جیسے ہی کو ئی سیا سی حکومت تشکیل پا تی ہے اس کی چھٹی ہو نے کی افواہیں بھی ساتھ ہی گردش کرنے لگتی ہیں۔ یہ ''کا ر خیر‘‘میڈیا میں تجزیہ کرنے والے بعض جغادری صحا فی اور کچھ ریٹا ئرڈ افسران خوبصورتی سے سر انجام دیتے ہیں۔ جس تواتر اور تسلسل سے افواہ سازی کی یہ فیکٹر یاں کا م کرتی ہیں اس سے لگتا ہے کہ باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حکومت کو گرانے کا پروگرام زیر عمل ہے، لیکن درحقیقت ہر کو ئی اپنی پسند، نا پسند اور ذاتی خو اہشات کے گھوڑے دوڑارہا ہوتا ہے۔ان خواتین وحضرات کوگویا سازشی تھیو ریاں گھڑنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔ دلچسپ با ت یہ ہے کہ ان تھیوریوں کا زمینی حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے میڈ یا میں کھلم کھلا بحثیں ہو تی ہیں اور اگر کو ئی دور کی کو ڑیا ں لانے والوں کے مفروضوں سے اختلا ف کر ے تو ایسے صحا فی اور تجز یہ کار کو حکومت کے چمچے اور تنخو اہ دار کے القابات سے نوازا جا تا ہے۔ وہ سیاستدان جو عام انتخابات کے ذریعے برسراقتدار آنے سے مایوس ہو چکے ہوں یا آ ئندہ انتخابات تک صبر کرنے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں وہ بھی چور دروازے کے ذریعے حکو مت کی چھٹی ہو نے کے مفروضو ں کو ہوا دیتے رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور اس پر ایک مخصوص سیاسی سوچ کے حامل لوگ جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔
میاں نواز شریف اپنے دور اقتدارکی نصف سے زیا دہ مدت گزار چکے ہیں ۔ اس دوران یہ سنتے سنتے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت آ ج گئی، کل گئی، کان پک چکے ہیں۔ ایک مرحلے پر توواقعی لگتا تھا کہ میاں صاحب کی چھٹی ہو نے والی ہے۔ اگست 2014ء میں عمران خان کے دھرنے اور طاہر القادری کے راست اقدام نے میاں صاحب کے چل چلاؤ کی صورتحال پید ا کر دی تھی۔ اس وقت جنرل ظہیرالاسلام ڈی جی، آ ئی ایس آئی تھے۔ معروف صحافی اور اینکرحامد میر پر کچھ ہی عرصہ پہلے نامعلوم افراد حملہ کر چکے تھے۔ عمران خان اور طاہر القا دری کھلم کھلا یہ شیخی بگھارتے تھے کہ انھیں مقتدر حلقوں کی پشت پنا ہی حا صل ہے۔ چوہدری برادران طاہر القا دری کی دامے درمے سخنے مدد کر رہے تھے۔ مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ اگر چند روز تک طاہر القادری کو''صحیح جگہ‘‘ سے پیغام نہیں آتا تھا تو وہ دھمکی دیتے تھے کہ میں اپنا ساما ن سمیٹ کر دھرنا ختم کر دونگا اور چوہدری برادران ان کو بہلا پھسلا کر واپس لاتے۔ ایک مرحلے پر جب طاہر القا دری نے پارلیمنٹ پر کفن پوش یلغار کا اعلان کیا تو انھوں نے حکم دیا کہ اٹھا رہ ہزار کفن 24گھنٹے کے اندر تیار کرائے جائیں۔ اس بات کو ممکن بنا نے کے لیے ملک بھر سے کفن تیار کر کے اسلا م آ با د پہنچائے گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ طاہر القا دری کا منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا اور محض چند افراد کے سوا جو پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر چڑ ھائی کر نے میں کا میا ب ہو ئے، یہ کفن گو رکنوں کے ہی کام آئے۔ عمران خان کی جنرل را حیل شر یف سے ملا قات بھی کرا ئی گئی۔ سنا ہے کہ دھرنے کی بظاہر کامیابی کے نشے سے سرشار خان صاحب نے قدرے بے تکلفی سے کہا کہ ''جنرل راحیل آپ نواز شریف کو فار غ کر دو‘‘ لیکن جنرل صاحب نے یہ کہہ کرکہ فوج کو سیاست میں ملوث نہیں کر سکتے، اس مطالبے پر صاد کہنے سے انکا ر کر دیا؛ تاہم دھاندلی کے بارے میں ان کے مطالبات کی تحقیقا ت کرنے کی سفارش کر نے کا وعدہ کیا۔ان سے مایوس ہو کر خان صاحب ہر روز کنٹینر پر چڑھ کر تیسرے امپا ئر کو پکا رتے رہے لیکن وہ نہ آیا اور اکتوبر میں آئی ایس آ ئی کے سربرا ہ کی تبد یلی اور جنرل راحیل شر یف کے مستحکم ہو نے کے بعد میاں صاحب کی چھٹی کی افواہیں بھی دم تو ڑ گئیں۔ دھرنے سے قبل اس منصوبے میں شریک میڈیا کے بعض دوستوں نے سرگوشی کے انداز میں مجھ سے کہا کہ اچکن سلوا رکھیں، اس مر تبہ تین ماہ نہیں بلکہ چند سالوں کا معا ملہ ہے۔ لیکن حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلے مر جھا گئے۔
بظا ہر لگتا ہے کہ سول اور خا کی شریف ایک ہی صفحے پر ہیں لیکن یاران کہن بھلا کہاں باز آ نے والے ہیں۔ چند ماہ قبل جب کور کمانڈرز نے نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل درآمد نہ ہو نے کے بارے میں آئی ایس پی آر کے ذریعے ایک بیان جاری کیا تو افواہ ساز فیکٹریوں نے پھر دن رات کام شروع کر دیا کہ بس اب میاں نواز شریف کو کان سے پکڑ کر نکال دیا جا ئے گا۔ یہ درست ہے کہ اس حوالے سے فوج اور حکومت کی ترجیحات میں اب بھی فرق پایا جاتا ہے لیکن یہ کہنا کہ افواج پاکستان میاں نواز شریف کی چھٹی کرانے کے درپے ہیں، یہ حقائق پر مبنی نہیں ہے۔ آ ج کل افواہ سازوں نے اپنی چھریاں پھرتیز کر لی ہیں۔ نئی تھیوری کے مطابق یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملا زمت میںتو سیع کی پیشکشوں کے بارے میں افواہیں شریف کیمپ نے ہی اڑا ئیں تاکہ انہیں متنازعہ بنایا جا سکے ؛ تاہم جنرل صاحب نے یہ ٹویٹ کروا کر کہ '' وہ ایکسٹینشن پر یقین نہیں رکھتے، وقت پر ریٹائر ہو جائیں گے، پاک فوج عظیم ادارہ ہے، ہر قیمت پر ملک کو محفوظ بنا یا جا ئے گا‘‘ اس غبارے سے ہو انکال دی۔
تجزیہ کار میاں نواز شریف کے خاندان کے کاروباری معاملات اور بھارت سے پینگیں بڑھانے پر فو ج کی نار اضی کا بھی ذکر کرتے رہتے ہیں اور یہ دہا ئی دے رہے ہیں کہ سندھ بالخصوص کراچی میں پیپلزپارٹی کے خلاف رینجرز کی کا رروائیوں،ڈا کٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد پنجاب کی باری آ نے والی ہے، جلد ہی پنجاب کے بعض سیاستدانوں جن میں راناثناء اللہ اور رانا مشہود کانام لیا جاتا ہے کو دھر لیا جائے گا۔ اس بات کو بھی بڑی ہوا دی گئی کہ نریندر مودی کے دورہ لاہور کے بارے میں فوجی قیادت کو بے خبر رکھا گیا اور اب نواز شریف کی خیر نہیں ہے، لیکن بعد ازاں منظر عام پر آ نے والے حقائق نے یہ بات واضح کر دی کہ میاں صاحب نے اس ضمن میں اعلیٰ فوجی قیادت کو آن بورڈ لے لیا تھا۔ ایک اور مفروضہ جو بڑے طمطراق سے پیش کیا جا رہا ہے کہ چوہدری نثار علی خان کی اچانک لیڈر آف اپوزیشن خورشید شاہ پر چڑھائی کا اصل مقصد اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بقائے باہمی کے رشتے کوسبو تاژ کرنا ہے، لگتا ہے کہ شاہ صاحب یہ ردعمل ظاہر کر کے کہ ''میاں نواز شریف آستین کے سانپوں سے بچیں‘‘ خود بھی اس تھیوری کا شکار ہو گئے ہیں ۔سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے بھی قومی حکومت کی تشکیل کی بات کی ہے جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بلاول سمیت پارٹی کے بعض رہنماؤں کو امریکہ بلا لیا ہے۔ عزیر بلو چ کی گرفتاری جو کئی ماہ پہلے ہوئی تھی کے اچانک اعلان سے وہ لوگ جن کے نزدیک پیپلز پارٹی کا تیا پانچہ کرنا ایمان کا درجہ رکھتا ہے، نئی امیدیں لگا کر بیٹھ گئے ہیں کہ اب زرداری اینڈ کمپنی کی باری آ گئی ہے۔ اس صورتحال میں سندھ کی پیپلز پا رٹی بھی کچھ سہمی ہو ئی ہے۔ ذوالفقار مرزا کے سوا وہ تمام رہنما اور صحافی جو اس گینگسٹر کے ساتھ دعوتیں اڑاتے تھے اب کہتے ہیں ''ہمارا اس سے تعلق واسطہ ہی نہیں تھا‘‘۔ عمران خان اور چوہدری نثار علی خان جس بقائے باہمی کو مک مکا کہتے ہیں وہ اب دم توڑرہی ہے۔ اس تمام تر صورتحال میںمیاں نواز شریف مست ہیں، اگر انہوں نے اپنا انداز حکمرانی نہ بدلا تو جمہو ری نظام واقعی خطر ے میں پڑ سکتا ہے۔ سندھ حکومت کے ساتھ چودھری نثار علی خان کے رابطوں کے بعد رینجرز آپریشن کی مدت میں توسیع سے کچھ امید بندھی ہے اور میاں صاحب نے بھی اپنے وزیر داخلہ کو'' ڈوز‘‘ دی ہے کہ ٹھنڈی کر کے کھائیں۔