"ANC" (space) message & send to 7575

سانحہ پشاور‘سال بعد ہم کہاں ہیں؟

پشاور کے آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے سفا کا نہ اور بز دلانہ حملے کو آ ج ایک بر س مکمل ہو گیا ۔ اس اندوہناک سانحے میں جہاں 150 کے قریب افرادنے‘ جن میںزیادہ تر حصول علم کے لیے آنے والے بچے، اساتذہ اور دیگر افراد شامل تھے ‘ جام شہادت نوش کیا وہیںاس واقعہ نے پاکستان کو ایک نئے مو ڑ پر لا کھڑا کیا اور اس لحا ظ سے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ وطن عزیز کے لیے''نائن الیون‘‘ثا بت ہوا۔اگر چہ'' ضرب عضب‘‘ آپریشن چھ ماہ پہلے شروع ہو چکا تھا لیکن سول ، سیاسی وفوجی قیادت اور اپوزیشن جماعتوں میںاس سانحے کے بعد یہ احساس جا گزین ہو گیا کہ ہمیں دہشت گردوں کے خلا ف قومی بقا کی جنگ ‘بنیان مرصوص ہو کر ہر حالت میں لڑناہو گی اور اس کے سوا کو ئی چارہ نہیں۔اس سانحے کے فوری بعد پشاور میں بلا ئی گئی اے پی سی میںبھی تمام سیاسی جماعتو ں نے اسی نقطہ پر اتفاق رائے اور اتحا د کا مظا ہر ہ کیا ۔حتیٰ کہ عمران خان جو طالبان سے مذاکرات کی مسلسل رٹ لگانے کے ناتے''طالبان خان‘‘بھی کہلانے لگے تھے مجبور ہو گئے کہ وہ اس معاملے میںآپریشن کی دامے درمے سخنے حمایت کریں۔ ''بلی کے بھا گوں چھینکا ٹوٹا‘‘ انہیں اس افسوسناک واقعے کے نتیجے میں اپنے چار ماہ سے زائد جا ری دھرنے کو‘ جس کی پھونک نکلتی جا رہی تھی‘ ختم کرنے کا جواز بھی مہیا ہو گیا ۔اسی آپریشن کے حوالے سے نیشنل ایکشن پلان اور اس کے تحت بننے والی وفاقی سطح پر اور صوبوں میں اپیکس کمیٹیوں کاقیام فوج اور سویلین قیا دت کے درمیان ایک نئے تال میل کا پیش خیمہ ثابت ہوا ۔
گز شتہ ایک برس کے دوران جتنی مرتبہ اور تواتر سے آ رمی چیف جنرل راحیل شریف اور وزیر اعظم میاں نواز شریف کے درمیان ملا قاتیں ہو ئی ہیں ان کی ما ضی میں مثال نہیں ملتی،بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ میاں نواز شریف نے کا بینہ اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ اتنے اجلاس نہیں کیے ہو ں گے جتنی مرتبہ انہوں نے آرمی چیف سے ون آ ن ون ملاقاتیں کیںیا ان کی موجودگی میں سکیو رٹی اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے اجلاسوں کی صدارت کی ہو اور نہ ہی انہوں نے اس دوران قومی اسمبلی کا اتنی بار چکر لگایا ہو گا ۔ویسے بھی میاں صاحب اپنی طاقت کے منبع پارلیمنٹ کا شاذ ہی رخ کرتے ہیں۔ اس دوران آ رمی چیف جنرل راحیل شریف کی شخصیت قومی وبین الاقوامی منظر پر ابھر کر سامنے آ ئی بلکہ بطور ایک سید ھے سادے پروفیشنل سولجر اور دنیا کی آٹھویں بڑی فوج کے قائد کے طور پر اپنا لو ہا منوالیا ۔لا محالہ وہ لوگ جو خالصتاً جمہوری سوچ کے حامل ہیں، اس بات پر متفکر رہتے ہیں کہ'' خیمے میں اونٹ پو ری طرح داخل ہو تا جا رہا ہے‘‘ان کا استدلال ہے کہ سویلین حکومت کے لیے سپیس کم ہو رہی ہے۔ یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے لیکن غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کرنا پڑتے ہیں ۔ہیومن رائٹس کے نام نہاد علمبردار فوجی عدالتوں کے ذریعے تختہ دار پر چڑھنے والے لوگوں کے حوالے سے انسانی حقوق کی پامالی کا رونا روتے رہتے ہیں ۔ یہ لبرل خواتین و حضرات قبل ازیں اس بات پر معترض رہے ہیں کہ وطن عزیز میں اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے دندناتے پھرتے ہیں اور فوجی وسویلین قیادت اس بارے میں کچھ نہیں کررہی بلکہ ان کی پشت پنا ہی کر رہی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ججز ،پراسیکیوٹرز ،پولیس اور وکلا کی اکثر یت دہشت گردوں کو عدالتوں کے ذریعے کیفر کردار تک پہنچانے میں ناکام رہے ہیں ۔ اب جبکہ ان دہشت گرد تنظیموں پر آہنی ہا تھ ڈالا گیا ہے تو یہی حلقے واویلا کر رہے ہیں۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے حال ہی میںٹویٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں ''آپریشن ضرب عضب‘‘ میں غیر معمولی کامیابی حاصل ہو ئی ہے اور اب پاک افغان سر حد پر آخری علاقوں کو صاف کیا جا رہا ہے نیز یہ کہ دہشت گردوںکی کمر توڑی جا چکی ہے اور بہت حد تک ان کے خفیہ ٹھکا نوں کو تباہ کیا جا چکا ہے ۔ 
آئی ایس پی آرکا‘جوان کے سربراہ کے حسن کارکردگی کی بنا پر لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی پانے کے ناتے سے ایک کور جتنی اہمیت اختیار کر چکی ہے، دعویٰ کا فی حد تک درست بھی ہے لیکن ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ حال ہی میں پارا چنار میں بم دھماکے سے 25افراد کی شہادت کے افسوسناک واقعہ سے بخو بی انداز ہ لگا یا جا سکتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان ایک زخمی سانپ کی طرح پھنکار رہی ہے اور مختلف دہشت گرد تنظیموں کے ٹھکانے اور ان کی کمین گا ہیں اب بھی موجو د ہیں جنہیں مکمل طور پر صاف کرنے کے لیے مز ید پا پڑ بیلنا پڑیں گے ۔
یقینا ضرب عضب ہماری بقا کی جنگ ہے لیکن یہ محض عسکری محا ذ پر ہی نہیںجیتی جا سکتی اس کے لیے اور جتن بھی کرنے پڑیں گے۔نیشنل ایکشن پلان پر بلا کم وکا ست اور ایما نداری سے عمل درآمد کرنا پڑے گا ۔ فیشن کی حد تک تو شروع میں یہ کہا جا تا رہا ہے کہ'' قومی بیانیہ‘‘بدلنے کی بہت ضرورت ہے۔علامہ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کے پاکستان میں اس حوالے سے بھی دہا ئی دی جا تی ہے کہ سب شہریوں کومساوی حقوق ملنے چاہئیں ۔اقلیتوں سے بھی برابری کا سلوک کرنا چاہیے اور معاشرے میں رواداری اور جیو اورجینے دو کا دور دورہ ہو نا چاہیے ۔لیکن زمینی حقائق اس حوالے سے مختلف اور تلخ ہیں ۔اب بھی ایسے قوانین موجود ہیں جن کے غلط استعمال سے اقلیتوں کو زک پہنچائی جا تی ہے ۔
اسی طر ح سے علماء کے ایک طبقے کی جانب سے نفرت انگیز تقاریر کا سلسلہ بھی جا ری ہے۔علاوہ ازیں مدارس اور خا نقاہوں میں نفرت کا درس اب بھی دیا جا تا ہے ۔اس ضمن میں پیشرفت تو ہو ئی ہے لیکن یہ ناکافی ہے ۔حکمران خواب خرگوش میں مگن ہیں۔ ان کے نز دیک تر قی کی معراج موٹر ویز، میٹروبسیں،انڈرپا سز ،فلا ئی اوورز،سگنلز فری منصوبے، اورنج لائن ٹرین اور لوڈ شیڈنگ کا خا تمہ ہے۔لیکن نفرت پھیلانے والوں کی لو ڈ شیڈنگ کا اندھیرا نہیں ختم ہو پا رہا، اس کا دورانیہ اب بھی زیا دہ ہے ۔
وزیر خزانہ محترم اسحق ڈار اس بات پر خوش ہیں کہ آئی ایم ایف ہم سے خوش ہے اور زرمبا دلہ کے ذخا ئر اس ماہ کے آخر تک اکیس ارب ڈا لر تک پہنچ جا ئیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری شر ح نمو ساڑھے چار فیصد سالا نہ سے زیا دہ بڑھنے کی کو ئی امید نظر نہیںآرہی جب تک یہ شرح 6فیصد سے زیا دہ نہیں ہو پا تی ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ آبا دی کی شرح میں تشویشنا ک اضافے،جائز دفا عی اخراجات اور حکمرانوں کے شوق فضول کی تکمیل کے لئے بنائے گئے منصوبوں کے پیش نظر غربت اور جہالت کے خا تمے کے لیے کیا بچتا ہے ۔ہر سال لاکھوں کی تعداد میں پیداہونے والے بے روزگار ،غیر تعلیم یا فتہ ،نیم تعلیم یافتہ نوجوان کیا کریں گے۔وہ انہی کٹھ ملا ؤں کے ہا تھ چڑھ سکتے ہیں۔آج کا دن ہماری سول وفوجی قیادت کے لیے ان باتوں پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کا دن ہو نا چاہیے جس کے بعد ایک نئی تاریخ رقم کی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں