"ANC" (space) message & send to 7575

دعووں کی حقیقت.....اللہ کرے!

قول وفعل میں تضا دہماری روزمر ہ زند گی کاوتیرہ بن گیا ہے ۔بالخصوص ہمارے حکمران جو بلند بانگ دعوے کرتے ہیں ان کا اکثر اوقات حقیقت سے بہت کم تعلق ہو تا ہے۔ہمارے سیاسی رہنماؤں اور سابق ادوار میں حکمرانی کرنے والے فوجی جرنیلوں نے اپنے دعووں کے کچھ حصے پربھی عمل کیا ہوتا تو پاکستان میں دودھ کی نہریں تو نہ بہہ رہی ہو تیں لیکن حالات اتنے بد تر نہ ہو تے ۔میاں نواز شریف کو ہی لیجئے ،میں جب ان کی پہلی وزارت عظمیٰ کے دور میں ان کے ہمراہ ڈیو وس گیا تو اس وقت زیو رچ میں ایک سرمایہ کاری کانفرنس ہوئی‘جس سے ان کے اس دورکے وزیر خزانہ سرتاج عزیز نے بھی خطاب کیا، اس کے ایک اجلاس میں‘ جس میںغیر ملکی سرمایہ کار نہ ہونے کے برابر تھے ،یہ بلند بانگ دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان اقتصا دی طور پر ایک ابھرتا ہو اایشین ٹا ئیگر ہے لیکن زمینی حقائق اس بڑ کے بالکل بر عکس تھے۔ آج بھی وطن عزیز اقتصا دی طور پر ایشا ئی شیر تو نہیں، البتہ شیرِ قالین ہی بنا ہوا ہے ۔ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال ہر دور میں تاریخیں دیتے رہتے ہیں ۔انھوں نے ایک بار دعویٰ کیا تھا کہ 2015ء میں پاکستان ترقی کی منزلیں طے کرکے خوشحال ملک بن جائے گا ۔پھر یہ تا ریخ ٹونٹی ٹونٹی کر دی گئی اور اب یہ وزیر صاحب اپنی تقریروں میں ٹو نٹی ٹونٹی فائیوکا ورد کرتے رہتے ہیں ۔میاں نواز شریف نے ڈیو وس سے جنیواروانگی کے وقت اس بات پر اظہا ر طمانیت کیا کہ دنیا میں پاکستان کے بارے میں اچھی رائے قائم ہو چکی ہے۔ مزید برآں انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ پاکستان کو قائد اعظمؒ کے افکار کے مطابق سینچ رہے ہیں۔ یہاں خواتین کو آزادی حا صل ہے ،پارلیمنٹ میں ان کی کثیر تعداد مو جود ہے اور ان کو برابری پر لانے کے لیے ہرممکن سعی کی جا رہی ہے۔ان دعوؤں کا حقیقت سے بہت کم تعلق ہے۔وطن عزیز میں میاں صاحب نے اپنی ذاتی چو ائس سے مولانامحمد خان شیرانی کو اسلامی نظریاتی کو نسل کا چیئرمین بنا یا تھا۔ چیئرمین مو صوف اس ملک میں قرون اُولیٰ کا دور واپس لا نا چا ہتے ہیں ۔ حال ہی میںنواز لیگ کی رکن قومی اسمبلی اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن محتر مہ ماروی میمن نے اسلامی نظر یاتی کونسل کی دھمکی کے پیش نظر کم عمری کی شا دی کے خلاف بل ہی واپس لے لیا ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل گھر یلو تشدد کے خلا ف قانون سازی کے راستے میں حا ئل ہے۔ اسی طرح جبری زیا دتی کے کیسز میںڈی این اے ٹیسٹ کی بھی مخا لفت کی ہے ۔غالباً حکومت کی یہ مجبوری ہے کہ کو نسل کے چیئرمین کا تعلق جمعیت علمائے اسلام (ف) سے ہے اور یہ مذ ہبی جما عت حکمران جماعت کی حلیف ہے۔ وطن عزیز کو علامہ اقبالؒ کے افکار اور قائداعظم ؒکی سوچ کے مطابق ڈھالنے کاکام جوئے شیرلانے کے مترادف ہے اس کے لیے حکمران جما عت کواپنی صفوں میں ایک نئی سوچ پید ا کرنا ہو گی جس کی وہ تا حال اہل نہیں لگتی۔ میاں صاحب اور ان کے حواریوں کا وژن تو مو ٹر ویز، ہائی ویز ،میگا پا ور پراجیکٹس اور میٹرو ٹرینوں سے آگے نہیں بڑھتا ،چین کے ساتھ دوستی کی دہا ئی دی جا تی ہے لیکن اس بات کا ادراک نہیں کیا جا تا کہ چین نے اتنی ترقی محض زبانی جمع خرچ سے نہیں کی بلکہ کام بھی کیا ہے ۔ 
آ ج کل دہشت گردی کے خلا ف جنگ کرنے اور بلا کم وکا ست ہر قماش کے دہشت گرد کو کیفر کردار تک پہنچانے کی دن رات دہا ئی دی جا تی ہے لیکن کیا ہماری قیا دت سینے پر ہا تھ رکھ کر یہ کہہ سکتی ہے کہ ہم اس سلسلے میں ابھی تک مصلحتوں کا شکا ر نہیں ہیں؟ ۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت جن دہشت گردوں اور جہا دی تنظیمو ں پر پابند ی لگی ہوئی ہے کیا ان کی فنڈ نگ کو کنٹرول کرنے کے لیے منا سب اقداما ت کئے گئے ہیں اور کیا یہ تنظیمیں مختلف نئے ناموں کے ساتھ اب بھی کھلے عام کا م نہیں کررہیں؟۔کیا عملی طور پر ہم نے 'گڈ اینڈ بیڈ‘ طالبان میں تفریق کرنا ختم کر دیا ہے؟۔ دراصل ہمارے دعوؤں اور حقیقی عملدرآمد کے درمیان گہری خلیج کو ئی نئی نہیں۔ یہاں پر طالع آزمائوںنے سیاست دانوں کی کرپشن ختم کرنے کے نام پر جمہوری حکومتوں کو گھر بھیجا اور پھر انہی نام نہا د کرپٹ سیاستدانوں کی مد د سے اپنے اقتدار کو دوام بخشا ۔ایوب خان کی کنو نشن لیگ یا جنرل مشرف کی( ق) لیگ نے اسی سوچ کی کو کھ سے جنم لیا ۔ جنرل ضیا الحق کامعاملہ ذرا مختلف تھا ۔ انھوں نے اسلام کے نام پر اس ملک پر گیا رہ سال حکمرانی کی اور اس دوران اسلام کی تعلیما ت کے بالکل بر عکس ملک کی اخلا قی اور سماجی اقدار کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ضیا ء الحق کی آ مریت ایک نظر یا تی آ مریت تھی ۔موصوف کا دعویٰ تھا کہ اسلام میں سیا سی جما عتوں کی کو ئی گنجائش نہیں ہے۔ انھوں نے خود کو امیر المومنین قرار دینے کے لیے ایک جھوٹا ریفر نڈم بھی کر ایا ۔جس میں یہ سوال پوچھا گیا کہ اگر آپ اس ملک میں اسلام کا نفاذ چاہتے میں تو ضیا ء الحق کو صدر چن لیں ۔عمران خان ہر وقت انتخابات میں دھا ندلی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ شاید انھیں ضیا ء الحق کا جعلی ریفر نڈم جس میں بعض علا قوں میں سو فیصد سے بھی زیا دہ ووٹ پڑا ،یا د نہیں ہو گا۔ضیا ء الحق نے ملک کو اسلام کاقلعہ بنا تے بناتے مذہب کے نام پر دہشت گردی کا سب سے بڑا اڈا بنا دیا۔ کلا شنکو ف کلچر،ہیر وئن کلچراور غیر جما عتی سیا ست کے نام پر کرپشن ،موصوف کی دین ہے۔ کہنے کوتو وہ بڑے پاکباز اور راست با ز مسلمان تھے اوراس حوالے سے وہ 1973ء کے آ ئین میں کچھ ایسی شقیں شامل کر گئے جو اب بھی گلے کا طوق بنی ہو ئی ہیں ۔
جہاں تک پرویز مشرف کا تعلق ہے ان کا قول و فعل کا تضاد بعض معاملا ت میںتو جنرل ضیا ء الحق سے بھی چار قد م آ گے تھا ۔ اگرچہ ضیا ء الحق نے نفاذ اسلا م کے نام پر ہر قسم کی بے اصولی روا رکھی لیکن سب کو معلوم تھا کہ وہ اسلامی سوچ کے حا مل ہیں۔ پرویز مشرف خو د کو ایک لبرل جرنیل کے طور پر پیش کرتے تھے۔ ایک ہا تھ میں وسکی کا گلا س اور بغل میں پالتو کتا ان کا طرہ امتیا ز تھا ،وہ میانہ رو روشن خیالی) (Enlightened Moderationکا ورد کرتے نہیں تھکتے تھے لیکن کا رگل سے لے کر اندرون ملک تک جہا د ی قوتوں کے بارے میں ان کی پالیسی ضیا ء الحق سے مختلف نہیں تھی ۔اسی طرح ضیا ء الحق کے دور میں بنا ئے گئے سکیو رٹی پیراڈائم کو انھوں نے نہ صرف قائم ودائم رکھا بلکہ نا ئن الیون کے بعد اسے مزید فروغ دیا ۔ اس طرح مشرف دور میں پاکستان نے ڈالر تو خو ب اینٹھے لیکن وطن عزیزکو دہشت گردوں کی آما جگا ہ بنا دیاگیا۔
نواز شریف کے علا وہ ہمارے دیگرسیا سی حکمرانوں نے بھی اس دو عملی کو بر قرار رکھا ۔ یقیناپی پی پی کے بانی ذوالفقار علی بھٹورو ٹی کپڑا اور مکان کے نام پر ملک میں سما جی و سیا سی انقلا ب لا ئے لیکن عوام کی حکمرانی کے نام پر آنے والی یہ حکومت اور بعدمیں اقتدار حاصل کرنے والے دوسرے جانشین تمام تر دعووں کے باوجود عوام کی بہتری کے لیے کو ئی قابل ذکر کام نہ کر سکے۔ تحریک انصاف کے سربرا ہ عمران خان بھی اصول پسندی اورکرپشن سے پاک معا شرے کا دم بھرتے رہتے ہیں لیکن انھوں نے بھی اپنے اردگرد مال دار طبقے ،جا گیرداروں اور سیا سی مسافروں کی کھیپ اکٹھی کر رکھی ہے۔ سو چنے کی بات ہے کہ ان لو گوں کے ہوتے ہو ئے تبد یلی لانے کا پیا مبر کیا تبدیلی لائے گا۔ 
میاں نواز شریف کا تعلق بھی باقیا ت ضیا ء سے جوڑا جا تا ہے، لیکن اب اکثر معاملا ت پر ان کے بیانات ضیا ء الحق کی سوچ کی یکسر نفی کرتے ہیں۔ انھیں خود کو لبرل کہلا نے سے چڑ نہیں ہے،یہ اچھی بات ہے لیکن وقت آ گیا ہے کہ انہیں اپنے دعووں اور اعلانات پر عمل درآمد کرنے کی بھی تو فیق ہو، اللہ کرے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں