"ANC" (space) message & send to 7575

نمبرداری مگرذمہ داری کے ساتھ

لگتا ہے کہ آزاد میڈیا کے حوالے سے حکومت کا پیمانہ صبر چھلکتا جا رہا ہے۔ یکدم عمائدین حکومت کو شدید شکایت لاحق ہوگئی ہے کہ میڈیا غیرذمہ داری سے کام لے رہا ہے اور قوم میں مایوسی پھیلا رہا ہے۔ چند روز قبل ہی صدر مملکت ممنون حسین نے میڈیا کے چیدہ چیدہ ارکان کو پُرتکلف ظہرانے پر مدعو کیا۔ بظاہر ان کا مدعا قائداعظم کی تعلیمات کو اجاگر کرنے کی تلقین کرنا تھا کیونکہ ان دنوں ایوان صدر میں قائد کی نادر تصاویر اور نوادرات کی نمائش ہورہی ہے جو گروپوں میں آنے والے طلبہ و طالبات کو بھی دکھائی جاتی ہے۔ صدرمملکت نے حسب توقع انتہائی شستہ اردو میں خطاب کیا اور مہمانوں کے سوالوںکے خندہ پیشانی سے جوابات دئیے‘ لیکن ان کا مرکزی خیال یہی تھا کہ موجودہ حکومت بہت اچھے کام کر رہی ہے اور اس نے ڈھائی برس کی قلیل مدت میں ملک کو استحکام اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کر دیا ہے‘ لہٰذا میڈیا اگر صبر کرے اور مایوسی پھیلانے کے بجائے حکومت کی مثبت باتوں کی تعریف کرے تو قوم کی تقدیر ہی بدل جائے گی ۔لیکن‘ اُن کا کہنا تھا کہ اینکر حضرات اپنے منفی تبصروں اور تجزیوں کے ذریعے قوم کی لٹیا ڈبونے کے درپے ہیں۔
صدر مملکت میڈیا سے اتنے خفا تھے کہ انھوں نے میڈیا پر سنزکو پُر تکلف کھانا کھلانے کے ساتھ ساتھ ان کی موجودگی میں ہی یہ تک کہہ دیا کہ وہ ان ٹاک شوز کو دیکھتے ہی نہیں۔ اسی صبح وزیر منصوبہ بندی و ترقیات محترم احسن اقبال نے بھی ایک تقریب میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی اینکر حضرات ہر شام کو بیٹھ کراپنے پروگرامز میں آئین اور جمہوریت کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان کا دعویٰ تھا کہ ٹیلی ویژن کی نوے فیصد خبریں منفی ہوتی ہیں۔ احسن اقبال صاحب جو نواز شریف حکومت کے ہردور میں خوشحالی کی نوید سناتے ہیں اور ٹونٹی ٹین، اور پھر ویژن ٹونٹی ٹونٹی فائیو میں پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب دکھاتے ہیں ان کے مطابق قتل، آبروریزی، فراڈ جیسے گھناؤنے جرائم امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی ہوتے رہتے ہیں لیکن اگر امریکی میڈیا انہیں اجاگر کرے تو امریکہ دنیا کا بدترین ملک نظر آئے۔ احسن اقبال کا یہ بھی ارشاد تھا کہ بھارت بے گھر لوگوں سے بھرا پڑا ہے لیکن وہاں کا میڈیا ان باتوں کی تشہیرنہیں کرتا۔ نہ جانے صدرممنون حسین اور برادرم احسن اقبال کو نسی دنیا میںبستے ہیں۔ بھارتی میڈیا نے تو وہاں تواتر کے ساتھ ریپ کی وارداتوں اور خواتین کے عدم تحفظ کے بارے میں سیکڑوں سٹوریاں بریک کی ہیں اور پاکستانی میڈیا کے برعکس بھارتی میڈیا سماجی مسائل کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ اسی طرح مغربی میڈیا میں بھی ہر قسم کی خبر ہوتی ہے۔ احسن اقبال صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ان ملکوں میں صدور، وزرائے اعظم اور وزیروں کی لائیو کوریج بھی نہیں ہوتی۔یہ وہ سروس ہے جو ہمارا میڈیا مفت فراہم کرتا ہے۔ میں نے سی پی این ای کے صدر برادرم مجیب الرحمن شامی کی موجودگی میں صدرممنون حسین سے بصدادب عرض کیا کہ میڈیا کا کام ہی منفی باتیں کرنا ہے۔ جب میں ماس کمیونیکیشن میں ایم اے کر رہاتھا تو استاد محترم احمد عزیز ضیاء مرحوم نے مجھے یہ سبق پڑھایا تھا کہ اگر کتا انسان کو کاٹ لے تو یہ کوئی خبر نہیں لیکن اگر انسان کتے کو کاٹ لے تو یہ خبر ہے۔ اسی لیے ہر انہونی بات صحافی کے لیے خبر ہوتی ہے۔ اگر حکومت اچھا کام کر رہی ہو تویقینا یہ اُس کا کام ہے لیکن اگر وہ بُرا کام کر رہی ہے تویہ خبر ہے۔ میں نے یہ بھی عرض کیا کہ ہمارا کام مسائل کی نشاندہی کرنا ہے،حل بتانا ضروری نہیں ہے کیونکہ وزرا کی فوج ظفر موج اور ان کے سامنے کورنش بجا لانے والے بیوروکریٹس کس مرض کی دوا ہیں!اسی روز علی الصبح میری وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات پرویز رشید سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ ملکی و قومی مسائل پر کھل کر بات ہوئی لیکن وزیر موصوف نے پی ٹی وی کی حالت زار کے سوا میڈیا کے رول کے بارے میں مجھ سے کوئی گلہ نہیں کیا۔ تاہم میں نے الیکٹرانک میڈیا کے ریگولیشن کے حوالے سے پیمرا کے کمزور کردار کا ذکر ضرور کیا جس کے جواب میں وزیراطلاعات نے انکشاف کیا کہ پیمرا کو دانت لگائے جارہے ہیں لیکن صدر ممنون حسین اور احسن اقبال کے کورس سے لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالاضرور ہے۔
ماضی کے برعکس موجودہ شریف حکومت نے اب تک میڈیا کی طعن وتشنیع کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا ہے لیکن اب جبکہ پیپلزپارٹی سے ہنی مون کا خاتمہ ہوتا نظر آرہا ہے اور فرینڈلی اپوزیشن اصل اپوزیشن کا روپ دھار رہی ہے تو حکومت کے پسینے چھوٹ رہے ہیں۔ پرائیویٹائزیشن اور ٹرانسپیرنسی کے حوالے سے میڈیا میں تواتر سے سوال اٹھ رہے ہیں۔ شفافیت کے بارے میں میڈیا سے ایک روزہ ڈائیلاگ پر انہیں پی آئی اے، ریلویز، نجکاری ، ٹیلی کمیونیکیشن کے بارے میں آن بورڈ لینا وزارت اطلاعات کا ایک مستحسن قدم تھا ۔اس حوالے سے گزشتہ بدھ کو منعقد کی گئی تقریب کے اختتامی سیشن میں وزیر خزانہ محترم اسحق ڈار نے حکومت کی جملہ فتوحات کے بارے میں بڑی دھواں دھار تقریر کی ۔ ان کا فرمانا تھا کہ ہر وزارت اپنی ویب سائٹ پر سب کچھ ڈال دیتی ہے‘ شفافیت اور کیا ہوتی ہے؟ میں محترم ڈار صاحب سے وقت کی قلت کی بنا پر یہ نہ پوچھ سکا کہ قانون، قواعد و ضوابط کی کھلے عام دھجیاں اڑانے اور اختیارات کے بے دریغ استعمال کوشفافیت کیسے کہاجاسکتا ہے؟حکومت اگر صاف شفاف گورننس کی قائل ہے تواسے کنفلکٹ آف انٹرسٹ اور فریڈم آف انفارمیشن کے قابل عمل قوانین لانے چاہئیں۔ مزید برآں بے لاگ احتساب کے لیے بھی ایسا ادارہ ہونا چاہیے جو سیف الرحمن کے احتساب بیورو کی طرح منتقمانہ اور موجودہ نیب کی طرح بے ڈھنگا نہ ہو۔ لیکن بدقسمتی سے آج تک ایسی باڈی نہیں بن سکی۔ اسی تناظر میں جب ٹاک شوز میں میڈیا حکومت کی کوتاہیوںاوربوالعجبیوںکی نشاندہی کرتا ہے تو وزرا کو اس پر ناراض نہیں ہونا چاہیے بلکہ تنقید کے حوالے سے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ اگر اس وقت تھوڑی بہت شفافیت نظر آرہی ہے تو اس کا کریڈٹ میڈیا کو ہی جاتا ہے۔ 
سیاستدانوں کا بھی عجیب وتیرہ ہے ۔جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو حکومت کی پالیسیوں کی ہتھ چُھٹ کلاس لیتے ہیں جبکہ حکومت میں آکر ان کا مزاج ہی بدل جاتا ہے۔ کسے یاد نہیں کہ مسلم لیگ (ن) جب وفاق میں اپوزیشن میں تھی تو پیپلزپارٹی کی حکومت کی نجکاری پالیسی کی بھرپور مخالفت کرتی تھی حتیٰ کہ میڈیا پر اس دور کی ایک تصویر بھی دکھائی گئی ہے جس میں راجہ ظفرالحق، چوہدری نثار اور اسحق ڈار پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف مظاہرے کی قیادت کر رہے تھے۔ احسن اقبال صاحب کیا یہ بات بھول گئے ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پیپلزپارٹی کے دور میں لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کے طور پر اپنا دفتر مینار پاکستان کے سائے تلے منتقل کر لیا تھا‘وہاں وہ ہاتھ والا پنکھا جھلتے ہوئے فرماتے تھے کہ ان کی حکومت چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کر سکتی ہے۔ آج وہی پارٹی برسراقتدار آکر میڈیا اور اپوزیشن کو سبق پڑھانا چاہتی ہے کہ اقتصادی اور قومی معاملات پر اتفاق رائے پیدا کریں اور مخالفت برائے مخالفت نہ کریں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آزاد میڈیا اپنی حدود سے تجاوز کا وتیرہ اپنا لے، یقینا گنجلک قومی مسائل پر ذمہ داری اور عرق ریزی کے بعد ہی رائے دینی چاہیے ‘لیکن ہو یہ رہا ہے کہ بعض اینکرحضرات برملا حکومت کے خاتمے کی تاریخیںدیتے رہتے ہیں۔وہ کھلم کھلا فوجی مداخلت کی دعوت دیتے ہیں‘اور دوسری طرف سیاستدانوں کو بحیثیت مجموعی ایک کرپٹ طبقہ قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ اقتصادی مسائل اور 
خارجہ امور کا قومی سلامتی سے گہرا تعلق ہے ‘ان کا بھی بنظرغائر مطالعہ کیے بغیر رائے قائم کرلی جاتی ہے۔ یقینا میڈیا سیاسی اپوزیشن نہیں ہے ‘اسے اگر مثبت نہیں تو جائز تنقید ضرور کرنی چاہیے۔ ماضی میں بالخصوص فوجی آمروں کے ادوار میں سیاسی جماعتوں کو یہ شکایت رہتی تھی کہ میڈیا آمرانہ حکومتوں کامرغ دست آموزبنا ہوا ہے اور اب یہ شکایت ہے کہ یہ شتر بے مہار بن چکا ہے۔ اس شکایت کا مد اوا کرنا بھی ہمارا کام ہے ۔ نوائے وقت میں سینئر اداریہ نویس بشیرارشد مرحوم میڈیا کی آزادی کے حوالے سے اکثر اپنے اداریوں میں لکھا کرتے تھے جو ہمیں بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ''نمبرداری مگرذمہ داری کے ساتھ ‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں