لگتا ہے کہ میاں نواز شریف کا پرانا اعتما د بحال ہو تا جا رہا ہے ۔اپنے اقتدار کے پہلے دو برسوں میں تو وہ کچھ کھو ئے کھوئے اور'' ڈپریسڈ‘‘ ہی نظر آ تے تھے لیکن اب مذاق بھی کرنے لگ پڑے ہیں ۔گز شتہ جمعرات کو راولپنڈ ی اسلام آ با د میٹروبس جو اب پاکستان میٹرو بس ہو چکی ہے ،کے افتتاح کے موقع پر ان کے مز اح کا نشا نہ برادر خو رد میاں شہبا ز شریف تھے۔میاں صاحب نے انھیں ازراہ تفنن کہا کہ اب پرانے شعر پڑھنا چھو ڑ دیں اور نئے حالات میں نئے شعر پڑ ھیں ۔میاں شہباز شریف کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ اگلی کسی تقریب میں جس میں میاں نواز شریف بھی موجود ہو نگے، میاں صاحب کی یہ فرمائش پو ری کردیں گے۔ میٹروبس کی تقریب کے مو قع پر ہی میاں صا حب نے موضو ع سے قدرے ہٹ کر بڑی پتے کی بات کہی کہ سا ری جنگیں مارشل لاء کے دور میں ہو ئیں ۔کچھ لو گو ں کاماتھا ٹھنکا کہ میاں نوازشریف نے یہ ریمارکس ویسے ہی دے دیئے یا اب وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی حکومت مستحکم ہو گئی ہے اور اسے اب وقت سے پہلے گھر بھیجنے کے خدشات کم ہو گئے ہیں ۔میا ں صاحب کی بات کا فی حد تک درست تھی ۔1965ء کی جنگ ایوب خان کے دور میں ہو ئی ۔ 1971ء کی جنگ کا آ غا ز ہو ا تو جنرل یحییٰ خان برسراقتدار تھے ۔اس کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہو گیا اور کار گل جس میں 65ء کی جنگ کے مقابلے میں زیا دہ پاکستانی فوجی شہید ہوئے، اگرچہ حکومت میاں نواز شریف ہی کی تھی لیکن اس مس ایڈ ونچر کا سہرا جنرل پرویز مشرف کے سر جا تا ہے۔میاں صاحب کی حکومت کارگل کے حوالے سے پاکستان کی آ برو بچا نے کے چکر میں پرویز مشرف کے ہاتھوں ہی ختم ہو ئی۔جنرل پرویز مشرف آ ج بھی یہ کریڈٹ لیتے ہیں کہ کارگل کی مہم جو ئی انھوں نے کی تھی اور پاکستان کی بہت بڑی فتح تھی لیکن میاں نواز شریف نے اس وقت امریکی صدر کلنٹن کے ذریعے زبردستی سیز فائر کروا کر فتح کو شکست میں بدل دیا
1999ء کے ''کو‘‘ کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف نے اس وقت انسٹی ٹیو ٹ آ ف ریجنل افیئرز کی سربراہ محترمہ شیریں مزاری سے ایک کتاب بھی لکھوائی جس میں کارگل کی فتو حات گنو ائی گئی تھیں ۔ فوجی سربراہان سے تعلقات کے حوالے سے میاں صاحب کا بطور وزیر اعظم ریکارڈ اتنا درخشا ں نہیں ہے۔جنرل اسلم بیگ سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک ان کی کسی سے بھی نہیںنبھی لیکن خاکی اور سویلین یعنی دونوں شریف جتنے آج ایک دوسرے سے شیروشکر ہیں اس کی مثال بھی کم ملتی ہے۔شاید ہی کوئی ایساموقع ہو کہ راحیل شریف اور نواز شریف کی کسی نہ کسی بہا نے ملا قات نہ ہو ۔ ٹیلی فون پر رابطے اس کے علاوہ ہیں۔لگتا ہے کہ میاں صاحب کو با لا ٓ خر یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ فوج پر سیا سی تسلط جمانے کی کوشش شوق فضول اور سعی لاحاصل ہے ۔اسی بناء پر کسی حد تک بعد از خرابی بسیا راب فوج سے مسلسل مشاورت کے ذریعے ہی کام خوش اسلوبی سے چلایا جا رہا ہے۔ شاید پاکستان کے معروضی حالات میں یہی بہترین ماڈل ہے۔
ہفتے کو میری میاں شہباز شریف کی اقامت گاہ پر میاں نواز شریف سے اتفا قاًملاقات ہو ئی۔اس مو قع پر بھی مجھے یہی محسوس ہوا کہ وہ زیا دہ پراعتماد اور ہشا ش بشا ش ہیں۔شا ید یہ اس پر اعتما دی کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنی ٹیم میں نئے لو گ شامل کر رہے ہیں۔لیکن مسلم لیگ(ن) کے وہ عنا صر جو پرامید تھے کہ بجٹ کے بعد کا بینہ میں تو سیع ہو گی، حیران وششدررہ گئے کہ' منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے‘۔چو ہدری نثار علی خان اور مسلم لیگ(ن) کی اولڈ گا رڈمیں یہ احسا س جا گز یں ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی قیا دت جماعتی امور کی طرف بھرپور تو جہ نہیں دے رہی۔ پارٹی کے اعلیٰ عہد یدارجن میں سیکرٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا اور پنجاب کے نا ئب صدر چوہدری جعفر اقبال شامل ہیں، کو میاں برادران گھا س ہی نہیں ڈال رہے۔اس پرمستزادیہ کہ پرویز مشرف کی با قیا ت ہی اس وقت قرب شاہ کے خوب مز ے لوٹ رہی ہے۔ معاصرڈان کے مطابق پا رٹی کے اعلیٰ ارکا ن بجٹ پریس کانفرنس کے موقع پر ہمایوں اختر خان کے برادر خورد ہارون اختر خان کو وزیر خزانہ اسحق ڈار کی معیت میں دیکھ کر حیران رہ گئے۔انھیں یقین ہی نہیں آ یا کہ اختر برادران جو کل تک تحریک انصاف میں شریک ہونے کے لیے ہر طرح کے پاپڑ بیل رہے تھے مسلم لیگ(ن) میں آبیٹھے ہیں۔ یہ اطلاع کہ یہ کارنامہ میاں شہباز شریف نے سرانجام دیا ہے، تحقیق کرنے پر قطعاً غلط ثابت ہوئی۔ میاں صاحب کوتو خود ٹیلی ویثرن چینل کے ذریعے یہ خبر ملی۔دراصل برادر اسحاق ڈار نے اختر برادران سے کیا ہوا پرانا وعدہ نبھایا ہے۔ پرویزمشرف کے ایک اور قریبی ساتھی نثار میمن جو سابق وزیرا طلاعات ہیں‘ کی صاحبزا دی ماروی میمن بھی بینظیر انکم سپورٹ
پروگرام کی سربراہ بن بیٹھی ہیں۔وہ محترمہ مریم نواز کے خا صی قریب ہیں اور میڈیا کے معاملات میں ان کا گہرا عمل دخل ہے۔اسے ستم ظریفی نہیں کہیں گے تو اور کیا کہ محترمہ ماروی میمن مشرف دور میں آئی ایس پی آ ر میں بیٹھ کر بھی یہی کام کیا کرتی تھیں۔ مجھے اچھی طرح یا د ہے کہ مشرف دورکے سیکرٹر ی اطلا عات ونشریا ت سید انور محمو د نے مجھے بتا یا کہ ماروی میمن نے ایسا کمپیو ٹر پروگرام تیا ر کیاہے جس کے مطابق ہر رو ز میڈیا کی حکومت کے بارے میں کوریج اور آ را کو مانیٹر کیا جا تا ہے۔سرخ گراف غیر موافق تبصروں کے لیے اور سبز موافق تبصروں کے لیے مختص ہیں،اور نوائے وقت کے حوالے سے سرخ گراف سب سے آ گے ہو تا ہے ۔شروع شروع میں جنرل صاحب نے اس رپورٹ کو باقا عدگی سے دیکھا اور اس کی پاداش میں نوائے وقت کے اشتہا رات پر قد غن بھی لگی لیکن بعد ازاں انو ر محمود کے مشورے پر میڈیا کو جانچنے کے اس نا قص پیمانے کو رد کر دیاگیا ۔اسی طرح انور عزیزکے صاحبز ادے دانیال عزیز وفاقی وزیر کے برابر عہدے پر پرویز مشرف کے نیشنل ری کنسٹر کشن بیو روکے سربراہ تھے، اس ا دارے کامقصد لوکل گو رنمنٹ کے نئے نظام کو پارلیمانی جمہوریت کا نعم البدل بنانا تھا ۔اب یہی دانیال عزیز میڈیا پر مسلم لیگ(ن) کی مدافعت کرتے ہو ئے پرویز مشرف اور تحریک انصاف کو بے نقط سنانے کے ساتھ ساتھ پارلیمانی جمہوریت کے فیوض گنواتے رہتے ہیں ۔ سب سے دلچسپ صورتحال زاہد حامد کی ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں وزیر قانون تھے ،میاں نواز شریف نے مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے کے بعد انھیں اپنا وزیر قانون بنا لیا اور اس وقت انتہا ئی مضحکہ خیز صورتحال پیدا ہو گئی جب مشرف کیس میں وہ ملز م کی جگہ مد عی کے وکیل بن گئے اور طوعاً و کرہاً ان کاقلمدان تبدیل کرنا پڑ گیا ۔ریاض پیرزادہ جو اس وقت وزیر بین الصوبائی رابطہ ہیں اورامیر مقام جو وزیراعظم کے سیاسی امور کے مشیر ہیں، بھی مشرف ٹیم کے اہم ستون تھے۔فطری طورپر اس صورتحال پر حکمران جما عت میں بے چینی پا ئی جا تی ہے کیو نکہ سب کو معلوم ہے کہ متذ کرہ بالا شخصیا ت جن صلا حیتوں کے حامل ہیں وہ بدرجہ اتم مسلم لیگ(ن) کے لو گوں میں بھی مو جو د ہیں۔ اس با ت کا خطرہ ہے کہ میاں نواز شریف جو اب گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات اور منڈی بہاؤالدین کے ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کی دھنائی کر کے فارغ ہوئے ہیں ،ان کامیابیوں کے نشے میں سرشار ہو کر جوں جوں اپنے آپ کو مستحکم محسو س کر رہے ہیںاتنا ہی پارٹی جو کہ ان کی سیا ست کی بنیا د ہے،سے کٹتے نہ چلے جا ئیں۔ اسی بنا پر ضروری ہے کہ شریف برادران اپنے مشکل وقت کے ساتھیوں کونظر انداز نہ کریں اور انھیں ان کا جائز مقام دینے کے علاوہ پارٹی کے تنظیمی امور پر تو جہ دیں۔