وزیر دا خلہ چودھری نثار علی خان فرماتے ہیں کہ حکومت نہ تو نیب سے خوفزدہ ہے اور نہ ہی اس کے پر کاٹے گی۔ گویا چودھری صاحب نے سارا ملبہ بڑی کاروباری شخصیا ت پر ڈالتے ہوئے کہا کہ ان کی شکایت پر ہی وزیر اعظم نے بہاولپور میں نیب کے بارے میں بات کی تھی۔ چودھری صاحب نے اس موقع پر پیپلز پارٹی کو یہ مشورہ دیا کہ اگر سندھ حکومت کو ڈاکٹر عاصم کے حوالے سے تحفظات ہیں تو وہ عدالت جائیں۔ یہ بڑا صائب مشورہ ہے لیکن پھر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کو بھی تو ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ دوسری طرف وزیر اطلاعات پرویز رشید مختلف بات کہہ رہے ہیں، ان کا فرمانا ہے کہ نیب کے پر نہیں کاٹ رہے بلکہ بڑھے ہوئے ناخن تراشیں گے۔ چودھری نثار‘ جن کا شمار ان وزیروں میں ہوتا ہے جو جی ایچ کیو کے قریب سمجھے جاتے ہیں، نیمے دروں نیمے بروں بات کر کے معاملہ رفع دفع کرانے کی کوشش کی ہے۔ اگر واقعی کوئی مسئلہ نہ ہوتا اور محض ملک کے بڑے صنعت کاروں کے ناک پر مکھی بیٹھنے کا معاملہ ہوتا تو خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف کیونکر اپنے برادر اکبر کی تائید میں نیب کی حکمت عملی پر نکتہ چینی کرتے۔ وزارت قانون کے حکام کے اس تردیدی بیان کہ حکومت نیب کے پر کاٹنے کے لیے کوئی کمیشن بنانے کا سوچ رہی ہے، نے موجودہ کنفیوژن میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ یقینا نیب میں سب اچھا نہیں ہے اور حکومت کو مزاحمتی یا احتجاجی ردعمل دینے کے بجائے نیب کے کردار پر غور کرنا چاہیے۔ یہ ایک ڈکٹیٹر کا بنایا ہوا ادارہ ہے جس کے چارٹر اور طریقہ کار میں بہت سے سقم ہیں۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والے میثاق جمہوریت میں تجویز کردہ احتسابی ادارہ تو موجودہ محاذ آرائی کے ماحول میں بنانا شاید مشکل ہو لیکن نیب ایکٹ میں مناسب ترامیم جن سے انتقامی کارروائی، اذیت پسندی اور من مانی کی بو نہ آ تی ہو، کی تشکیل کے لئے سپریم کورٹ کے کسی جج کی سربراہی میں کمیشن بنایا جانا چاہیے‘ جو ان تمام معاملات کا بنظر غائر جائزہ لے۔ کمیشن میں انویسٹی گیشن کے ماہرین اور غیر متنازعہ شخصیات کو بھی شامل کیا جانا چاہیے‘ جو جمہوری ملکوں میں رائج احتسابی اداروں کے چارٹر، طریقہ کار اور کارکردگی کا بھرپور مطالعہ کرکے دیکھیں کہ ان میں سے کون کون سی چیزیں یہاں رائج کی جا سکتی ہیں۔ اس وقت تو غلط یا صحیح طور پر یہ تاثر گھر کر رہا ہے کہ نیب کو بعض خفیہ ہاتھ سیاستدانوں، صنعت کاروں اور بزنس مینوں کو مطعون کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ وہی ذہنیت ہے جس کے تحت جب جنرل پرویز مشرف برسر اقتدار آ ئے تو اس وقت کے سٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر محمد یعقوب‘ جنہیں نیشنل سکیورٹی کا ممبر بھی بنایا گیا تھا‘ نے ان کے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کے کلیدی ساتھی جنرل عزیز کو یہ بر یفنگ دی کہ پاکستان کے چیدہ چیدہ صنعت کاروں اور بیوروکریٹس کو الٹا لٹکا کر لوٹی ہوئے دولت واپس لی جائے تو وطن عزیز کے تمام قرضے ادا ہو سکتے ہیں۔ فوجی حکمران جو اکثر کانوںکے کچے ہوتے ہیں ‘نے ایسا ہی کیا اور لاہور کا سرور روڈ تھا نہ پورے پنجاب سے گرفتار صنعت کا روں اور سیا ستد انوں سے بھر گیا ۔ ایک ڈیڑھ ماہ تک انھیں وہاں رکھنے کے بعد جنرل صاحب کو احسا س ہوا کہ بات اتنی سا دہ بھی نہیں ہے ۔اس کے بعد یعقوب صاحب تو امریکہ پدھار گئے اور معا ملہ سردخانے کی نذر ہو گیا ۔ مشرف صاحب کو بھی احسا س ہو ا کہ ان تلوں سے تیل نکالنا اتنا آ سان نہیں ۔بعد میں اسی فو جی ذہنیت نے نیب جیسے ادارے کو جنم دیا ۔نیب کے طر یقہ کار میں بنیادی سقم یہ ہے کہ کسی بھی شخص کوشک کی بنیاد پر دھر ا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاںرائج اینگلوسیکسن قانون کے تحت جب تک جرم ثابت نہ ہو آ پ ملز م ہی رہتے ہیں لیکن نیب کے ہاں ہر شخص کو پکڑنے کے ساتھ ہی مجرم تصور کر لیا جاتا ہے۔اس طرح وطن عزیز جو جمہو ری ملک کہلاتا ہے ‘میں انصاف کے بنیا دی اصول کی نفی ہو جا تی ہے۔ آ ئیڈیل تو یہ ہونا چاہیے کہ منتخب سیاستدانوں کے احتساب کے لیے خو د احتسا بی کا ادارہ قا ئم ہو لیکن ہمارے سیاستدانوں نے جس انداز سے قانون اور قواعدو ضوابط کی دھجیا ں اڑائی ہیں ‘ان سے یہ امید رکھناعبث ہے کہ وہ خو د احتسا بی کے کسی بھی ادارے کو کامیابی سے ہمکنا ر ہو نے دیں گے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نیب ایک ننجا (NINJA)کے ماہر کی طر ح ملک کے سیاسی اور اقتصا دی نظام کے ساتھ جو ڈو کرا ٹے کھیلتا رہے۔
نیب میں اصلا حا ت کی ضرورت کے حوالے سے اسلام آ با د میں مقیم عالمی بینک کے ایک سابق مشیر عابد حسین کا کہنا ہے کہ نیب کو اپنے گسٹاپو کلچر‘ جس کے تحت وہ بغیر تحقیق کے لو گوںکو دھر لیتا ہے، ختم کرنا ہو گا ۔عابد حسین نے اپنے آرٹیکل میں سرکاری ملا زمین سے نیب کے ''حسن سلو ک‘‘کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ نیب کا سربراہ نیب کا ملا زم نہیں ہو نا چاہیے بلکہ اس کا رول اس کے معاملا ت کی نگرانی کرنا ہو نا چاہیے۔ مزیدبرآں اس احتسا بی ادارے کا با قاعدہ آ ڈٹ ضروری ہے جس کے لیے ایک آ ڈٹ کمشنر مقرر کیا جا نا چا ہیے۔ عابد حسین ایک بلیو ربن (Blue Ribbon)نگران اور مشا ورتی بورڈ بنانے کے بھی حق میں ہیں جو نیب کی کا رروا ئیوں پر کڑی نظر رکھے۔ ان کے تمام مشورے صائب ہیں۔ ان جیسے حضرات پاکستان میں موجو د ہیں ،جن کی خدمات سے فا ئد ہ اٹھا کر اس قسم کے اداروں کو مزید فعال، مو ثر اور کا ر آمد بنایا جا سکتا ہے ،تاکہ ایسا حقیقی احتساب ہو جن سے انتقا می کارروائی کی بوبھی نہ آئے اور حکومتی اہلکا روں، سرکا ری ملا زمین، صنعت کاروں اور تا جروں میں خو ف وہراس کی فضا بھی پیدا نہ ہو اور وہ اپنا کام آ زاد ی سے کر سکیں ۔نیب کی 'پلی بار گیننگ‘ کے تحت مک مکا کی رو ایت بھی انتہائی نا پسند ید ہ ہے ‘اس کا بھی فوری طور پر خا تمہ ہونا چاہیے اور قومی دولت لو ٹنے والوںکی جگہ ہر حال میں قانون کے مطابق جیل ہو نی چا ہیے۔
یہ تا ثر کہ سیا ستدان ‘چاہے ان کاتعلق کسی بھی جماعت سے ہو مجمو عی طور پر کرپٹ ہیں ‘کو بھی زائل کر نے کی ضرورت ہے۔ اس وقت صورتحا ل یہ ہے کہ کچھ سیا ستدانوں کی بو العجبیوںاور کچھ نیب کی کارروائیوں کی وجہ سے عوام کی بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ صرف لو ٹ مار میں مشغول ہے۔ دلچسپ با ت یہ ہے کہ جب ایک سیاسی جماعت کے خلا ف کرپشن کے الزام میں کا رروا ئی کی جا تی ہے تو اس کی مخالف جماعت بغلیںبجا تی ہے ۔جب کراچی میں ایم کیو ایم رینجرز کی کارروائیوں کا شکا ر تھی تو پیپلز پارٹی کی صوبا ئی حکومت کے کان پر جُوں تک نہیں رینگی لیکن بعد میں جب پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو رینجرز اور نیب کے عتاب کا نشا نہ بنناپڑا تو وہ چیخ اٹھی ۔پیپلز پارٹی کو گلہ ہے کہ اس سارے معا ملے میں میاں نواز شریف محض تما شا دیکھ رہے ہیں جس سے نواز لیگ کی حکومت اور پیپلز پارٹی کی اپوزیشن کے درمیان تعاون کا جو رشتہ چل رہا تھا ‘وہ ٹو ٹ گیا ،پھر آواز آ ئی کہ احتسا ب صرف سندھ میں کیوں ؟پنجاب میں بھی ہو نا چاہیے ۔اب جب پنجاب میں اس کی شروعات ہو رہی ہیں تو وفاق اور صوبے میں حکمران جما عت بھی چلّا اٹھی ہے ۔اس تنا ظر میں پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات قمر زمان کا ئرہ صاحب فر ماتے ہیں کہ نیب اصلا حا ت میں کو ئی بھی (ن) لیگ کا ساتھ نہیں دے گا اور عمران خان بھی اپنے صوبے میں مختلف مو قف اختیا ر کر نے کے با وجو د یہی بات کہہ رہے ہیں ۔کیا ہی اچھا ہو کہ سیاستدان مل کر اپنا گھر ٹھیک کریں اور نمبر داری کے ساتھ ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہو ئے خو د کو بے لا گ احتساب کے لیے پیش کر دیں۔ لیکن ایسے احتساب کے لیے ایک صاف شفاف ادارے کی تشکیل کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرنا پڑے گا ۔ کیا میاں نواز شریف ایسی حکمت عملی اختیا ر کرنے کی پو زیشن میں ہیں کیونکہ اب تک ان کا اپوزیشن سے رویہ رات گئی بات گئی سے آ گے نہیں بڑھ سکا ۔ انہیں انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کی شروعات کرنی چاہئیں۔