"ANC" (space) message & send to 7575

کبوتر ،بھارتی اوسان خطا

بھارت میں قیامت خیز گرمی سے ہز اروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیںاور لگتا ہے کہ یہ گرمی نریندر مودی سمیت بھارت کی انتہا پسند سرکار کے سر کو بھی چڑھ گئی ہے۔ پاکستان مخالف بیانات اور سرگرمیوں سے یوںمحسوس ہو تا ہے کہ نریندر مودی اور ان کے وزیروں کے بھی بارہ بج گئے ہیں۔ یہ خبر کسی ''جہادی‘‘ پاکستانی اخبار کی نہیں بلکہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامی اخبار کی ہے کہ بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس نے پاکستان سے اڑنے والے ایک کبوتر کوجا سوسی کے الزام میں ''گرفتار‘‘کر لیاہے ۔یہ بیچارہ کبوتر غلطی سے بھارتی فضا ئی حدود میں داخل ہو گیا تھا۔ بھارتی سراغ رساں اداروں کے مطابق اس کے پروں پر، اردو میں تحصیل شکر گڑھ اور ضلع نارووال لکھا ہوا ہے۔ یقینابھارتی انٹیلی جنس اداروں کو یہ علم نہیں ہوا ہو گا کہ وفاقی وزیرمنصوبہ بندی برادر احسن اقبال کا تعلق بھی نارووال سے ہی ہے اور وہ یہیں سے قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوتے ہیں ۔ ان کے مخالفین ان کو ''ڈان آف نارووال‘‘ کے لقب سے بھی یا د کرتے ہیں۔لہٰذا یہ کبوتر احسن اقبال نے ہی اڑایا ہو گا۔ کبوتر کی گرفتاری کی خبرکا انکشاف انڈین ایکسپریس نے کیا ہے‘ ورنہ یہ کہا جاتا کہ یہ درفنطنی بھی آ ئی ایس آئی کی اڑائی ہو ئی ہے۔خبر کے مطابق اس مشتبہ کبوتر کو پٹھان کو ٹ کے سرحدی قصبے مانوال سے کا فی جدوجہد کے بعد گرفتا ر کیا گیا ہے اور اس ''معرکے‘‘ میں کبوتر زخمی بھی ہو گیا ہے ۔ ایس ایس پی پٹھان کو ٹ کے مطابق اس سنگین واردات کی تحقیقات بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس اور انٹیلی جنس بیو رو کر رہا ہے ۔ بھارتی میڈیا کے مطابق کبوتر کاویٹرنری ہسپتال میں باقاعدہ سکین بھی کیا گیا ہے کہ کہیں اس میں انٹیلی جنس حا صل کرنے کے لیے کو ئی مائیکرو چپ نہ ڈالی گئی ہو ،لیکن کچھ بر آمد نہیں ہو ا ۔بھارتی انٹیلی جنس ادارے اگر تھوڑی سی تحقیق کر لیتے توان پر یہ حقیقت واضح ہو جا تی کہ کبوتر بازی تو بھارتی مسلمانوں کا پراناشغف ہے۔ زیا دہ دور جانے کی ضرورت نہیں دہلی اور لکھنو میں اب بھی کبوتر باز مو جود ہو نگے لیکن اس وقت مودی سرکار کو حقائق کی پروا نہیں‘ ان کے اذہان پر تو پاکستان بری طرح سوار ہے۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف ایک برس قبل جب نریندرمودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے بڑے دھوم دھام سے نئی دہلی تشریف لے گئے تھے تو امید تھی کہ بی جے پی کے سابق وزیر اعظم اٹل بہار ی واجپا ئی کے ساتھ 1999ء میں لاہور پراسیس کی بات جہاں ٹوٹی تھی‘ وہیں سے سلسلہ جنبانی زور شور سے دوبارہ شروع ہو جا ئے گا‘ لیکن اس کے باوجو د کہ میاں صاحب نے اس دور ے کے دوران نہ صرف مسئلہ کشمیر کا ذکر نہیں کیا بلکہ اس حد تک احتیا ط برتی کہ کشمیری حریت پسند لیڈر شپ سے روایات کے بر خلاف سرے سے ملاقات کی زحمت ہی نہیں کی۔ اس موقع پر ساڑھیوں کا تبادلہ بھی ہوا لیکن مو دی نے نواز شریف کو کھری کھری سنا ئیں اور ان کی ترجمان کے مطابق ان پر واضح کر دیا کہ جب تک بقول ان کے پاکستان کی طرف سے دراندازی ختم نہیں ہو جا تی، تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے۔میاں نواز شریف کو بھی چاہیے تھا کہ وہ اس ون آن ون میٹنگ میں مودی سے دودوہاتھ کرتے اور انھیں واضح طور پر بتا تے کہ جناب! پاکستان کشمیر ی حریت پسندوں کی تحریک کو کیو نکر روک سکتا ہے؟ پہلے وہاں سے سات لاکھ سے زائد بھارتی فوج نکالیں اور مسئلہ حل کریں، پھر بات آگے چلے گی۔لیکن میاں صاحب ''تھلے‘‘ لگ کرواپس آ گئے۔ ان کی یہ ادا نہ تو جی ایچ کیو کو بھائی اور نہ ہی پاکستانی قوم کو ،اور ان پر جلد ہی واضح ہو گیا کہ ہر قیمت پر بھارت کوجپھی ڈالنے کی پالیسی نہیں چلے گی۔اسی بناء پر بعد میں نئی دہلی میں پاکستانی ہا ئی کمشنر عبدالبا سط نے حریت پسندلیڈر شپ سے ملا قات کی اور وزیر اعظم نے گزشتہ برس نیو یا رک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں دو ٹوک اور بھرپور انداز میں مسئلہ کشمیراٹھایا۔
نریندر مودی ، نرگسیت کا شکا ر یہ شخص جو سونے کے تاروں سے مزین سوٹ پہن کر امریکہ کاسرکاری دورہ کر چکا ہے اور اطلاعات کے مطابق بعد میں یہی سوٹ چار کروڑ روپے سے زیا دہ کی بولی پر بیچا گیا تھا‘ اپنی پاکستان دشمن پالیسیوں پر سختی سے عمل پیرا ہے۔ اسی بناء پرپاکستان اور بھارت کے تعلقات ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں بی جے پی نے تاریخی فتح حا صل کی تھی لیکن اس کے باوجود مودی سرکار بھارتی عوام کے لیے کچھ نہیں کر پا ئی۔شاید اسی بناء پر بھار تی زعماء کے پاکستان کے بارے میں بیانات میں تندی وتیزی آ گئی ہے۔ بھارتی وزیر دفاع منوہرپاریکر کے اس دھمکی آمیز بیان پر، کہ بھارت دہشت گردی کا جواب دہشت گردی سے دے گا‘ پاکستان میں سخت ردعمل سامنے آیا ہے اوراسی تنا ظرمیں پاکستان نے بر ملا کہا ہے کہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ''را‘‘ پاکستان میں دہشت گردی اور سبوتاژکی کارروائیوںمیں ملوث ہے‘ جس کے ثبوت بھی انٹیلی جنس اداروں کے بقول ان کے پاس مو جو د ہیں۔ ہماری وزارت خا رجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے بیان سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔یہ بھی کہا جا تا ہے کہ بھارت کو پاک چین اقتصادی راہداری کے معاہدے سے سخت تکلیف ہے‘ حالانکہ یہ معاہدہ پاکستان میں انفرا سڑکچر کوفروغ دینے اور اقتصادی ترقی کے لیے ہے لیکن اس کے سڑٹیجک محرکات سے بھارتی لالے سخت خا ئف ہیں۔ مودی نے حال ہی میں 57دنوں میں 17غیر ملکی دورے کیے ہیں‘ جن میں چین کا دورہ بھی شامل ہے جس دوران بائیس بلین ڈالرز کے ایم اویوز پر دستخط ہو ئے ہیں‘ اس کے با وجود ہند چینی بھا ئی بھائی نہیںہو سکتے کیو نکہ بی جے پی سرکار نے برسراقتدارآتے ہی اپنا ناتا امریکہ سے جو ڑ لیا تھا ۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بارک اوباما اور نریندرمودی کا ہنی مون چل رہا ہے۔ جب گز شتہ ستمبر میں مودی نیویا رک گیا تو وہاں اس کی خوب آ ؤ بھگت کی گئی جبکہ دوسری طرف میاں نواز شریف کو‘ نیویا رک میں جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے وہاں موجو د تھے، اس حدتک نظر انداز کیا گیا کہ وہ اپنا دورہ مختصر کر کے لندن چلے گئے ۔بعدازاں رواں برس جنوری میں بارک اوباما جب بھارت کے یوم جمہو ریہ کی تقریبات میں شرکت کے لیے نئی دہلی آئے توان کی بھرپور پذیرائی کی گئی ۔غالباً اوباما دوسرے امریکی صدر ہیں جنہو ں نے اپنے دورۂ بھارت کے موقع پر اپنے ''حلیف‘‘ ملک پاکستان کا دورہ کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔مودی کا خیال ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کو مستقل رکنیت دلوانے کاوعدہ پورا کرے گا جبکہ اوباماپاکستان کو نا قابل اعتبار حلیف سمجھتے ہیں اور امریکہ بھارت کوچین کی بڑھتی ہو ئی اقتصادی اور دفا عی طاقت کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے ۔
دوسری طرف چینی زعماء بھی کچی گولیاں نہیںکھیلے ہو ئے۔چین پاکستان راہداری کے معاہدے کواسی تناظر میں دیکھنا چاہیے اور اس حوالے سے پاکستان نے درست حکمت عملی اختیا ر کی ہے۔ پاک فوج نے چینی ورکروں اور انجینئروں کی حفاظت کے لیے ایک جرنیل کی سربراہی میں دس ہزار فوجیوں پر مشتمل سپیشل ڈویژن تشکیل دے کر ایک مثبت اور بروقت قدم اٹھا یا ہے‘ کیو نکہ اگر ''راـ‘‘ پاکستان میں کام کررہی ہے تو اس معاہدے کو سبوتاژ کرنے کے لیے آخری حد تک جا ئے گی۔ بھارت کو مغرب کی طرف سے مسلسل پھونک دی جا رہی ہے کہ اس کی شرح نمو7.5فیصد ہو کر اقتصادی طور پر چین سے آگے نکل جا ئے گی؛ نیز یہ کہ بھارت ایک جمہو ریت ہے اور وہاں لو گ انگریزی بو لتے ہیں‘ اس لیے وہ چین کو پیچھے چھوڑنے کی صلا حیت رکھتا ہے۔اس صورتحال کے باوجو دپاکستان کو، امریکہ اور بھارت کو انگیج رکھناچاہیے اور چین بھی پاکستان کو یہی مشورہ دیتا ہے کہ بھارت سے سیاسی ، اقتصادی اور تجارتی روابط کو فروغ دے اور خود کومضبوط بنائے‘ تب ہی اسے کشمیرواپس مل سکتا ہے‘ لیکن تالی ایک ہا تھ سے نہیں بجتی۔اس وقت مقابلہ بھارتی ''عقابوں‘‘ اور پاکستانی کبوتروں کے درمیان ہے۔اور کبوتر کو اپنی آنکھیں بند کرکے نہیںبیٹھنا چاہیے۔ اس وقت حا ل یہ ہے کہ بر سر اقتدار طبقے نے قریباًہر محاذ پر کبوتر کی طرح آنکھیں ''میٹی‘‘ ہو ئی ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور ساتویں بڑی فوج رکھتے ہو ئے دشمن کے لیے ترنوالہ نہیں ہے‘ اس لیے شرافت کو کمزوری نہیں سمجھنا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں