قطر سے -16 ارب ڈالر کی ایل این جی خریدنے کا معاہدہ یقینا ایک تاریخ ساز موقع ہے، اس سے پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں خاصی حد تک مدد ملے گی۔ معاہدے کے تحت 2031 ء تک سالانہ ایک ارب ڈالر کی ایل این جی آئے گی۔مسئلہ یہ نہیں کہ معاہدہ ہوگیا ، ایسے معاہدے تو ہوتے رہتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جس قیمت پر یہ معاہدہ ہوا ہے ، انتہائی ارزاں ہے۔ قبل ازیں یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ ایل این جی 12 ڈالر فی ''ایم ایم بی ٹی یو‘‘ پر خریدی جا رہی ہے۔اس پر وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی مٹی کا مادھو بنے ہوئے تھے اور میڈیا پر آنے کے باوجود یہ بتانے سے قاصر تھے کہ کس ریٹ پر ایل این جی خریدی جارہی ہے۔ عام خیال یہ بھی تھا کہ احتساب بیورو کے سابق سربراہ اور میاں نواز شریف کے سابق دست راست سیف الرحمن جو قطر میں مقیم اور وہاں کاروبار کرتے ہیں، اس ڈیل کے پیچھے ہیں۔ اس سلسلے میں سوئی ناردرن گیس کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر عارف حمید نے بھی سخت موقف اختیار کیا کہ ایل این جی جس قیمت پر مہیا کی جا رہی ہے اس سے تو یہ ادارہ دیوالیہ ہو جائے گا،جس پر میاں شہباز شریف کے ذریعے موصوف کی چھٹی کرا دی گئی ۔
ایل این جی کو گیس میں بدلنے کے لیے پورٹ قاسم پر نجی شعبے کی طرف سے ایل این جی ٹرمینل لگانے پر لوگوں کو حیرانی ہوئی کہ جہاز لگیں نہ لگیں ، گیس آئے نہ آئے ٹرمینل مالکان کو قریباً دولاکھ پچھتر ہزار ڈالر روزانہ ادا کئے جائیں گے۔ یہ سارے معاملات جس راز داری کے ساتھ کئے گئے اس سے لامحالہ بہت سی غلط فہمیوں نے جنم لیا لیکن وزیراعظم میاں نواز شریف کے دورہ قطر کے دوران ایل این جی معاہدے پر دستخط کے بعد یہ تمام قیاس آرائیاں ، قیاس آرائیاں ہی ثابت ہوئیں۔' جادو وہ جو سرچڑھ کے بولے کے مصداق پاکستان کو انتہائی اچھی شرائط پر سستی ترین ایل این جی مہیا ہو گئی ہے ۔ اس حوالے سے محترم شاہد خاقان عباسی کو کریڈٹ نہ دینا زیادتی ہوگی۔ کبھی ٹائی نہ لگانے والے خاموش طبع عباسی صاحب اپنی ہٹ کے پکے ہیں اور اپنا کام کرتے رہتے ہیں، لیکن ٹھوک بجا کر دوٹوک بات کرتے ہیں۔ قطر میں بھی مختلف میٹنگز میں ایل این جی کے حوالے سے قطر گیس ٹو کمپنی کے ذمہ داران اور قطری حکام سے بھی ان کا یہی رویہ رہا۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں تیل کی قیمتیں کریش کرنے کے ساتھ ساتھ ایل این جی کی قیمت بھی نیچے آگئی ہے۔ تیل کی بین الاقوامی قیمت جسے BRENT بھی کہتے ہیں کی تین ماہ کی اوسط نکال کر اس میں 13 فیصد سے کچھ اضافہ کر کے ایل این جی کی قیمت کا تعین ہوتا ہے۔ اس فارمولہ کے تحت پاکستان کو بہت اچھی ڈیل ملی ہے، جس کے مطابق ایل این جی کی فی ''ایم ایم بی ٹی یو‘‘ قیمت پانچ ڈالر سے بھی کم ہوگی۔ایل این جی کو گیس میں بدلنے کے لیے پورٹ قاسم میں قائم اینگروٹرمینل کی طرز کے پانچ مزید ٹرمینل لگائے جارہے ہیں۔اصل مسئلہ جوں کا توں ہے کہ قطر کمپنی کی طرف سے اگلے ماہ سے ایل این جی کے ہرماہ تین جہاز جب پورٹ قاسم پر اتریں گے تو اس گیس کی اندرون ملک ترسیل کس طرح کی جائے گی۔ ایک طریقہ تو سیدھا سادا ہے کہ اسے سوئی سدرن کے سسٹم میں ڈال دیا جائے اور دوسرایہ کہ اس گیس کی ترسیل کے لیے پائپ لائن بچھائی جائے جو یقینا مہنگا سودا ہوگا۔
میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ وہ اقتصادی ڈپلومیسی کے قائل اور داعی ہیں گویا پاکستان کی اقتصادی ترقی اور تجارت بڑھانے کے لیے خارجہ پالیسی کے اہداف مقرر کئے جائیں، لیکن یہی بات ایران اور بھارت کے علاوہ اندرون ملک بھی منطبق ہونی چاہیے۔ انرجی چاہے پانی سے حاصل کی جائے یا گیس سے پاکستان کی بطور فیڈریشن ترقی کیلئے صوبوںکا تعاون اور وہاں برسراقتدار حکومتوں سے بقائے باہمی کے تعلقات ضروری ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ میاں صاحب اپنے غیر ملکی دوروں میں کسی نہ کسی وزیر اعلیٰ کو ساتھ لے جایا کریں، اس طرح صوبے جو ملکی ترقی میں کلیدی سٹیک ہولڈر زہیں وہ یہ محسوس کریں کہ میاں صاحب کے لیے پنجاب کے سوا جہاں اور بھی ہیں۔ اس بار بھی کوئی حرج نہیں تھا کہ قطر کے دورے میں وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ بھی میاں نواز شریف کے ہمراہ ہوتے۔ اگر شاہ صاحب کو دعوت دی جاتی اور وہ اسے قبول نہ کرتے تو یہ ان کی اپنے صوبے کے مفادات سے روگردانی تصور کی جاتی۔
آج کل پاکستان کے تیار شدہ جے ایف تھنڈر 17 طیارے کا بہت شہرہ ہے۔ یقینا یہ طیارہ جو کہ میراج ری بلڈفیکٹری کامرہ میں تیار کیا جاتا ہے ، پاکستان کے لیے طرہ امتیاز ہے۔ بھارت کئی برس سے اس قسم کے لڑاکا طیارے بنانے میں مگن ہے، اب شنید ہے کہ وہ اگلے برس تک تیار کر لے گا۔ دوحہ میں میاں نواز شریف اور ان کے قطری ہم منصب کو جے ایف تھنڈر 17 کا فضائی مظاہرہ دکھایا گیا، اس کے ساتھ مشاق ٹرینر طیارے کی فضائی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے اس کا مظاہرہ بھی کیا گیا ۔ ائیر چیف مارشل سہیل امان کی موجودگی میں پاکستانی پائلٹوںنے بڑی مہارت سے ان دونوں طیاروں کو اڑایا اور مشکل فضائی کرتب بھی دکھائے۔ باخبر لوگوں کے مطابق پاکستان کے ان طیاروں کا موازنہ ایف 16 طیاروںسے کیا جا سکتا ہے جبکہ اس کی قیمت قریباً نصف ہے ۔ یہ طیارے پاکستانی ائیر فورس میں بھی شامل کئے جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے بھارت کو اس بات کا شدید قلق ہے اور وہ تو امریکہ سے پاکستان کوملنے والے ایف 16 طیاروں کی ڈیل پر بھی سخت چیں بجبیں ہے اور ان طیاروں کی پاکستان کو فراہمی پر خوب واویلا مچا رہا ہے۔ حال ہی میں جب میاں نواز شریف نے سری لنکا کا دورہ کیا تو شنید تھی کہ سری لنکا جے ایف تھنڈر طیارے خریدنا چاہتا ہے اور اس حوالے سے بات چیت بھی چل رہی ہے۔امید ہے کہ بھارت کی طرف سے اس ڈیل کو سبوتاژ کرنے کے لیے سر توڑ کوششوں کے باوجود یہ بیل بھی منڈھے چڑھے گی۔
جہاں تک قطر کا تعلق ہے، وہ گیس اور تیل کی دولت سے مالا مال ایک انتہائی متمول ملک ہے۔ اگر پاکستان اسے یہ طیارے بیچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ یقینا ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ ویسے بھی قطر اور پاکستان کے درمیان تجارت محض تین سو ملین ڈالر ہے لیکن ایل این جی ڈیل کے بعد اس میں ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر سالانہ کا اضافہ ہوجائے گا۔ جے ایف تھنڈر کی ڈیل کی صورت میں قطر کے ساتھ اس نئے لین دین کا توازن پاکستان کے حق میں بہتر ہوجائے گا۔ یہاں یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ جب پاکستان خود اتنے اچھے طیارے بنا رہا ہے تو امریکہ سے اتنی خطیر رقم سے طیارے خریدنے کی کیا ضرورت ہے۔ بات بڑی سادہ ہے کہ ایف 16طیارے جو 70ء کی دہائی سے تیار کئے جارہے ہیں ان میں عصرحاضر کی ضروریات کے مطابق جدید ترین اوینکس آلات لگائے جاتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کے تیار شدہ طیارے ابھی اس لیول تک نہیں پہنچ سکتے۔ میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے طیاروں کا فضائی مظاہرہ دیکھا تو ان کو پاکستانی ہونے پر فخر ہوا اور ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کیا ہی اچھا ہو، میاں صاحب بیروزگاری اور جہالت دور کرنے کے لیے بھی اسی طرح جذباتی ہو جائیں جس طرح وہ موٹرویز، میٹرو بسوں، اورنج ٹرینوں پر ریشہ ختمی ہوتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ نیشنل ایکشن پلان پر موثرعمل درآمد یقینی بنائیں تاکہ دہشت گردوں کی کمین گاہوں کا قلع قمع کر کے ملک کو امن و سکون کا گہوارہ بنایا جا سکے جس سے تیز رفتار ترقی کے راستے کھلیں گے اور پاکستان حقیقی معنوں میں علامہ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کے خوابوں کی تعبیر بن سکے گا۔