تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی دھرنے کے دوران اپنی جماعت کے رکن قومی ا سمبلی عارف علوی سے ٹیلی فو نک گفتگو منظر عام پر آئی ہے جس میں خان صاحب اس بات پر اظہار طمانیت کر رہے ہیں کہ پی ٹی آ ئی نے پاکستان ٹیلی ویثرن کے ہیڈ کوارٹرز پر'' کامیاب یلغا ر‘‘کی ہے۔ واضح رہے کہ خان صاحب کا ہنوز یہ استدلال رہا ہے کہ پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر زمیں داخل ہو نے والے غنڈوں کا ان کی جماعت سے کو ئی تعلق نہیں تھا اور یہ پاکستان عوامی تحریک کا'' آ پریشن‘‘ تھا ۔ظا ہرہے کہ اس موقع پر اس ٹیلی فونک ٹیپ کا منظر عام پر آنا خان صاحب کو نیچا دکھانے کی حکومتی مہم کا حصہ ہے۔کچھ عرصہ سیز فائر کے بعد آج کل پی ٹی آ ئی اور حکومتی ترجمانوں کے درمیان لفظو ں کی جنگ بھرپور طریقے سے دوبارہ شروع ہو چکی ہے ۔متذ کرہ ٹیپ کے مندرجا ت سے قطع نظر یہاں ایک بنیا دی سوال پید اہو تا ہے کہ سیاستدانوں کی نجی گفتگو ریکارڈ کرنا اور اس مقصد کیلئے سرکا ری وسائل کو استعمال کرنا ایک نام نہا د جمہو ری ملک میں بھی کہا ں تک جائز ہے؟۔یہ کام ملٹر ی انٹیلی جنس اداروں کے علاوہ انٹیلی جنس بیو رو ہی کرتا ہے ۔اس وقت پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور ان اداروں کو تو ملک دشمنوں کی حرکا ت وسکنات اور ٹیلی فونک پیغام رسانی کو ما نیٹرکرنے سے فرصت نہیں ہو نی چاہیے لیکن اس بات پر کف افسوس ہی ملا جا سکتا ہے کہ کم از کم انٹیلی جنس بیورو حکومت کے ایماء پر سیاستدانوں کی حرکا ت وسکنات کی نگرانی میں ہمہ تن مصروف نظر آتا ہے۔یہ باتیں تو فوجی آمریتوں میں ہو اکرتی تھیں لیکن اب جمہو ری دور میں ایسا کیو ں ہو رہا ہے؟۔سیاستدانوں کے فون ٹیپ کرنے جیسی حرکت سیاسی مخالفین کو بدنام کرنے کے لیے تو ٹھیک ہے لیکن اس سے ملک کو کیا حا صل ہوا؟۔
عمران خان سے ہزار اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کو اپنی حب الوطنی کے بارے میں کسی سے سرٹیفکیٹ لینے کی کو ئی ضرورت نہیں ہے ،یہی بات ملک کے دیگر سیاستدانوں پر بھی صادق آ تی ہے۔صرف سیاستدان ہی نہیں معلومات میں اضافے کے لیے صحافیوںکے ٹیلی فون بھی ٹیپ کیے جا تے ہیں ۔ٹیلی فون، موبائل فون کالز ما نیٹر کرنے کی تکنیکی صلا حیت میں گونا گوں اضا فہ فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں ہو ا ۔اس مقصد کے لیے جدید سازوسامان ہنگامی بنیا دوں پر امپورٹ کیا گیا اور ذمہ داری انٹیلی جنس بیو رو کو سونپ دی گئی کہ وہ پاکستانی قوم کی نجی گفتگو پر بھی گہری نظر رکھیں ۔موبائل کمپنیاں بھی محدود پیمانے پر فون مانیٹر کرتی ہیں‘ لیکن مشرف دور میں یہ اختیار خصو صی طور پر انٹیلی جنس اداروں کو منتقل ہو گیا ۔
مجھے اس بات کا ذاتی تجربہ بھی ان دنوں ہوا جب میاں شہباز شریف اور ان کے برادر میاں نواز شریف جدہ میں جلا وطنی کی زندگی گزا ر رہے تھے تو میاں شہباز شریف وہاں سے مجھے اکثر ٹیلی فون کرتے تھے ۔ایک موقع پر انھوں نے اس خواہش کا اظہا ر کیا کہ وہ جلا وطنی ختم کرکے وطن واپس لو ٹنا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے قانون کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیا رہیں ۔میں نے ان سے عرض کیا کہ یہ نا چیز اس ضمن میں اگر کو ئی رول ادا کر سکتا ہے ،تو ضرور کرے گا ۔''ملا کی دوڑمسجد تک‘‘میری اس وقت کے ہوم سیکرٹری بریگیڈئیر(ر) اعجاز شاہ، جو بعد ازاں انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ بھی بنے‘ سے اچھی یاد اللہ تھی۔میںنے شہباز شریف کی خواہش کا بریگیڈئیر(ر) اعجاز شاہ سے ذکر کیا جو پنجاب میں آ ئی ایس آ ئی کے سربراہ ہو نے کے زمانے سے شہباز شریف سے خو شگوار تعلقات ہو نے کے دعویدار تھے۔ بر یگیڈ ئیر صاحب نے صدر پرویز مشرف جو ان کے ذاتی دوست بھی تھے‘ سے بات کرنے کا وعدہ کیا اور مجھے یقین دلایا کہ وہ چند دن بعد آ نے والی عید کے مو قع پر جنرل صاحب سے بات کریں گے۔اس کے فوراً بعد جب جدہ سے میاں شہباز شریف کا فون آ یا تو میں نے ان کو بتایا کہ میں آپ کو عید کے بعد کو ئی خبر دوں گا۔ عید کی چھٹیوں کے بعد بر یگیڈئیر صاحب جو میرے ساتھ ریس کورس پارک میں سیر کرتے تھے، نے مجھے بتا یا کہ بھائی!مشرف صاحب آپ سے سخت ناراض ہیں، ان کا کہنا ہے کہ آپ شہباز شریف کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف کو ئی گہری سازش کررہے ہیںاور عید کے بعد اس منصوبے پر عمل درآمد ہو گا۔ میں ہکا بکا رہ گیاکہ یہ کہاں کی خبر ہے۔چند روز بعد لاہور میں آ ئی بی کے سربراہ نے مجھے پولو گراؤنڈ لاہور میں واک پر مد عو کیا اور مجھ سے کہا کہ بھائی! ہم نے آپ کی شہباز شریف سے ٹیلی فون پر گفتگو مانیٹر کی ہے اور اس سلسلے میں آپ کا کیا موقف ہے۔اس پر میں نے عرض کیا کہ یہ خوب ماجرا ہے کہ چوری اور اس پر سینہ زوری۔آپ کو کیا حق پہنچتا ہے کہ آپ میری نجی گفتگو ریکارڈ کریں ۔یہ سارا ماجرا میں نے برخوردار حمزہ شہباز شریف سے بیان کر دیا جو ہر دوسرے روز میری اقامت گاہ پر کسی نہ کسی مسئلے کے حل کے ضمن میں آتے رہتے تھے ۔اس کے چند دن بعدجب مجھے میاں شہباز شریف کا جدہ سے فون نہ آ یا تو میں نے خود فون کیا کہ میاں صاحب کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں جو فون نہیں کرتے۔ جس پر انھوں نے فرمایا کہ نہیں ،میں آپ کی پوزیشن کو خراب نہیںکرنا چاہتا‘ جس پر میں نے عرض کیا کہ میرا ضمیر صاف ہے اور چونکہ میں کسی مذموم کارروائی میں ملوث نہیں ہو ںاور نہ ہی آپ ہیں ،لہٰذامجھے اس بات کا خوف نہیںکہ کوئی ٹیلی فون سنتا ہے یا نہیں۔قصہ مختصریہ کہ اس حوالے سے مختلف اہلکار جن میں اس وقت کے آ ئی بی کے سربراہ میجر جنرل طلعت ،سیکرٹری انفا رمیشن انور محمود بھی شامل تھے، اس حوالے سے مجھ سے گفتگو کرتے تھے۔ بالآخرمیری جان اس وقت چُھوٹی جب جنرل پرویز مشرف سے بالمشافہ ملاقات میں،میں نے انھیں پورا پس منظر بیان کر دیا ۔جنر ل مشرف کی یہ بات قابل تعریف ہے کہ وہ اکثر سیاستدانوں کے برعکس دل میں بات نہیں رکھتے تھے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ معاملہ صا ف ہو گیا ہے اور اس کے بعد ایسا ہی ہوا۔
اس داستان کوتحریر کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ شریف برادران جو خود اس کھیل کا شکا ر بنتے رہے ہیں کیونکراپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جو فوجی آ مر ان سے کیا کرتے تھے۔واضح رہے کہ پہلے ادوار میں میاں نواز شریف کی نجی ٹیلی فونک گفتگو بھی ٹیپ کی جا تی تھی ۔وقت کا تقا ضاہے کہ انٹیلی جنس اداروں یا بالخصوص آئی بی کی مانٹیرنگ بھی پارلیمنٹ کی کسی کمیٹی کے سپرد ہو نی چا ہیے ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ پارلیمنٹ سے انٹیلی جنس شیئرنگ کی جا ئے لیکن کم از کم عوامی نما ئندوں کے ذریعے عوام کویہ پتہ ہو کہ ان کی نجی زندگی اورقومی مفاد کے درمیان لکیر کہاں کھینچنی ہے۔