خان صاحب کو مبارک ہو، بالآخر ان کا کمیشن بن گیا۔ بلاشبہ اس بات کا کریڈٹ پاکستان تحریک انصاف کو جاتا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے 2013 ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کی چھان بین کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔ پی ٹی آئی کا اصرار ہے کہ یہ انتخابات ایک منظم سازش کے ذریعے چرائے گئے اور اس میں دھاندلی کی سازش کے سرغنہ میاں نواز شریف اور اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخارمحمد چوہدری ، نگران وزیراعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی اور میڈیا کا ایک گروپ تھے۔ تاہم جوڈیشل کمیشن کا پہلا اجلاس اس لحاظ سے مایوس کن رہا کہ پی ٹی آئی نے 45 صفحات پر مشتمل دھاندلیوں کے شواہد کے حوالے سے دستاویزات وہاں جمع کرائیں جبکہ اعلیٰ اختیاراتی کمیشن نے یہ طریقہ کار طے کر دیاتھاکہ دھاندلی کے الزامات کے ساتھ ثبوت بھی ہونے چاہئیں۔ اب شکایات کنندگان کو ایک ہفتہ کی مہلت دے دی گئی ہے کہ وہ ثبوت بھی کمیشن کے سامنے رکھیں۔ پی ٹی آئی کے لیڈکونسل عبدالحفیظ پیرزادہ ایک منجھے ہوئے اور کہنہ مشق وکیل ہیں۔ 1973 ء کے آئین کو بھی اس لحاظ سے ان کی کاوش قرار دیا جاسکتا ہے کہ وہ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں وزیر قانون تھے۔پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس شواہد پر مبنی دستاویزات سے کمرہ بھرا ہوا ہے لیکن نہ جانے کیوں پیرزادہ صاحب نے یہ شواہد پٹاری سے باہر نہیں نکالے۔ خان صاحب کنٹینر پر کھڑے ہو کر قریباً چار ماہ تک دھاندلی ،دھاندلی کی گردان کرتے رہے۔ ان کے نزدیک موجودہ قومی اسمبلی بوگس اور فراڈ ہے اور نواز شریف کی بھی بطور وزیراعظم کوئی حیثیت نہیں۔ پہلے تو وہ نوازشریف کاا ستعفیٰ مانگتے رہے اور امپائر کی انگلی کھڑے ہونے کا انتظار کرتے رہے لیکن بعدازاں ان کا مطالبہ دھاندلی کی تحقیقات کرنے کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام پر آکر ٹھہرگیا۔ یہ انہی کا اصرار تھا کہ اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان کریں ۔اس کے ٹرمز آف ریفرنس بھی ان کی مرضی کے مطابق بنائے گئے۔اس طرح یہ بات بھی طے ہوگئی کہ اگر 2013 ء کے انتخابات میں دھاندلی کی باقاعدہ سازش ثابت ہوجاتی ہے تو نواز شریف حکومت کی چھٹی ہوجائے گی۔ اس تناظر میں تحریک انصاف کو اپنا ہوم ورک بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا۔
جہاں تک خان صاحب کے اس الزام کا تعلق ہے کہ اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری اس سازش کے سرغنہ تھے تو اس کے ثبوت کے طور پر کچھ نہ کچھ تو ان کے پاس ہونا چاہیے۔ جہاں تک ریٹرننگ آفیسرز جوڈیشری سے لینے کا تعلق ہے تو یہ مطالبہ پی ٹی آئی کا اپنا تھا، لیکن ریٹرننگ افسر جو سیشن جج ہوتے ہیں کی تقرری اور انتظامی کنٹرول متعلقہ ہائیکورٹس کے پاس ہوتا ہے۔ سابق چیف جسٹس نے کمیشن میں خود پیش ہونے کی تحریری درخواست دی ہے ۔اگر کمیشن نے انھیں بلا لیا تو خاصی دلچسپ صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ خان صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق جج خلیل الرحمن رمدے نے انتخابات میں نوازشریف کی مدد کے لیے اپنے گھر پر الیکشن سیل بنا رکھا تھا۔ اس بات کو وہ کیسے ثابت کریں گے۔ جہاں تک بطور نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی کے انتخابات میں 35 پنکچر لگانے کا تعلق ہے تو اس مبینہ ٹیلی فونک بات چیت کی ٹیپ، اگر ہے تو وہ بھی عدالت میں پیش کرنا پڑے گی۔ خان صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ لاہور کے اردو بازار میں انتخابات سے عین قبل ایک نجی پریس میں جعلی بیلٹ پیپر چھاپے گئے۔ یہ ایک انتہائی سنگین معاملہ ہے کہ کیا واقعی عام انتخابات سے عین قبل اگر جعلی بیلٹ پیپر چھاپے گئے ہیں تو آخر کیوں؟ یقینا کمیشن کو اس معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہیے۔ جہاں تک دیگر سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے تو وہ بھی کمیشن کے سامنے باقاعدہ فریق بنی ہیں۔ ان میں پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی قابل ذکر ہیں۔ پیپلز پارٹی نے پنجاب کی کئی نشستوں پر دھاندلی کے شکایات دائر کی ہیں لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بحث کی خاطر ان متعلقہ حلقوں میں منظم دھاندلی کی بھی گئی ہے تو جیتنے والے امیدوار اور پیپلزپارٹی کے نامزدامیدوار کے درمیان ووٹوں کا اتنا بڑا فرق ہے کہ وہ کسی قسم کے منصفانہ انتخاب کے ذریعے بھی پُر نہیں کیا جاسکتا۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کے وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بھی بری طرح ہار گئے اور کئی وفاقی وزیروں کی تو ضمانت تک ضبط ہوگئی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے خلاف مسلم لیگ (ن) نے بھرپور اپوزیشن کی اور خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے زربابا اور چالیس چوروں کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور لوٹی ہوئی ملکی دولت پیٹ پھاڑ کر واپس لانے کا نعرہ لگا کراور مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کا واحد ذمہ دار پیپلزپارٹی کی بے تدبیریوں کوقراردے کر عوامی جذبات کو خوب ابھارا اوراس حکمت عملی میں وہ کامیاب رہے ۔ اس کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دوبرس کا عرصہ گزرنے کے باوجود پیپلزپارٹی کی پنجاب میں حالت اب بھی ہر چند کہیں کہ ہے ،نہیں ہے کے مترادف ہے۔ جہاں تک عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی کے اس عذر کا تعلق ہے کہ ان کے امیدواردہشتگردوں کی ہٹ لسٹ پر ہونے کی بنا پر آزادی سے انتخابی مہم نہیں چلا سکے، کافی وزنی ہے،کیونکہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف جنہیں طالبان نوازجماعتیں سمجھا جاتا تھا، کے امیدواروں کو اس قسم کے خطرات لاحق نہیں تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ 2013 ء کے انتخابات بڑے صاف شفاف اور منصفانہ تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان انتخابات کی کوئی کل سیدھی نہیں تھی۔ برادر رضاربانی نے 20 ویں ترمیم میں بڑے طمطراق اور اتفاق رائے سے آزادانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے عمومی اتفاق رائے سے نگران حکومت اور ایک آزاد الیکشن کمیشن کی بنیاد رکھی لیکن یہ تجربہ یکسر ناکام رہا۔ میںخود نگران حکومت میں وفاقی وزیراطلاعات تھا۔ عام انتخابات کے انتظامات کے ضمن میں الیکشن کمیشن یکسر آزاد تھا۔ لیکن مجھے اس بات پر سخت حیرانی ہوئی کہ بزرگوار فخرالدین جی ابراہیم جنہیں بڑی چھان پھٹک کے بعد چیف الیکشن کمشنر لگایا گیا تھا اور اُن کی تقرری پر خان صاحب نے بھی صادکیا تھا،کو اپنے کام سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ وہ انتخابات کے دوران اپنے گھر کراچی میں مقیم رہے اور وہاں گالف کھیلتے رہے۔ جبکہ اسلام آباد میں مقیم الیکشن کمیشن کے ارکان من مانیاں کرتے رہے ۔الیکشن کمیشن کا سیٹ اپ کچھ اس قسم کا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اس کمیشن میں محض ایک ووٹ تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ جہاں تک اعلیٰ عدلیہ کے ایک اور ریٹائرڈ بزرگ نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو کا تعلق ہے ،تو ان کی اور فخروبھائی کی بول چال بھی قریباً بند تھی۔ کھوسو صاحب ایک کمزور وزیراعظم تھے جن کی نگرانی ان کا ملٹری سیکرٹری کرتا تھا۔ ہمارے ہاں اعلیٰ عدلیہ کے بابوں کو ان عہدوں پر فائز کرنے کا تجربہ کبھی کامیاب ثابت نہیں ہوا۔
میری بھارت کے کئی الیکشن کمشنرزسے ملاقات ہوئی ہے۔ وہاں کا سب سے معروف الیکشن کمشنرٹی این سیشن تھا۔وہاں بھی دھاندلی کی شکایات عام تھیں لیکن اس شخص نے جو 1990 ء سے 1996 ء تک چیف الیکشن کمشنر رہا ،الیکشن کمیشن کا حلیہ بدل کر رکھ دیا۔اب بھارت میں چیف الیکشن کمشنر اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ کسی کو انتخابات کے انعقاد کے لیے نگران حکومت کے قیام کا مطالبہ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ بھارت میں چیف الیکشن کمشنر عموماً ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہوتا ہے۔ ہمیں بھی نگران حکومت کی سعی لاحاصل میں توانائی ضائع نہیں کرنی چاہیے بلکہ الیکشن کمیشن کو ایک طاقتور، مضبوط اور بااختیار ادارہ بنانے کی ضرورت ہے۔اس کی موجودہ ہیئت ترکیبی اورانتخابی نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ محض اپنے ممبروں کے سامنے عضومعطل ہونے کے بجائے چیف الیکشن کمشنر قانونی اور آئینی طور پر تگڑا ہونا چاہیے۔اس ضمن میں جوڈیشل کمیشن کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ جہاں تک چیف جسٹس ناصر الملک کا تعلق ہے انھوں نے اپنے پیشروئوں کے برعکس میڈیا کو سپریم کورٹ کے احاطے میں کام کرنے سے روک دیا ہے اور یہی پابندی سیاستدانوں پر بھی لگائی ہے ،اس لیے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ میڈیا ٹکرز پر اپنا نام لکھوانے کی بجائے چیف جسٹس تاریخ میں اپنا نام لکھوانے کو ترجیح دیں گے۔