کفر ٹوٹاخدا خدا کرکے، سانحہ صفورا کوچھ دن گزرنے کے بعدعلیل وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی کراچی پہنچ ہی گئے، بعد از خرابی بسیار کراچی میں ان کی صدارت میںہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ نہ صرف جرائم پیشہ تنظیموں بلکہ ان کے ورکروں اور مددگاروں کے خلاف بھی کا رروائی کی جا ئے گی۔بعد میں وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ کراچی میں قیام امن کے لیے آپریشنل فیصلے کر لیے گئے ہیں ،دہشت گردی کے خلاف جنگ ٹی ٹونٹی یا 50اوورز کا میچ نہیں جو آسانی سے جیت لیا جائے۔ انھوں نے مزید کہا کہ سانحہ صفورا کے ذمہ داروں کا تعین ہو چکا ہے ،بھارتی خفیہ ایجنسی 'را‘ یاغیر ملکی ہا تھ ملوث ہونے کے بارے میں حتمی بیان دینا قبل از وقت ہو گا ۔ وزیر اعلیٰ سے پوچھا ہے اسماعیلی کمیو نٹی کو سکیورٹی کیوں نہیں دی ؟۔شاید وزیر داخلہ تک یہ خبر تا خیر سے پہنچی ہو کہ سانحہ صفورا کے بعد گز شتہ چند دنوں کے دوران کا فی پانی پلوںکے نیچے سے گزر چکا ہے۔اس دوران اپیکس کمیٹی کی میٹنگ ہو ئی جس کی صدارت آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کی، نیز وزیراعظم نواز شریف اور وزیر دفاع خواجہ آ صف بھی کراچی تشریف لے گئے اور صورتحال کے تناظر میں کئی اہم فیصلے بھی کر لئے ۔ شنید ہے کہ نواز شریف کی صدارت میںہو نے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس جس میں پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے علاوہ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور آصف علی زرداری بھی شریک تھے ،میں سندھ حکومت کی کارکردگی پر کڑی تنقید ہو ئی اور مقتدر اداروں کے ارکان کی طرف سے قائم علی شاہ کو مطعون کرتے ہو ئے بات ان کے استعفے کی حد تک بھی پہنچ گئی۔ اس دوران شاہ صاحب کے باس آ صف علی زرداری جو کچھ لیٹ آئے، نے واضح اور دوٹوک انداز میں کہا کہ صرف وزیر اعلیٰ سندھ کو نکو بنا کران کے استعفے کی کیوں بات ہو رہی ہے ؟اس قسم کے واقعات بلکہ اس سے بھی سنگین واقعات باقی صوبوں میں بھی ہو ئے ہیں لیکن وہاں کسی وزیر اعلیٰ سے مستعفی ہو نے کا مطالبہ نہیں کیا گیا ۔اصولی طورپر زرداری صاحب کی بات درست ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کراچی میں توآوے کا آ وا ہی بگڑا ہو ا ہے ۔وزیر اعلیٰ سندھ نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ سانحہ صفورا میں ' را‘کے ملو ث ہو نے کے ثبوت مو جو د ہیں نیز ان کا کہنا ہے کہ انھیں اور ان کی حکومت کو فوج کی مکمل حمایت حا صل ہے۔ صورتحال اس لحا ظ سے کا فی گمبھیر ہے کہ 'را‘ کا پورے ملک بالخصوص کراچی میں کھل کھیلنا ہمارے انٹیلی جنس اداروں کی ناکامی ہے۔وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ سانحہ صفورا کے مجرموں کوکیفرکردار تک پہنچایا جا ئے گا ،اچھی باتیں ہیں لیکن وزیر داخلہ کے یہ الفاظ کھو کھلے لگتے ہیں ۔ایسے لگتا ہے کہ ہمارے سویلین اور سکیورٹی ادارے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے بارے میں پیش رفت نہیں کر پا رہے ۔ بار باریہ دعویٰ کرنے کے باوجود کہ دہشتگردوں کے خلاف بلا تخصیص کا رروائی کی جائے گی عملی طورپر ایسا نہیں ہو رہا ،اعلیٰ سطح کے اجلاسوں پر ہی سارا زور اور وقت خرچ ہو رہا ہے لیکن اس سوچ کا فقدان نظر آ تا ہے جس کے ذریعے ہر قسم کی دہشت گردی کا قلع قمع کرنا چا ہیے۔
اگر یہ کہا جائے کہ پانی سر سے گزرتا جا رہا ہے تو یہ یکسر غلط نہ ہوگا ۔کو رکمانڈرکراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کا کراچی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں سیمینار سے خطاب چو نکا دینے والا ہے کہ کراچی میں متوازی حکومتوں اور طاقت کے مراکز کا خا تمہ کرنا ہو گا ۔نیز یہ کہ پولیس اور انتظامیہ کو آزاد ہو نے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا ہے کہ آ پریشن میں ناکامی کا آپشن نہیں ہے لیکن جنرل صاحب سے یہ سوال پو چھا جا سکتا ہے کہ پولیس تو عملی طورپر آپ کے ماتحت ہے اور رینجرز ستمبر 2013ء سے کراچی میں آپریشن کررہے ہیں‘ اس کے باوجو د حالات گمبھیر تر کیوںہو تے جا رہے ہیں؟ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ سارازور ایم کیو ایم کا قلع قمع کرنے پر صرف کیاجا رہا ہے جبکہ دوسری طرف تحریک طالبان پاکستان اور داعش اس کو ر کے تحت کھل کھیل رہی ہیں ۔کراچی آپریشن میںمصروف اعلیٰ ترین عسکری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ایم کیو ایم سے بھی زیا دہ سخت آپریشن تحریک طالبان پاکستان اور دیگر کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کیا گیا ہے ۔اگرواقعی ایسا ہے تو پھر بھی سارا معاملہ 'را‘پر ڈال کر سول انتظامیہ اور سکیورٹی ادارے اپنے فرائض میں غفلت سے مبرا قرار نہیں دیئے جا سکتے ۔ہر انٹیلی جنس ادارے کی طرح 'را‘ بھی سازگار حالات میں ہی کا م کرتی ہے ،لہٰذا یہ بات کلیدی اہمیت کی حامل ہے کہ دہشت گردوںکا خا تمہ کرنے کے لیے ان کی آ ما جگاہوں کو نشانہ بنا یا جانا چا ہیے۔اس کے لیے سویلین حکومت اور عسکری قیا دت کو بھی عزم مصمم کرنا ہو گا۔
خا دم اعلیٰ جنا ب شہباز شریف نے برادرم مجیب الرحمن شامی کی کا وشوں سے ہونے والی سی پی این ای کی صحافیوں کی تربیتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہو ئے فرمایا کہ وزیر اعظم ،جج اور جرنیل سمیت سب کا کڑا احتساب ہو نا چاہیے۔ بات اصولی طورپر بہت خوبصورت اور درست ہے لیکن برادر خورد کو چاہیے کہ '' اپنی مَنجی تھلے وی ڈا نگ پھیرن‘‘۔میٹروبس ،با ئی پا سز، انڈر پاسز،جدید ترین سڑکوں اور سولر لائٹس سے مزین لاہور شہر کے مرکزی علاقے شادباغ میں 6کمسن بہن بھا ئی جھلس کر جاں بحق ہو گئے۔خبر یہ ہے کہ وہاں فائر بریگیڈ والے توپہنچ گئے لیکن تکنیکی وجوہ کی بناء پر آ گ بجھا نے میںناکام رہے۔ ریسکیو 1122والے آگ لگنے کے 2گھنٹے بعد جا ئے حا دثہ پر پہنچے جس کی وجہ سے آ گ پھیلتی چلی گئی ۔اخباری اطلاعات کے مطابق عملے کے پاس پا ئپ کھولنے کے لیے اوزار نہیں تھے۔ وہ اہل محلہ سے پانی پھینکنے کے لیے با لٹیاں مانگتے رہے۔حسب روایت وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب نے بچوں کی ہلاکت پر ریسکیو ٹیموں کی طرف سے آگ بجھانے میں تا خیر کا نوٹس لیتے ہو ئے انکوائری رپورٹ کے علاوہ آ گ لگنے کی وجوہات طلب کرلی ہیں۔
یہاں یہ بنیا دی سوال اٹھتاہے کہ ریسکیو 1122جس کی سابق وزیر اعلیٰ چو ہدری پرویزالٰہی نے بڑی محنت سے بنیاد رکھی تھی اور سیاسی مخالفین بھی اس کی تعریف کرتے تھے ،کیا محض اس لیے رجعت قہقری کا شکار ہو گئی ہے کہ یہ منصوبہ چو ہدری پرویز الٰہی نے شروع کیا تھا یا اصل وجہ یہ ہے کہ ہماری صوبا ئی انتظامیہ کا سارا زورہا ئی پروفائل منصوبوں کی طرف ہے اور غریبوں اور عام شہریوں کو تعلیم ،صحت ،پینے کے صاف پانی اور تحفظ دینے کی سہولتیںفراہم کرنے کی طرف توجہ کم ہے ۔اگر وزیرا علیٰ پنجاب خود احتسابی کے قائل ہیں تو انھیں سب سے پہلے اس سانحہ میں غفلت کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کا پتہ لگا کر انھیں کیفرکردار تک پہنچا نا چا ہیے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن جس میں پولیس کی فائرنگ سے درجن کے لگ بھگ نہتے شہری جاں بحق ہوئے تھے، کو بھی تقریباً ایک برس ہونے کو ہے ،اس جرم کے مرتکب ذمہ داروں کی تو نشاندہی بھی نہیں ہو سکی‘ احتساب تو دور کی بات ہے اور رانا ثنا ء اللہ اس واقعہ کی پاداش میں ''سیک‘‘ ہونے کے باوجود آج بھی ڈپٹی چیف منسٹر ہیں۔