگلوں میں وہ خودبھی مقیم تھے ، رہنے والی ہندو ،مسلمان اور سکھ ایلیٹ بٹوارے کے محرکات سے قریباً مبراتھی۔خشونت سنگھ کے بقول لارنس گارڈن میں ہی واقع جمخانہ کلب اور کاسمو پولیٹن کلب میں وسکی بہت سستی ملتی تھی بلکہ دریا ئے راوی کی طرح بہتی تھی جس میں وہ اپنے غم ڈبوتے رہتے تھے۔خشونت سنگھ یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ جون 1947ء میں ہندو مسلم بھا ئی بھائی کے نعرے بھی لگتے تھے؛ تا ہم افتخا ر حسین خان ممدوٹ اور دیگر مسلم لیگی رہنمااس وقت کے متحدہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اوریونینسٹ لیڈر خضرحیا ت ٹوانہ سے سخت نفرت کرتے تھے،چنانچہ مسلم لیگ کے جلسوں میں یہ نعرہ بلند ہو تا تھا ''تازہ خبر ،مر گیا خضر‘‘لیکن خضر حیات اور ان کی یونینسٹ جماعت نے جلد ہی نوشتہ دیوار پڑھتے ہو ئے اپنے مفادات کی خاطر جب مسلم لیگ کے سامنے سجدہ سہو کر دیا تو اس وقت مسلم لیگ کے جلسوں میں نعروں کی جہت تبدیل ہو گئی ۔اب یہ نعرہ یوں لگتا ''تازہ خبر آ ئی ہے، خضر ہمارا بھائی ہیـ‘‘۔
مقام شکر ہے کہ خان صاحب نے بنوں میں نواز شریف زندہ باد کے نعرے نہیں لگوادئیے ۔ابھی کل ہی کی بات ہے کہ خان صاحب فرماتے تھے جب تک میں ''گو نواز گو ‘‘کے نعرے نہ لگاؤ ںمجھے نیند نہیں آتی۔ لگتا ہے کہ ٹی وی اینکرریحام خان سے شادی کے بعد خان صاحب کا غصہ خاصاکم ہوگیاہے ۔چند روز قبل جب میں نے ان کے ساتھ لنچ اور ٹیلی ویثرن چینل کے لیے انٹرویو کیا تووہ اکتوبر2011 ء میں سیاسی سونامی کے آ غاز سے ایک روز قبل والے انٹرویو کے دوران غصیلے نظر آنے والے عمران خان کی جگہ مسکراتے ہو ئے اور خو شگوار خان صاحب نظر آئے۔یہ میرا ان سے پانچواں انٹرویو تھا۔یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی شخصیت ہیں جو کنٹینر کی چھت سے تین ماہ تک نواز شریف ،آ صف زرداری اور الطاف حسین کو سخت درشت زبان میں بے نقط سناتی رہی۔ اب ان کا غصہ ٹھنڈا ہونے کی کئی علامات تھیں ۔یہ غالباً بیگم صاحبہ کا ہی جو ہر قابل ہے کہ ایک ٹیلی وی چینل جو دھرنے کے دوران نکو بنا رہا اور تحریک انصاف کے ارکان اس کے صحا فیوں کی پٹا ئی کرنے کی حد تک توہین کرتے رہے، انہوں نے خان صاحب کو بالآخر چینل کا بائیکا ٹ ختم کرنے پر راضی کر لیا۔
قومی اسمبلی میں قائد حز ب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ سے گزشتہ روز میاں منظور وٹو کی اقامت گاہ پر ظہرانے کے موقع پر گپ شپ ہو ئی۔شاہ صاحب نے‘ خود ان کی پارٹی کے بعض ارکان جن کو ہدف تنقید بناتے ہو ئے مسلم لیگ(ن) سے زیا دہ نواز شریف ،نواز کہتے ہیں،انکشاف کیا کہ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف نے سینیٹ الیکشن میں سیٹیں نکالنے کے لیے خیبر پختونخوامیں کس انداز سے مک مکا کیا۔اس تنا ظر میں جوڈیشل کمشن کے قیام پر اتفاق رائے کوئی حیران کن خبر نہیں ہے۔کہا جا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی یہی چا ہتی ہے کہ ملٹری آپریشن، نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی اور کراچی کو ٹا رگٹ کلنگ اوربھتہ خوری سے پاک کرنے کے لیے سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوں ۔اسی تناظر میں چند روز قبل میاں نواز شریف سے پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی ملاقات کو خصوصی اہمیت دی جا رہی ہے۔غالباً میاںنواز شریف کو مشورہ دیا گیا کہ جو ڈیشل کمشن بنانے میں کو ئی حرج نہیں ہے اور اسی مقصد کے لیے پی ٹی آئی کے ساتھ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ اسحق ڈار کو ملاقات میں طلب کیا گیاتھا تاکہ وہ فوج کے سربراہ کو اس حوالے سے بریف کر سکیں لیکن سارا کریڈٹ اسٹیبلشمنٹ کو دینا خلاف واقعہ ہو گا ۔سید خورشیدشاہ ، چوہدری اعتزاز احسن اور رضا ربانی بھی اس معاملے میں میاںنواز شریف ، اسحق ڈاراور جہانگیر ترین کو انگیج کرتے رہے جن کی حالیہ چنددنوں میں ڈار صاحب سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک باخبر ذریعے کے مطابق سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر چودھری اعتزاز احسن کی یہ بات ڈار صاحب‘ جو کمشن کے قیام کے بارے میں گھبراہٹ کا شکارتھے‘ کے دل کو لگی کہ پاکستان میں کئی کمشن قائم ہوئے لیکن نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات ہی نکلتا رہا ،چاہے وہ سقوط ڈھاکہ کے لیے حمو د الرحمن کمشن ہو یا اسامہ بن لادن کی امریکی نیو ی سیلز کے ہاتھوں ہلاکت پر تشکیل دیا گیاایبٹ آ باد کمشن ہو،یا میمو گیٹ کمشن ۔کمشن تو غالباًاسی وقت بنا ئے جاتے ہیںجب معاملے کو طاق نسیاں پر رکھنا ہو ۔ڈار صاحب کا کہنا ہے کہ کمشن کے ٹرمز آ ف ریفرنس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اگر دھاندلی کی سازش ثابت ہو گئی تو اسمبلیاں تحلیل ہو جا ئیں گی۔عبوری حکومت کا قیام عمل میں ا ٓجا ئے گا اور نیا الیکشن کمشن بن جائے گا،نئے انتخابات نادرا کی ووٹر لسٹوں کے تحت ہوں گے۔امید ہی کی جا سکتی ہے کہ متذکرہ کمشن نتیجہ خیز ثابت ہو گا اور اس کی سفارشات پر عمل بھی ہو جا ئے گالیکن ماضی کے تجربات کی روشنی میں ایساہو نے کے امکانات نہیںہیں۔
تحریک انصاف کی کو رکمیٹی نے اسمبلیوں میں واپس جانے کے معاملے کو کمشن کے قیام کے نوٹیفیکیشن سے مشروط کر دیا ہے لیکن یقینا جلد ہی پی ٹی آ ئی کے وہ ارکان قومی وصوبائی اسمبلی جو تکنیکی طورپر اب اسمبلیوں کے رکن نہیں رہے،واپس چلے جا ئیں گے اور خدا کا شکر ادا کریں گے کیونکہ اسمبلیوں میں واپس نہ جانا ان کے لیے سیاسی خودکشی کے مترادف تھا۔خان صاحب نے اپنی پارٹی کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) وجیہہ الدین کی رپورٹ کو تسلیم کرتے ہو ئے پارٹی کے نئے انتخابات کرانے کا عندیہ دیا ہے۔جن پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے وہ بھی عام انتخابات سے عین قبل بڑے تزک واحتشام سے کرائے گئے تھے لیکن ان کے بعد پارٹی میں جو دھڑے بندی ہو ئی اس کے اثرات سے اب تک پی ٹی آ ئی کی لیڈرشپ عہدہ برآ نہیں ہو سکی۔خان صاحب معدودے چند افراد کو چھوڑ کر وجیہہ الدین سمیت غیر سیاسی عناصر میں گھرے ہوئے ہیں۔ اب دیکھئے چوہدری سرور جو بز عم خود سیاسی ٹیکنو کریٹ ہیں، نئے انتخابات میں کیا گل کھلاتے ہیں ۔یقینا اس جماعت میں خان صاحب کے بعد ان کا رول کلیدی ہو گا ۔