خاکی اور مفتی شریف ایک صفحے پر ہوں نہ ہوں، ایک جیپ پر ضرور سوار ہیں۔ بلوچستان میں سی پیک کے تحت بننے والی شاہراہ پر جیپ میں، جسے آرمی چیف جنرل راحیل شریف چلا رہے تھے، میاں نواز شریف ان کے ساتھ والی نشست پربراجمان ہیں ۔ یہ تصویر قریباًتمام اخبارات نے صفحہ اول پر شائع کی، نیز نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پر بھی اس تصویر کا کافی چرچا ہے ۔
اس تصویر سے یقیناً ان لوگوں کو تکلیف پہنچی ہوگی جو دن رات یہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ ملک میں سیاست کا بستر گول کر کے فوج اقتدار پر قبضہ کر لے ۔ یہ لوگ میاں نواز شریف کے گزشتہ دور اقتدار کے آخری ایام کو یاد کر کے دل کو بہلا رہے ہیں، جب محسوس ہوتا تھاکہ نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف دونوں شخصیات ایک ہی صفحے پر ہیں، لیکن درون خانہ صورتحال یکسر مختلف تھی اور سیاسی و فوجی سربراہوں کے درمیان اندرونی چپقلش کا بہت سے باخبر لوگوں کو علم بھی تھا۔
گزشتہ دنوںمیرے عزیز دوست سینیٹر مشاہد حسین سید نے ٹیلی ویژن پر میرے پروگرام میں ایک انٹرویو میں ستمبر1999ء میں مشرف اور نواز شریف کے دورہ سکردوکی روداد سنائی۔ میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف وہاں فوجیوں سے ملنے کے لیے تشریف لے گئے تھے ۔اس موقع پر نواز شریف نے فوجی جوانوں سے خطاب کیا جس کی مشرف نے خوب داد دی اور فوجیوں سے 'نواز شریف زندہ باد‘کے نعرے بھی لگوائے ۔ مشاہد حسین نے بتایا کہ مشرف نے نواز شریف کو کشتی میں جھیل کی سیر کرائی اور وہ خود اس کشتی کو چلا رہے تھے۔ اس رومانوی اور دلفریب ماحول میں دونوں پرانے گانے بھی گاتے رہے ۔ وہاں ہوٹل میں قیام کے دوران مشرف نے حال ہی میں منگوائی گئی اپنی جدید ترین GLOCK پستول بھی میاں صاحب کو دکھائی اور اس کو لہراتے ہوئے تصویر بنوائی جو اخبارات میں بھی شائع ہوئی ۔ لیکن بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ مشرف اسی پستول کو میاں صاحب کے خلاف استعمال کرنے کا پروگرام بنا رہے تھے ۔ مشاہد صاحب جو وزیر اطلاعات تھے اور اپنے تکیہ کلام کے مطابق اس وقت خوب ''کڑا کے‘‘نکال رہے تھے ، 12 اکتوبر 1999ء کو مشرف کے شب خون مارنے پر پنجاب ہائوس راولپنڈی میں قید تنہائی میں ڈال دئیے گئے جبکہ میاں نواز شریف کواٹک قلعہ بھیج دیا گیا۔ یہ الگ داستان ہے کہ اس وقت غلط طور پر مشاہد حسین پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ بعض امریکی اخبارات میں پاکستانی فوج کے بارے میں ''روگ آرمی‘‘کا جواشتہار شائع ہواتھا وہ انہی کی کارستانی تھی۔ 12 اکتوبر 1999 ء کے بعد پہلی عید آئی تو مشاہد صاحب کوبھی آسمان دیکھنے کا اس وقت موقع ملا جب انہیں عید کی نماز کے لیے باہر نکالا گیا۔ شاہ صاحب یہ خبر سن کر حیران و ششدر رہ گئے کہ میاں نواز شریف تو مع اہل و عیال 10 دسمبر 2000ء کو جدہ پدھار چکے ہیں ۔ شاید شاہ صاحب نے سوچا ہوگا کہ ''مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے ‘‘۔
اس لمبی چوڑی تمہید باندھنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اب بھی نواز شریف کو اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہوگا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اتنے برسوں میں بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے ۔ نہ میاں نواز شریف ، وہ نواز شریف ہیں جو اپنے پچھلے دور میں بھاری مینڈیٹ کے نشے سے سرشار ہو کر شریعت کے نام پر فوج سمیت ہر ادارے پر غلبہ حاصل کرنے کے شوق میں مبتلا تھے اور نہ ہی جنرل راحیل شریف ، پرویز مشرف ہیں۔ وہ ایک سیدھے سادے پروفیشنل سولجر ہیں جو پوری یکسوئی اورعزم سے اپنا کام کر رہے ہیں اور فوجی حکومت کے رسیا سیاستدانوں، تجزیہ نگاروں اور اینکروں کو مایوس کرتے رہیں گے ۔ اس لحاظ سے جنرل راحیل شریف بھی خوش قسمت ہیں جن کے ساتھ میاں نواز شریف نے محاذ آرائی کی کیفیت پیدا نہیں کی ۔ بہت سے ناقدین کہتے ہیں کہ میاں صاحب نے سعودی عرب اور لندن میں اپنی جلاوطنی کے دوران کوئی سبق نہیں سیکھا، لیکن میری رائے اس بارے میں مختلف ہے ۔ ظاہر ہے کہ انسان یکسر بدل تو نہیں سکتا لیکن میاں صاحب میں یہ تبدیلی ضرور آئی ہے کہ وہ اب بلاوجہ پنگا نہیں لیتے ۔ انہوں نے یہ بات گھول کر پی لی ہے کہ فوجی قیادت کے ساتھ تال میل کے بغیر پاکستان میں حکومت کرنا ممکن نہیں ہے ۔ جنرل راحیل شریف علامتی طور پر بھی پاکستان کی جیپ چلا رہے ہیں، لیکن دوسری طرف وہ میاں صاحب کو بھی ا تنی ''سپیس(Space)‘‘ضروردیتے ہیں کہ وہ اپنی مرسڈیز ڈرائیو کر تے رہیں۔ جہاں تک خارجہ پالیسی اور نیشنل سکیورٹی پالیسی کا تعلق ہے فوج کا رویہ قطعاً معذرت خواہانہ نہیں ہے، لیکن مقام شکر ہے کہ ان معاملات پر ''ویٹو ‘‘استعمال کرنے کے بجائے صلاح مشورے اور اتفاق رائے سے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں۔ جس تواتر سے میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف ایک دوسرے سے ملاقاتیں کرتے ہیں، ماضی میں اُس کی مثال نہیں ملتی۔ جنرل صاحب اپنے پیشروئوں کے برعکس اس بات کے قائل ہیں کہ دہشت گردی ایک لحاظ سے بھارت کی دشمنی سے بھی بڑھ کر پاکستان کا سب سے بڑا ناسور ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ فوج مشرقی اور مغربی سرحدوں پر خطرات سے آگاہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس بات کی قائل لگتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ایک طرف رکھ کر بھارت کے سامنے سجدہ سہو کر لیا جائے ۔ غالباً اسی بنا پر میاں نواز شریف کو یہ قدم اٹھانے کی ہمت ہوئی کہ انہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو جاتی عمرہ میں ''جی آیاں نوں‘‘کہا۔
جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے، تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے دلوں میں پایا جانے والا خوف جنرل راحیل شریف کی دو ٹوک پالیسی کی بنا پر ہی ختم ہوا اور اس حوالے سے جو اتفاق رائے پیدا ہوا وہ فوج کی دہشت گردوں کے خلاف بلارُورعایت اور بلا تفریق کا رروائی کرنے کی بنا پر ہی ہوا۔حال ہی میں میاں نواز شریف وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور مشیر قومی سلامتی جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کے ہمراہ آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر تشریف لے گئے، وہاں آرمی چیف ، ڈی جی آئی ایس آئی نے ان کا استقبال کیا۔ یہ قدم انہیں بہت پہلے اٹھانا چاہیے تھا کیونکہ دہشت گردی کے خلاف مربوط کارروائیوں کے لیے بنائی گئی ''نیکٹا‘‘محض ایک کاغذی ادارے سے آگے نہیں بڑھ سکی‘ لہٰذا یہ ضرور ی ہے کہ آئی ایس آئی کو بھرپور انداز سے سیاسی و عسکری حمایت حاصل ہوتاکہ یہ ادارہ اپنا اصل کام کرسکے ۔ اس اجلاس کے بعد جاری ہونے والے آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ دہشت گردوں کا غیر ملکی مدد اور مالی معاونت کے حصول کے علاوہ اندرونی طور پر بھی سہولت کاروں کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے توجنرل راحیل شریف کی طرف سے عہدے کی میعاد میں توسیع لینے سے انکار سے ان کی تکریم میں مزیداضافہ ہوا ہے، لیکن لگتانہیں کہ اس سال نومبر میں ریٹائر ہو کر انہیں گھر جانے دیا جائے گا۔