امریکہ کے معروف پلٹزر انعام یا فتہ صحا فی سیمورہرش کے 2مئی 2011ء کو القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے آ خری لمحات کے بارے میں انکشافات سنسنی خیز اور چونکا دینے والے ہیں۔ سیمورہرش کے مطابق اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں اس کے کمپاؤنڈ میں نیوی سیلز کے دستوں نے با قاعدہ قتل کیااور اس سازش میں اس وقت کے پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیا نی اور آئی ایس آ ئی کے سربراہ جنرل شجا ع پاشا بھی شامل تھے ۔نیز یہ کہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آ باد میں موجودگی کے بارے میں مخبری آئی ایس آ ئی کے ہی ایک اہلکار نے کی تھی اور اسے اس کے عوض نہ صرف پچیس ملین ڈالر کے انعام سے نواز ا گیابلکہ اس کے اہل خانہ کو بھی واشنگٹن ''سمگل‘‘ کر دیا گیا ۔یہ الزامات انتہا ئی سنگین نوعیت کے ہیں اور یقیناً جنرل کیا نی اور شجا ع پاشا کو اس بارے میں حقا ئق کو سامنے لانا چاہیے کیونکہ پاکستانی عوام کو تو یہی بتا یا جا تا رہا ہے کہ یہ آپریشن پاکستانی فوج اور آئی ایس آ ئی سے خفیہ رکھا گیا تھا اوریہ کہ امریکی نیوی سیلز کے چاق وچوبند دستوں نے اسامہ بن لا دن اور ان کے ساتھی ابو احمد الکویتی کی مزاحمت کا مردانہ وار مقابلہ کیا تھا۔ سیمورہرش کا دعویٰ ہے کہ متذکرہ کمپاؤنڈ‘ جہاں اسامہ بن لادن 2006ء سے مقیم تھا، پرامریکی نیوی سیلزکے حملے سے قبل ہی آئی ایس آئی کے محا فظ ہٹا لیے گئے تھے۔ اسامہ عملی طور پرآئی ایس آ ئی کے قبضے میں تھا۔ سیمورہرش کا کہنا ہے کہ بیما ری کی بنا ء پروہ اتنا نحیف ونزار تھا کہ اس کی طرف سے کسی مزاحمت کا سوال ہی پید انہیں ہو تا تھا ۔یہ کہا نی کہ اسامہ کے ہاتھ میں کلا شنکو ف تھی جس سے وہ امریکی کمانڈوز پر حملہ آ ور ہوا ،ایک سفید جھوٹ ہے۔ سیمورہرش کے مطابق اسامہ بن لا دن کے 'ڈی این اے‘ سیمپل ڈا کٹر شکیل آ فریدی نے حا صل نہیں کیے بلکہ یہ کارنامہ ڈاکٹر عامر عزیز نامی شخص کا ہے جو سیمورہرش کے مطابق فوج میں میجر تھا، لیکن جہا ں تک ہمیں معلوم ہے، ڈاکٹر عامر عزیز لاہور میںہڈیوں کے ایک معروف ڈاکٹر ہیں جوبعض اطلا عات کے مطابق اسامہ بن لا دن کا بھی علاج کرتے رہے ہیں۔اس واقعہ کے بعد ڈا کٹر عامر عزیز کو حراست میں بھی رکھا گیا ۔ڈاکٹر عامر عزیز نے ان کی طرف سے' ڈی این اے‘ سیمپل حاصل کرنے کے الزام کو سراسر لغو قرار دیا ہے ۔ہرش کے مطابق بڑی خوبصورتی سے یہ الزام ڈا کٹر شکیل آ فریدی کے سر تھوپ دیا گیا کہ اس نے پولیو ویکسین کے بہانے اسامہ بن لادن کا 'ڈی این اے‘ سیمپل حاصل کیا۔سیمو رہرش کے مطابق شکیل آ فریدی کا اس آ پریشن سے کو ئی تعلق نہیں‘ اور وہ اپنی پو لیو مہم کے کور کے تحت سی آئی اے کے لئے کام کر رہا تھا اور سیمپل اکٹھے کرتا رہاہے۔ اس سے پاکستان میں پولیو مہم کوجو نا قابل تلافی نقصان پہنچا،ہم آ ج بھی اس کے نتا ئج بھگت رہے ہیں ۔
سیمورہرش نے لندن ریویوآ ف بکس میں دس ہزار الفاظ پر مشتمل اپنے نام نہا د انکشافات کی طویل کہا نی سنائی ہے۔ اس میں آ ئی ایس آ ئی پر کیچڑاچھالنے کے علاوہ صدر اوباما اور ان کی ٹیم کو بھی جھوٹا ثابت کیا گیاہے۔ وائٹ ہا ؤس کا ہمیشہ یہ اصرار رہا ہے کہ یہ آپریشن خا لصتاً امریکی مشن تھا لیکن اب یہ انکشافات ہورہے ہیں کہ اس میں ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی شریک تھیںاور دانستہ طورپر پاک فضائیہ کو اس سے دور رکھاگیا ۔یقیناً 2 مئی کی شب ہر پاکستانی کی زبان پر یہ سوال تھا کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں اتنی نا اہل اور بے خبر نہیں ہو سکتیں کہ انھیں علم ہی نہ ہوکہ اسامہ بن لادن پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کے پڑوس میں ہی کئی برس سے بیٹھا ہوا ہے اور کسی کوکانوں کان خبر ہی نہیں ہوئی ۔سیمورہرش کا کہنا ہے کہ امریکہ کو جب اسامہ بن لادن کی ایبٹ آ باد میں موجو دگی کا ٹھوس ثبوت فراہم ہو گیا تو جنرل کیانی اور جنرل پاشا میں قومی مفاد کی خا طر یہ سوچ ابھری کہ امریکی امداد کی بندش پاکستانی معیشت، پاکستانی فوج کے لیے سازوسامان کی خریداری اور کا ؤنٹر ٹیررازم سرگرمیوں کے لیے زہر قاتل ہو گی لہٰذ ا بقول سیمورہرش کے امریکہ نے پاکستانی فوج کو کامیابی کے ساتھ بلیک میل کیا ۔ سیمورہرش نے اس سے بھی زیا دہ سنگین الزام تراشی کرتے ہو ئے لکھا ہے کہ امریکی امداد کے علاوہ پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس کے بعض افسروں( جن کا اس نے نام ظاہر نہیں کیا )کو بھی انڈردی ٹیبل ادائیگیاں کی گئی ہیں ۔سیمورہرش کی الف لیلیٰ کی طویل داستان میں ایک ریٹا ئرڈ فوجی افسر کا بار بار ذکر ہے اور اس حوالے سے آ ئی ایس آ ئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کا نام لیا گیا ہے۔ سیمورہرش نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ اسامہ بن لا دن کو سمندر برد نہیں کیا گیا۔ لہٰذ ا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ تجہیز وتکفین اسلامی طریقہ کار کے مطابق ہو ئی تھی۔سیمورہرش کے مطابق امریکی انتظامیہ کی پاکستانی فوجی قیادت سے یہ انڈر سٹینڈنگ تھی کہ ایک ہفتے تک اسامہ کی موت کو خفیہ رکھنے کے بعد یہ دعویٰ کیا جا ئے گا کہ اسے افغانستان میں ایک ڈرون حملے میں مارا گیا ہے لیکن امریکی انتظامیہ اس وعدے پر قائم نہ رہی کیو نکہ ایک طرف اوباما اس سارے آپریشن کا سیاسی کریڈٹ حا صل کرنے کے لیے کو شاں تھے دوسری طرف ایک فوجی ہیلی کا پٹر کے کریش سے اس معاملے کو خفیہ نہ رکھا جا سکا ۔
وائٹ ہاؤس نے ہرش کی رپورٹ کو یکسر بے بنیاد قرار دیتے ہوئے پاک فوج اور آئی ایس آئی کو کلین چٹ دی ہے۔ترجمان کے مطابق ایبٹ آباد آپریشن کو جنرل کیانی اور آئی ایس آئی سے یکسر خفیہ رکھا گیا۔ تاہم سیمورہرش کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ وہ بعض امریکی ذرائع کے حوالے سے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہیلی کا پٹر گرنے کے بعد نیوی سیلز دوسرے ہیلی کاپٹر کا ایسے انتظار کر رہے تھے جیسے
کسی بس سٹینڈ پر بس کا انتظا ر کیا جاتا ہے گویا کہ آ ئی ایس آ ئی کی لا جسٹک سپورٹ کی بناء پر انہیں کو ئی فوری خطرہ نہیں تھا ۔سیمورہرش کے مطابق اس سارے آ پریشن کے لیے امریکی سی آ ئی اے اور آ ئی ایس آ ئی کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر تربیلا میںغازی کے مقام پر بنایا گیا تھا۔ہرش کے مطابق پاکستان میں سی آ ئی اے کے سٹیشن چیف جونا تھن بنک کواس وقت ملک سے جانا پڑا جب ایک درخواست گزار نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس کا بھا نڈابیچ چوراہے پھوڑ دیا کہ یہی سٹیشن چیف اس کے عزیزوں کی ڈرون حملے میں ہلاکت کا براہ راست ذمہ دار ہے۔اس وقت یہ تاثر بھی ابھر اکہ اسی قسم کا ایک معاملہ آئی ایس آئی کے بارے میں ایک امریکی عدالت میں بھی سامنے آیا ہے‘ لیکن ہرش کے مطابق سی آ ئی اے کے سٹیشن چیف کا اچانک اسلام آباد سے جانا بھی ایک ڈرامہ تھا تا کہ ایبٹ آباد آپریشن سے پہلے اسے پاکستان سے نکال لیا جائے۔
سیمورہرش وہی شخص ہے جس نے 1969ء میں ویتنام کی جنگ میں می لائی( Mylai)قتل عام اور اس کے کوراپ اور حال ہی میں ابو غریب میں ہونے والے مظالم کاانکشاف کیا تھا لہٰذا اس 78سالہ بزرگ کی باتوں کومحض مفروضوں کے طورپر نہیں ٹا لا جا سکتا لیکن اس کی یہ نئی کہانی اگر یکسر بے بنیاد نہیں تو یقیناً مبالغہ آرائی پر مبنی لگتی ہے۔ سیمورہرش کے انکشافات سے بعض بنیا دی سوالات پیداہو تے ہیں جن کی فوری طورپر نہ صرف جنرل(ر) کیانی اورلیفٹیننٹ جنرل (ر) پاشا کو وضا حت کرنی چا ہیے بلکہ فوج کی موجو دہ قیادت پر بھی فرض عائد ہو تا ہے کہ اس معاملے میں حقائق سامنے لائے کیو نکہ اس قسم کی کردار کشی سے بھارتی پروپیگنڈا مشین کو فائدہ ہو گا جو پہلے ہی پاکستان کی سرکردہ انٹیلی جنس ایجنسی آ ئی ایس آ ئی کومطعون کرنے کا کو ئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی ۔جنرل راحیل شریف کی صدارت میںکورکمانڈر زکے حالیہ اجلاس کے بعد بتایا گیا کہ 'را‘کی پاکستان میں منفی سرگرمیوں کے متعلق انکشافات سامنے آئے ہیں۔ اب ہرش کی رپورٹ کے بعد ''را‘‘ اور بھارتی میڈیا پاکستان اور آئی ایس آئی کو مزید بدنام کرنے کی کوشش کرینگے۔
یہ سوال بھی پیداہو تا ہے کہ اگر اسامہ بن لا دن کے خلاف آپریشن آ ئی ایس آ ئی اورسی آ ئی اے کی ملی بھگت سے ہواتھا تو اس وقت کی زرداری حکومت کہاں کھڑی تھی ۔کیاوہ اتنے بڑے آپریشن سے یکسر لاعلم تھی؟ واضح رہے کہ 2011ء کاسال بظاہر پاکستان اور امر یکہ کے درمیان تعلقات کی کشیدگی کا سال تھا ۔سال کے شروع میں لاہور میںریمنڈڈ یوس کا واقعہ ہوا ۔2 مئی کو ایبٹ آباد میںاسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن ہوا اور 26نومبرکوپاک افغان بارڈر پر سلالہ چیک پوسٹ پر حملے میں24 پاکستانی فوجی شہید ہو ئے جس کے نتیجے میں نیٹو سپلائی روٹ معطل ہو گیا تھا۔یہ بات لگا نہیں کھاتی کہ ہرش کے مطابق اگر امریکہ اور پاک فوج کی ملی بھگت سے اسامہ بن لادن کو مارا گیا تھا تو اس وقت واشنگٹن اور اسلام آباد میں کشیدگی محض ٹوپی ڈرامہ تو نہیں ہو سکتی۔نیز یہ کہ امریکہ اور پاکستان اسامہ آپریشن کے بارے میں ایک ہی صفحے پر تھے تو اتنا بڑا ''خفیہ آپریشن‘‘ کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی۔