2015ء کا سال پاکستان کے لیے مجموعی طور پر اچھا ثابت ہوا۔ بعض ایسے معاملات میں بنیادی تبدیلیاں آئیں جو برسہا برس سے ایک ہی ڈگر پر چل رہے تھے۔ یہ سال اس بات کے نام کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ پہلی مرتبہ دہشت گردوں اور بھتہ خوروں کے بارے میں تساہل برتنے کی پالیسی میں مثبت تبدیلی آئی۔ وطن عزیز ایک برس میں مکمل امن کا گہوارہ تو نہیں بن سکا، ظاہر ہے سالوں پرانا مرض ایک برس میں بھلا کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے؟ تاہم اگر یہ کہا جا ئے کہ اب شہری اپنے جان و مال کو نسبتاً محفوظ تصور کرتے ہیں تو یہ غلط نہ ہو گا۔ یقینا یہ معرکہ سر کرنے میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاک فوج کا کلیدی کردار ہے۔ میاں نواز شریف اور دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے بعد از خرابیء بسیار ہی سہی، مذہب کے نام پر دہشت پھیلانے والوں کے خلاف آپریشن کی اونرشپ قبول کی۔ ماضی میں فوجی قیادت کا رویہ بھی اس ضمن میں 'نیم دروں نیم بروں‘ جیسا رہا۔ اچھے اور برے طالبان کے درمیان امتیاز روا رکھنے کی غلط پالیسی نے پاکستان کو نہ صرف اندرونی طور پر کمزور کیا‘ بلکہ خطے میں اپنے ہمسایوں سے دور بھی کر دیا۔ جنرل راحیل شریف ایک کلیئر ہیڈڈ جرنیل کے طور پر ابھرے ہیں‘ اور ایک سیدھے سادے پروفیشنل فوجی کے طور پر لگی لپٹی رکھے بغیر دہشت گردوں کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے ہیں۔ ان کے پیش رو جنرل اشفاق پرویز کیانی تو کہا کرتے تھے کہ اگر دہشت گردوں کے خلا ف کارروائی کی گئی تو اس کا 'بلو بیک‘ پورے ملک میں پھیل جائے گا اور مشرقی و مغربی سرحد بھی غیر محفوظ ہو جا ئے گی‘ لیکن 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک سکول پشاور پر ہونے والا تحریک طالبان پاکستان کے حملے‘ جس میں 150 کے قریب افراد‘ جن میں زیادہ تعداد طلبا اور اساتذہ کی تھی، شہید ہو گئے تھے، نے پاکستان کو بدل کر رکھ دیا۔ 2015ء اس تبدیلی کا مظہر ہے۔ اس سے قبل حکمران نواز لیگ اور اپوزیشن بالخصوص تحریک انصاف طالبان سے مذاکرات کرنے اور ان کے آ گے سجدہ سہو کرنے کے مشورے دیتی رہتی تھیں‘ حتیٰ کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان تو طالبان سے مذاکرات کرنے کے اتنے بڑے چمپیئن تھے کہ جب تحریک طالبان سے مذاکرات کے لیے بیک چینل معاملات جاری تھے‘ تو تحریک طالبان کا سربراہ حکیم اللہ محسود ڈرون حملے میں مارا گیا، چوہدری صاحب نے انتہائی بھریلی آواز میں کہا کہ آج امن مذاکرات پر ڈرون حملہ ہوا ہے۔ مقام شکر ہے اس حوالے سے حکومت اور فوج سال رواں کے دوران ایک ہی پیج پر نظر آئے۔
میاں نواز شریف نے ستمبر 2013ء میں جو کراچی آپریشن شروع کیا تھا‘ وہ بھی 2015ء میں ہی رنگ لایا‘ اور کراچی کی روشنیاں کافی حد تک بحال ہو گئیں۔ یہ الگ مسئلہ ہے کہ سال کے اواخر میں جب رینجرز کی توپوںکا رخ پیپلز پارٹی کی طرف ہوا تو سندھ میں حکمران جماعت نے ایک قرارداد کے ذریعے ان کے اختیارات ہی کم کر دیئے۔ اگرچہ وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کو 'ویٹو‘ کر کے رینجرز کو اختیارات دے دئیے ہیں‘ لیکن یقینا یہ تاثر ابھر کر سامنے آیا ہے کہ وفاق اور اسٹیبلشمنٹ سندھ کو دیوار سے لگا رہے ہیں‘ اگرچہ پیپلز پارٹی کا پرانا المیہ ہے کہ اس نے سندھ میں شفافیت اور گڈ گورننس کی رتی بھر بھی کوشش نہیں کی۔ میاں نواز شریف غالباً ایک مخمصے میں مبتلا ہیں۔ اگر وہ رینجرز کو دہشت گردی اور کرپشن کی سرکوبی کے ضمن میں فری ہینڈ دے دیتے ہیں‘ تو ان کی سویلین بالادستی پر آنچ آتی ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پاکستان کی طاقتور فوج کو ناراض کرنا انہیں مہنگا پڑ سکتا ہے۔ 2015ء میں مجموعی طور پر میاں نواز شریف کے پاک فوج سے تعلقات بہتر رہے ہیں۔ جتنی بار جنرل راحیل شریف اور نواز شریف کی سٹیک ہولڈرز کے ساتھ اور ون آن ون ملاقاتیں ہوئیں اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ یقینا وزیر اعظم نے اتنی بار تو اپنی کابینہ کے اجلاس بھی نہیںکئے اور جہاں تک ان کے اختیارات کے منبع پارلیمنٹ کا تعلق ہے‘ تو وہ وہاں شاذ ہی جاتے ہیں۔
فوجی قیادت نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمدکے حوالے سے حکومت کی سست روی پر شاکی ہے‘ اور تنگ آمد بجنگ آمد کے مترادف کور کمانڈرز کے اجلاس کی پریس ریلیز میں اس کا ذکر بھی کر دیا گیا۔ یقینا 2015ء کے دوران جنرل راحیل شریف کا 'فٹ پرنٹ‘ زیادہ واضح ہوا ہے، نتیجتاً خارجہ اور سکیورٹی پالیسی میں فوج کا کلیدی رول یا کم از کم ویٹو واضح طور پر نظر آ تا ہے؛ تاہم تمام تر چہ میگوئیوںکے باوجود یہ امکانات کہ فوج مشرف کی طرح نواز شریف کی چھٹی کرا دے گی قریباً معدوم ہیں۔
2014ء کے برعکس گزرتے سال کے دوران میاں نواز شریف نے سیاسی طور پر اپنے آپ کو مستحکم کیا ہے۔ گزشتہ برس عمران خان کے مسلسل دھرنے اور علامہ طاہرالقادری کی چیخ پکار کے دوران تو ایک مر حلے پر ایسا لگنے لگا تھا کہ میاں صاحب کی چھٹی ہونے والی ہے‘ لیکن جاری سال کے دوران حکمران جماعت نے قریباً تمام ضمنی انتخابات جیتے‘ اور پہلی مرتبہ جماعتی بنیاد پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھی نمایاں کامیابیاں حا صل کی ہیں۔ دوسری طرف عمران خان کی جماعت نے مسلسل سیٹ بیک ہونے کے باوجود لودھراں کی قومی اسمبلی کی نشست اپنے نام کی۔ صدیق بلو چ کے مقابلے میں جہانگیر ترین کی واضح کامیابی نے یہ بات ثابت کی ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف اب بھی نواز لیگ کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ رواں سال کے دوران پنجاب میں پیپلز پارٹی کی وہی چال بے ڈھنگی رہی اور بطور اپوزیشن بھی اسے فرینڈلی اپوزیشن ہی گردانا جا تا رہا۔ کراچی میں رینجرز کے آپریشن کے باوجود شہری سندھ میں ایم کیو ایم کی اجارہ داری اور دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کے سیاسی غلبے کو توڑا نہیں جا سکا۔ ان دونوں جماعتوں نے کراچی کے قومی اسمبلی حلقہ 246 کے ضمنی اورحالیہ بلدیاتی انتخابات میں ثابت کر دیا کہ سندھ کارڈ انہی کے پاس ہے۔ یقینا حکومت اور قانون نا فذ کرنے والے اداروں کے لیے یہ لمحہ فکریہ رہا کہ ان سیاسی جماعتوں کو‘ جو بقول رینجرز بھتہ مافیا اور مجرموں کو پناہ دے رہی ہیں اور کرپشن اور دہشت گردی کی مرتکب ہیں‘ سمندر میں تو نہیں پھینکا جا سکتا۔
2015ء اقتصادی طور پر ملا جلا سال رہا۔ اس دوران وزیر خزانہ اور عملی طور پر نائب وزیر اعظم اسحق ڈار 'ستے خیراں‘ کی نوید سناتے رہے‘ لیکن بندہء مزدور کے اوقات پہلے کی طرح تلخ ہی ہیں۔ میکرو اکنامک کے حوالے سے دیکھا جائے تو یقینا بجٹ کا خسارہ کم ہوا، زرمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا‘ اور افراط زر بھی قابو میں رہا‘ لیکن ناقدین کے مطابق یہ سب کچھ آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے تو ٹھیک ہے‘ لیکن پاکستان کو خوشحالی کی منزل کی طرف نہیں لے جایا جا سکا۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ اسحق ڈار اکاؤنٹنٹ تو اچھے ہیں‘ لیکن ملک کو اقتصادی استحکام اور خوشحالی کی طرف لے جانے کے ویژن سے عاری ہیں۔ سال رواں کے دوران جی ایس پی پلس کے باوجود ہماری درآمدات زوال پذیر رہیں۔ اسی طرح ٹیکس حاصل کرنے کے اہداف بھی پورے نہیں ہو سکے؛ تاہم امسال تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کی وجہ سے ہماری جان بچی رہی۔ جہاں تک شرح نمو کا تعلق ہے، اس میں اضافے کا اندازہ 4.5 فیصد سے زیادہ نہیں۔ جب تک یہ شرح 6.5 فیصد سے تجاوز نہیں کرتی‘ نہ غریبی کم کی جا سکتی ہے اور نہ ہی سوشل سیکٹر پر پیسے خرچ کیے جا سکتے ہیں۔ میاں برادران تو موٹرویز، ہائی ویز، سگنل فری منصوبوں، اورنج ٹرین اور میٹرو بسوں سے آگے سو چتے ہی نہیں۔ یقینا یہ ایک مثبت سوچ ہے لیکن دیکھا جائے تو جائز دفاعی اخراجات، ڈیٹ سروسنگ اور حکمرانوں کے پسندیدہ مشغلوں و منصوبوں پر خرچ کے بعد غریب آ دمی پر خرچ کر نے کے لیے بچتا ہی کیا ہے۔ جب تک تعلیم، علاج معالجہ اور روزگار مہیا نہیں کیا جاتا، ہر سال پیدا ہونے والی نوجوانوں کی کھیپ کی خاصی تعداد کٹھ ملاؤں کے ہی ہتھے چڑھے گی۔
2015ء کے دوران پاکستان کی خارجہ حکمت عملی میں بہتری آئی اور وطن عزیز کے امریکہ اور یورپ سے تعلقات بہتر ہوئے اور اس خطے میں بھی تنہائی کم ہوئی۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے حوالے سے نریندر مودی کا اچانک دورہ لاہور بھی اس حقیقت کا مظہر ہے۔ مزید برآں سی پیک سال 2015ء کا اقتصادی، سیاسی اور سٹر یٹیجک لحاظ سے بہت 'گیم چینجر‘ ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف قریباً پچاس ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری متوقع ہے بلکہ اس کے سٹرٹییجک محرکات بھی پاکستان کے لیے دور رس اہمیت کے حامل ہیں۔
2016ء میں میاں نواز شریف کو اپنی بنیادی حکمت عملی پر کچھ نظرثانی کرنا چاہیے۔ وہ تین مرتبہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں‘ اب انہیں غریب عوام کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ یہ حکومت کی ترجیحات اور موجودہ بیانیہ بدلے بغیر نہیں ہو سکتا۔ زمینی طور پر تو دہشت گردی پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے‘ لیکن یہ زخمی سانپ اب بھی پھنکار رہا ہے۔ اس کو قابو میں لانے کے لیے انتظامی معاملات کے علاوہ سیاسی اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔