پاکستان کی سیاسی تاریخ بتا تی ہے کہ ماضی میں حزب اختلا ف ‘حکومت کو گرانے کے لیے کو ئی بھی حربہ آزمانے سے گریز نہیںکرتی تھی۔ 90ء کی دہائی میںحکومت کا وتیرہ اپوزیشن کو دیوارسے لگا نا اور اپوزیشن کاکام حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجانا تھا۔خواہ اس کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے ساز با ز کر کے را ہ بنا لی جائے یا آ رٹیکل 58ٹوبی سے لیس صدر کو ساتھ ملا لیا جائے، اسی ماحول میںجنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں نواز شریف کے اقتدار پر شب خون مارا ۔اس وقت میاں صاحب بھا ری مینڈ یٹ کے نشے سے سر شار تما م اداروں پر غلبہ حا صل کرنے کی سعی لاحا صل کر رہے تھے ۔ جب فوج نے مسلم لیگ (ن) کا تختہ الٹا توبے نظیر بھٹو اور عمران خان سمیت قریبا ًتمام بڑی سیاسی پارٹیوں نے اس غیر آ ئینی اقدام کا خیر مقدم کیا اورمٹھا ئیاں بانٹیںلیکن بعد میں 2006ء میں لندن میں بے نظیر بھٹو اور میا ں نواز شر یف نے میثاق جمہو ریت پر دستخط کیے جس کے بعد ماحول خا صا تبدیل ہو ا۔ بے نظیر کی شہا دت پر میاں نواز شریف ان رہنما ؤں میں سے تھے جوسب سے پہلے ہسپتا ل پہنچے ۔بعدازاں برسراقتدار آ نے والی پیپلز پارٹی کی حکو مت نے جمہو ریت اور جمہو ری اداروں کو تقویت دینے کے لیے اپوزیشن کو دیوار سے لگا نے کی ما ضی کی پا لیسی کے بر عکس بقا ئے باہمی کی حکمت عملی اختیا ر کی اور شاید اسی بنا پر پیپلز پارٹی نے اپنی مدت اقتدار پو ری کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی ۔اس دور میں بھی مسلم لیگ (ن) نے بطور اپوزیشن پیپلز پارٹی کو بعض معاملات جن میں بجلی کا بحران ،کرپشن اور میمو گیٹ سکینڈل شامل ہیں، خو ب رگیدا جبکہ پیپلزپارٹی نے بھی اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں پنجاب میں گورنر راج نا فذ کیا ۔ لیکن ان تمام تر قباحتوں کے باوجود فو ج کو اقتدار میں واپس لا نے کی ترغیب دینے کی کسی کو جرأت نہیں ہو ئی اوراپوزیشن اور حکومت کے درمیان ایک ورکنگ ریلیشن شپ قا ئم رہی ۔ آصف علی زرداری کا خود صدر مملکت بن جا نا ترپ کا پتہ تھا، اس طرح انہوں نے ایوان صدر کا جو ماضی میں فو جی قیا دت سے مل کر محلاتی سازشوں کی آ ما جگا ہ بنا رہتا تھا ‘ راستہ بند کر دیا ۔
میاں نواز شریف نے اپنے موجو دہ دور اقتدار میں بھی بقا ئے با ہمی کی پالیسیوں کو مجمو عی طور پر برقرار رکھنے کی کو شش کی ہے ۔لیکن گز شتہ برس کراچی آ پریشن کے دوران ہی آصف علی زرداری کی دوبا رہ خو د ساختہ جلا وطنی،ایان علی اور اس کے بعد ان کے دست راست ڈا کٹر عاصم حسین کی گرفتاری کے بعد اس بقا ئے با ہمی کی پالیسی میں دراڑیں نظر آنے لگی ہیں ۔پیپلز پارٹی جو عمران خان کے دھرنے کے دوران پارلیمنٹ کے مشتر کہ اجلاس میں حکومت کی بی ٹیم نظر آنے لگی تھی اب اس کے لہجے میںنما یا ں تلخی آگئی ہے ۔ زرداری صاحب کا گلہ کسی حد تک بجا ہے کہ جب دھرنے کے دوران میاں نواز شریف کے اقتدار کا سنگھا سن ڈول گیاتو ان کے مشورے پر ہی پارلیمنٹ کا مشتر کہ اجلاس بلا یا گیا ۔جس کے نتیجے میں عمران خان اور ان کی پشت پر موجو د امپائرز کو واضح پیغام بھیجا گیا کہ جسد سیا ست میں مجمو عی طور پر اس بات پر اتفاق رائے پایا جا تا ہے کہ کسی قسم کی ماورائے آئین مداخلت نا قابل قبول ہو گی اور دھاندلی کے تمام تر الزامات کے باوجو د منتخب حکومت کو اپنی مدت پو ری کرنے کا مو قع ملنا چاہیے لیکن یہاں بھی چوہدری نثا ر علی خان نے ہی کباب میں ہڈی بننے کی کوشش کی اور اپنی توپوں کا رخ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن کی طرف کر دیا ۔ یہ سارا ڈرامہ میاں نواز شریف کی موجو دگی میں ہو ا۔ اعتزاز احسن نے بھی چو ہدری نثا ر کے رکیک حملوں کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہو ئے ان کو''مکی مائوس‘‘ کے لقب سے نوازا تھا ۔اب وزیر داخلہ چوہدری نثا ر علی خان نے قومی اسمبلی میں اپو زیشن لیڈر خو رشید شاہ کے خلاف محاذ کھول دیا ہے ۔ اپوزیشن کو تو ما حول خراب کرنا سوٹ کرتا ہے لیکن برسر اقتدار جما عت کو نہیں۔ایسے لگتا ہے کہ چکری کے چودھری صاحب بز عم خود سیاست میںبھی اپنی چو دھراہٹ قائم کرنا چاہتے ہیں ،مو صوف واضح طور پر شدید قسم کی نر گسیت کا شکا ر ہیں اور ان کی انااتنی زیادہ ہے کہ کسی قسم کی نکتہ چینی ان کی برداشت سے با ہر ہو تی ہے ۔چو ہدری نثا ر علی خان کا یہ رویہ نیا نہیں ہے ۔وہ کئی ماہ میاں نواز شریف سے بھی روٹھے رہے اور وزیر دفا ع خو اجہ آ صف سے تو سالہا سال سے ان کی بول چال بند ہے‘ البتہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاںشہباز شریف کے‘ جن کے ذاتی دوستوں کی فہرست انتہا ئی مختصر ہے‘ یاران غا ر میں شما ر ہو تے ہیں۔ وہ اس امر کے باوجو د کہ نثا ر علی خان مدت سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں ہر مر حلے پر اپنے دوست کو بیل آؤٹ کر لیتے ہیں ورنہ نواز شریف کے دربار میں جہا ں تمام وزراء اور مشیر مبارک سلامت کاورد کرتے رہتے ہیں بھلاچو ہدری نثا ر علی خان جن میں اور خرابیاں تو ہوں لیکن خو شامدسے گریز کرتے ہوں،کیسے پنپ سکتے ہیں لیکن اب میاں نواز شریف کے ہاتھ بھی کچھ بندھے ہو ئے لگتے ہیں ۔
کراچی میں رینجرز کی تو پوں کارخ ایم کیو ایم سے زیا دہ پیپلز پارٹی کی طرف ہے ۔پہلے جو کام برسراقتدار جما عتیں اپوزیشن کے خلاف کرتی تھیں وہ کسی حد تک رینجرز کر نے کی کوشش کر رہی ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین قریبا ًپانچ ماہ سے کسی نہ کسی ریمانڈ پرہیں ۔کبھی بتا یا جا تا ہے کہ وہ دہشت گرد ہیں ‘کبھی کہاجا تاہے کہ وہ دہشت گردوں کے پشت پنا ہ، سہولت کار اور فنا نسرہیں ؛نیز کبھی ان کے انکشافات پرمبنی ویڈیو کا تذکرہ بھی میڈ یا کے ذریعے کیا جا تا ہے ۔لیکن تا حال ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف باقاعدہ فرد جرم عائد نہیں ہو سکی۔اسی بنا پر اس سارے معاملے میں انتقا می کارروائی کی بو آ تی ہے ۔اب کراچی میں تازہ ترپ کاپتہ عزیر بلو چ کی گرفتا ری ظا ہر کر کے پھینکا گیا ہے ۔ دیکھئے عزیر بلوچ زرداری صاحب اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے خلاف کیاکیا گل کھلاتے ہیںاور اسٹیبلشمنٹ اسے کیسے کھیلتی ہے ۔ظا ہر ہے ان تمام معاملا ت میں میاں نواز شریف کے پاس اس کے سوا کو ئی چارہ نہیں کہ وہ مٹی کے ما دھو بنے رہیں۔ بعض لو گو ں کا خیال ہے کہ چو ہدری نثا ر علی خان سے خو رشید شاہ کی ''چھترول‘‘انہوںنے خو د ہی کروائی ہے جو انہوںنے اپنی مخصوص میلان طبع کے عین مطابق کچھ زیادہ ہی کر دی ہے ۔میاں نواز شریف کے مشیر انہیں میڈیا کے تند وتیزسوالوں سے دور ہی رکھتے ہیں او ر میاں نواز شریف بھی میڈ یا سے دور رہنے یا محض اپنے چند منظور نظر رپو رٹروں پر ہی اکتفا کرتے ہیں ۔پارلیمنٹ جوان کے اقتدار کامنبع ہے اس میں وہ شاذ ہی قد م رنجہ فرماتے ہیں ۔ خو رشید شاہ کا کہنا ہے کہ وہ پا رلیمنٹ میں میاں نواز شریف کی مو جو دگی میں ہی نثا ر علی خان کے الزا مات کا جواب دیں گے ۔ لگتا ہے کہ میاں صاحب ا س کی نو بت ہی نہیں آنے دیں گے۔
وزیر داخلہ نے نیشنل ایکشن پلان پر اپوزیشن کی تنقید کا بھی سخت برُا منایا ہے، ان کے مطابق نیشنل ایکشن پلان پر من وعن عمل ہورہا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ نا قدین نے نیشنل ایکشن پلان کو پڑ ھا ہی نہیں لیکن لگتا ہے کہ وزیر داخلہ نے بھی اس کا ٹھیک طرح مطا لعہ نہیں کیا ورنہ وہ سینے پر ہا تھ رکھ کر یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ اس پلان کے بنیادی نکا ت پر بھی عمل ہو رہا ہے ، دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے بننے والا ادارہ نیکٹا فنڈز کی کمی اور انتظامی معاملا ت پر کھینچا تانی کی وجہ سے ابھی تک عضو معطل ہی بنا ہوا ہے۔دہشت گرد تنظیمیں جن کی فنڈنگ اور کارروائیوں کو ہر حالت میں ختم کرنا تھا ‘دوسر ے ناموں کے ساتھ اب بھی کام کر رہی ہیں ۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ لال مسجد کے خطیب بھی ‘جن کے بارے میں چوہدری نثا ر علی خان نے غلط بیانی کی‘ دارالحکومت میں دند ناتے پھر رہے ہیں اور الزام تراشی سے بھر پو ر ویڈیوز جا ری کررہے ہیں ۔جہاں تک پلان کے تحت فرقہ وارانہ تنظیموں کو نکیل ڈالناتھی،ان کی بھی بلارکاوٹ کارروائیاں جا ری ہیں۔ یقینا دہشت گردی کی کارروائیوں میں نما یاں کمی ہو ئی ہے لیکن جب تک باچا خان یو نیو رسٹی جیسے واقعات ہو تے رہیں گے یہ دعویٰ کرنا کہ '' ہم نے دہشت گردی کے خلا ف جنگ جیت لی ہے لیکن اپوزیشن اور میڈیا کی نکتہ چینی کی بنا پرنفسیا تی محا ذ پر ہم جنگ ہا ر رہے ہیں‘‘ ایک سفید جھوٹ ہی کہلائے گا۔