"ANC" (space) message & send to 7575

ضرب عضب… ایک سال

آج دہشت گردوں کے خلاف مربوط اور بھرپور آپریشن جسے ضرب عضب کانام دیا گیا‘ کوباقاعدہ شروع ہو ئے ایک برس مکمل ہو گیا ہے۔اس سال کے دوران یہ کہنا تو درست نہیں ہو گا کہ دہشت گردی پر مکمل قابو پا لیا گیا ہے۔سالہاسال سے ہماری فوجی اور سول قیادتوں نے جس نا سور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش ہی نہیں کی ،اس عفریت پر ایک سال کے اندر قابوپانا غیر فطری توقع ہو گی۔البتہ جس انداز سے اس آپریشن کو آگے بڑ ھا یا گیا ہے اس سے وطن عزیز میں ایک نئی تاریخ رقم ہو ئی ہے اور یہ بات پوری طر ح واضح ہو گئی ہے کہ ایک شخص کا عزم مصم ملک کو ایک نئے مو ڑ پر لا کر کھڑا کر سکتا ہے۔ نومبر2013ء میں جب فوج کے موجو دہ سربراہ جنرل راحیل شریف کے پیش روجنرل کیا نی تھے، وہ یہی راگ الاپتے تھے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی ۔ ان کا استد لال یہ تھا کہ اچھے طالبان سے ہماری کو ئی لڑ ائی نہیں ہے،چونکہ افغا نستان ہمارا ہمسا یہ ہے اور جب امریکہ کی فوجیں وہاں سے چلی جا ئیں گی تو ہمارا انہی طالبان سے واسطہ پڑے گا ۔ جنرل اشفاق پرویز کیا نی اور ان کے ساتھیوں کو یقین تھا کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد وہاں طالبان کی حکومت ہی قائم ہو گی۔ جہاں تک تحریک طالبان پاکستان کا تعلق ہے،کیانی صاحب پاک فوج کے مخصوص سٹر ٹیجک پیراڈائیم کی روشنی میں فرماتے تھے کہ مشرقی اور مغربی سرحد وں پر بیک وقت لڑائی پاک فوج کو وارا نہیں کھا تی۔پاکستان کا اصل دشمن بھارت ہے، لہٰذا مشرقی سرحدوں سے تو جہ نہیں ہٹا ئی جا سکتی اور اس محا ذ پر فوج کا بڑا حصہ تعینا ت رہے گا ۔اس انوکھی منطق کے مطابق جنرل کیا نی یہ عذر بھی پیش کرتے تھے کہ اگر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی گئی تو اس کے شاخسانے کے طور پر یہ لو گ پورے ملک میں خون کی ندیاں بہا دیں گے جن سے نبردآزما ہو ناانتہائی کٹھن ہو گا ۔دوسری طرف زرداری حکومت اور بعدازاں شریف حکومت اپنی مصلحتوں کے تحت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے حق میں نہیں تھیں۔مسلم لیگ(ن) ،تحریک انصاف ،مذہبی جماعتیں بالخصوص جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نظریا تی طور پر اور مصلحتو ں کے تحت نام نہا د جہا دی تنظیموں جو جہا د کے مقدس نام پر دہشت گردی کر رہی تھیں،کے لئے نرم گو شہ رکھتی تھیں۔ اسی بنا پر مئی2013ء کے انتخابات میں ان جماعتوں کو دہشت گردوں سے کسی قسم کا خطرہ نہیں تھا جبکہ پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی اور کسی حد تک متحدہ قومی موومنٹ تحریک طالبان پاکستان کی دھمکیوں کے پیش نظر کھل کر انتخا بی مہم چلانے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھیں ۔جنرل راحیل شریف نے اپنے عزم مصمم سے اس ضمن میں تمام خدشات اور مفروضوں کو غلط ثابت کر دیا اور حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ نواز حکومت کے لئے بھی فوجی 
آپریشن کی حمایت کے سوا کوئی راستہ نہ رہا ۔جنرل صاحب نے آتے ہی یہ سٹر ٹیجک فیصلہ کر لیا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کے سوا کو ئی چارۂ کار نہیں اور اس ضمن میں اچھے اور برے طالبان کی تمیز روارکھے بغیر بلا کم وکاست کارروائی کرنا ہو گی ۔اس حوالے سے انہوں نے اپنے گھوڑے پہلے ہی سے تیا ر کرنا شروع کر دیئے ۔گز شتہ30 اپریل کو پاک فوج نے یوم شہدا بڑے بھرپور طریقے سے منایا ۔اس سے اگلے روز میری جنرل صاحب سے نجی ملاقات بھی ہو ئی ۔اس ملاقات میں،میں یہ بھرپورتا ثر لے کر اٹھا کہ یہ شخص میرے دوست جنرل اشفا ق پرویز کیا نی سے قطعاً مختلف ہے۔ کیانی صاحب کے 'نیمے دروں نیمے بروں‘ میلانِ طبع کے برعکس جنرل صاحب بڑے ہی لطیف انداز میں دوٹوک بات کرنے والی شخصیت ہیں۔ انھوںنے مجھے بتایا کہ پاک فوج آپریشن کے لیے تیا ر ہے لیکن وہ ایسا سویلین اونرشپ کے بغیر نہیں کرنا چاہتے ۔یہ وہ دور ہے جب حکومت تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کرنے کے شوق میں دبلی ہورہی تھی ۔خیبر پختونخواہاؤس میں ہونے والے مذاکرات میں ٹی ٹی پی نے برملا کہہ دیا کہ وہ پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے اور وہ اس سے بالا بالاشریعت کا نفاذ چاہتے ہیں۔ظاہر ہے کوئی بھی سیاسی جماعت اس بے جا مطالبے کو تسلیم نہیں کر سکتی تھی۔ غالباً ٹی ٹی پی کو یہ غلط فہمی تھی کہ پاک فوج اور سیاسی جماعتوں میں ان کے سابق'' خیر خواہ‘‘ ان کے خلاف کارروائی نہیں ہونے دیں گے۔دوسری طرف فوج نے انھیںمذاکرات کا پورا موقع دیا حتیٰ کہ جب ایک ڈرون حملے میں طالبان کا کمانڈر حکیم اللہ محسود مارا گیا تو وزیر داخلہ چوہدری نثا ر علی خان نے مگر مچھ کے آ نسو بہا تے ہو ئے کہا کہ آ ج امن کی کوششوں پر ڈرون حملہ کردیا گیا ہے۔ اسی دوران تحریک طالبان پاکستان نے 2010ء سے ایف سی کے23 اہلکاروں‘ جو اُن کے قبضے میں تھے، کوشہید کر کے ان کے سروں کا فٹبال بنایا اور اس کی ویڈیو بھی جاری کر دی۔اس سفا کی پرپوری قوم لرز اٹھی لیکن فوج نے پھر بھی صبر وتحمل کا دامن ہا تھ سے نہ چھوڑا۔اس حوالے سے 8جون 2014ء کو کراچی ائیر پورٹ پر حملہ جس میں ٹی ٹی پی کے علاوہ اسلامک موومنٹ آ ف ازبکستان بھی شامل تھی اور اس میں 28افراد جاں بحق ہوئے ،اونٹ کی کمر پر آخری تنکاثابت ہوا ۔اس کے بعد مذاکرات کی کو ئی گنجا ئش نہ رہی اور 15جون 2014ء کو پاک فوج نے پاک فضا ئیہ کی مدد سے شمالی وزیر ستان میں دہشت گردوں کی آماجگاہ پر ٹارگٹڈ آپریشن شروع کر دیا جو ساتھ ہی ساتھ زمینی کارروائی کی صورت میں آگے بڑھنے لگا۔
15 جون کو فضا ئی حملے میں کراچی کے جناح ٹرمینل پرحملے کا سر غنہ عبدالرحمن المانی بھی مارا گیا۔کہا جاتا ہے کہ گز شتہ ایک سال کے دوران آپریشن ''ضرب عضب ‘‘سے شمالی وزیرستان کے اسی سے نوے فیصد علاقے کو دہشت گردی سے پاک کر ادیا گیا ہے،دہشت گردوں کے تربیتی مراکز،ان کی پناہ گاہیں اور انفراسٹرکچر ختم کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ملک کے دیگر علاقوں میں دہشت گردوں کی کارروائیوں میں کمی آئی ہے لیکن ابھی تک مکمل طور پر ان عنا صر کا صفا یا نہیں ہو سکا ۔اسی بنا پر ڈرون حملے بھی وقتاًفوقتاًہو تے رہتے ہیں اور پاک فوج کے آپریشن بھی پوری طرح جا ری ہیں۔ مقام شکر ہے کہ وہ 'بلو بیک‘ جس کا جنرل کیا نی کو خدشہ تھا ،اس شدت سے نہیںہوا جس سے ملک کا تانا بانا ہی بکھرجاتا ،دہشت گرد زخمی سانپ کی طرح پھنکاررہے ہیں ۔
سیکرٹری خا رجہ اعزاز چوہدری جو سٹر ٹیجک ڈا ئیلاگ میں شرکت کے بعد واشنگٹن سے حال ہی میں لوٹے ہیں ،نے امریکی تھنک ٹینک اٹلا نٹک کونسل سے خطاب کرتے ہو ئے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے لیکن دہشت گردی کی وارداتوں سے تنگ آئے ہو ئے پاکستانی عوام اس بات کو ایک ڈینگ سے زیا دہ اہمیت نہیںدیں گے کیونکہ فوج کی ایک برس کی کارروائیوں اور حکومت کی کاوشوں کے باوجو د' ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‘۔جس سفا کانہ انداز سے ہزارہ شیعہ کو مارا جا رہا ہے اور حال ہی میں اسماعیلیوں کو نشانہ بنا یا گیا ہے اور بسوں میں سوار نہتے شہریوں کا قتل عام جاری ہے،نیز ملک میں جیو اور جینے دو کی پالیسی اور مذہبی رواداری کے کلچر کو فروغ دینے کی نیم دلانہ کو ششوں کے سوا کو ئی ابتدا ہی نہ کی گئی، ایسے میںدہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کا خواب ایک سراب ثابت ہو گا۔
آپریشن ''ضرب عضب‘‘ کا دوسرا مرحلہ اس وقت شروع ہوا جب اس آپریشن کے ٹھیک چھ ماہ بعدپشاور میں آ رمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے بز دلانہ حملے میں 145بچے اور اساتذہ شہید ہو گئے ۔اس افسوسناک سانحے نے قوم کوجھنجوڑ کر رکھ دیا ۔اسی تناظر میں نواز شریف نے سانحے کے اگلے ہی روز 17دسمبر کو آل پارٹیز کانفرنس بلا ئی جس میں فوج کے سربرا ہ آ رمی چیف جنرل راحیل شریف ،آ ئی ایس آ ئی کے سربراہ جنرل رضوان اور آ صف علی زردای کے علاوہ دیگر سیاسی رہنماؤں نے بھی شرکت کی ۔اسی حوالے سے 21نکات پر مشتمل قومی ایکشن پلان سامنے آیااور بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداق اس بہانے قوم کی عمران خان کے تین ماہ سے جاری دھرنے سے جان چھوٹی۔اسی بنا پر سانحہ پشاور پر اے پی سی سے قبل خان صاحب کے دھرنے اور حکومت وسیاسی جماعتوں کے روئیے سے یہ تا ثر ملتا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن فوج کاکام ہے اور سیاستدانوں سمیت باقی قوم اپنے کاموں میں مست ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں