الطاف حسین کے دست راست اورکراچی کے سابق ناظم مصطفی کمال کا اچانک کراچی میں نمودار ہو نا اور قا ئد تحر یک کے خلا ف سنگین الزامات پر مبنی پر یس کا نفر نس ، کئی لحا ظ سے بہت بڑی خبر ہے ۔اس سے پہلے شاید ہی ایم کیو ایم کے کسی رہنما کو اپنے سا بق قا ئد اور پا رٹی پربرملا اتنے سنگین الزاما ت عائد کر نے کی جرات ہو ئی ہو ۔ پہلے الطا ف حسین سے اختلا ف کرنے اور ان کی ناراضی مول لینے والوں کو یا تو جان سے ہاتھ دھونا پڑے تھے یا پھروہ جلا وطنی کی زند گی گزارنے پر مجبو ر ہو جا تے تھے۔ مصطفی کمال کا شمار بھی مو خر الذ کر افرا د میں ہو تا ہے ۔مصطفی کمال الطاف حسین کے'' بلیو آ ئیڈ بو ائے‘‘تصور ہوتے تھے۔ انھوں نے زمانہ طا لب علمی میں اپنا ناتا آ ل پاکستان مہا جر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے جو ڑا ‘
پھر نا ئن زیر و میں ٹیلی فون آپر یٹر ی کر کے اپنے سیا سی کیر یئر کا آ غا ز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وزیر اور پھرناظم بن گئے ۔ امریکی جر یدے''فارن پالیسی‘‘نے انھیں دنیا کے بہترین تین میئروں میں شما ر کیا تھا ۔ایم کیوایم نے انھیں سینیٹ کی نشست سے بھی نوازا‘لیکن 2013ء میں اچانک مو صوف امر یکہ پدھا ر گئے اور پھر وطن واپس نہیں لو ٹے بلکہ دبئی میں بحر یہ ٹا ؤن میں ملازمت اختیا ر کر لی اور آ خر ی خبر آنے تک وہ وہیں ملازم تھے اور بحر یہ ٹا ؤن کے زیر اہتمام الطاف حسین یونیو رسٹی کے قیام میں بھی پیش پیش تھے۔ ان کے پا رٹی قائد سے کس طر ح اور کیو نکر اختلافات پیداہو ئے ‘یہ کسی کو علم نہیں،لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ اپنی جان بچا نے کے لیے ہی سینیٹ کی رکنیت چھو ڑ کر جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو ئے تھے ۔
مصطفی کمال کی پر یس کا نفر نس میں ان کے ساتھ ایک اور شخصیت انیس قا ئم خانی بھی فروکش تھے ۔ قا ئم خا نی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے ڈاکٹر عاصم حسین کیس میں نا قا بل ضما نت وارنٹ گر فتا ری نکلے ہو ئے ہیں اس کے علا وہ وہ الطاف حسین کے اتنے قر یب تھے کہ عمران فاروق قتل کیس میں پکڑے جا نے والے ملزموں نے بھی ان کا نام لیا تھا ۔ان کا سانحہ بلدیہ ٹا ؤن اور قبضہ مافیاسے بھی گہرا تعلق بتا یا جا تا ہے ۔ ظاہر ہے کہ وہ اس ملک کی سب سے بڑی لانڈری سے ''ڈرائی کلین‘‘ ہو کر بڑے دھڑلے سے مصطفی کمال کے ساتھ بیٹھے تھے۔ان دونوں میں یہ قدر مشتر ک ہے کہ ان کے گورنر سند ھ عشر ت العبا د کے ساتھ بہتر ین تعلقات رہے ہیں اور شایداسی بنا پر بعد میں جوابی پریس کانفرنس میں ندیم نصرت اور فاروق ستارنے بر ملا یہ الزام عائد کیا کہ مصطفی کمال اور قائم خا نی کی واپسی کے پیچھے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے ۔
مصطفی کمال نے الطا ف حسین پر جو الزامات عائد کیے ہیں وہ کو ئی نئے نہیں ہیں اور با خبر لو گو ں کو قائد تحریک کی ان ''خصو صیا ت‘‘ کا بہت پہلے سے علم ہے ۔وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے یہ کہہ کر کہ مصطفی کمال کے الزامات دستاویزی ثبوت کے بغیر کوئی حیثیت نہیں رکھتے، سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا ہے۔بنابریں گھر کا بھید ی لنکا ڈھا ئے کے مترادف ،مصطفی کمال کے منہ سے یہ الزامات کچھ زیا دہ ہی سنگین لگے ہیں۔کسے معلوم نہیں کہ ایم کیو ایم ایک فاشسٹ جماعت کی طر ح کام چلا تی رہی ہے ۔یہ بات بھی یار لو گو ں کو معلوم ہے کہ ایم کیو ایم میں الطاف حسین کی مر ضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا ۔حتیٰ کہ را بطہ کمیٹی کے ارکان کی ان کے کہنے پر پٹا ئی بھی ہو تی رہی ہے۔ مصطفی کمال نے قربانی کی کھا لوں کے چندے کی رقم قائد تحریک کے ذاتی تصرف میں آ نے کی بات بھی کی ۔ انھوں نے اپنے سابق قائد پرکثرت شراب نوشی کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کے الزامات کی حقیقت پر خو د الطاف حسین یا ایم کیو ایم کے رہنما ہی روشنی ڈا ل سکتے ہیں تا ہم ایم کیو ایم نے یہ کہہ کر اپنی جان چھڑالی ہے کہ مصطفی کمال اور قائم خانی کے پاس ایسے الزامات لگانے کامینڈ یٹ ہی نہیں۔ سوال مینڈ یٹ کا نہیں ہے بلکہ اس بات کا ہے کہ یہ سنگین تر ین الزامات پارٹی کی ساکھ کو متاثر کریں گے ‘لیکن پارٹی قیادت کو اس بات کی زیادہ پروا نہیں ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ کراچی ، حیدر آباد اور سکھر کے مہاجر ہر صورت اُنہیں ووٹ دیں گے۔دوسری طرف دونوں حضرات بیس سال کے طویل عرصے تک ایم کیو ایم کے سیاہ وسفید میں حصہ دار رہنے کے بعدکس طر ح یکدم پو تر ہو گئے۔عمران فاروق کے قتل کی بات تو ایک طرف انھیں خا لد بن ولید اورعظیم احمد طارق کے بہیمانہ طریقے سے قتل کے بارے میں بھی جو ابد ہ ہو نا پڑے گا‘مز ید بر آ ں 12مئی2007ء کو چیف جسٹس افتخا ر محمد چو ہدری کے دورہ کر اچی کے موقع پر ایم کیو ایم نے جو خو ن کی ہو لی کھیلی اس میں ان کا کیا رول تھا ؟
اگر یہ ساراڈرامہ واقعی مقتدر قوتو ں نے رچایا ہے اور اس کا مقصد ایم کیو ایم کے شہری سندھ میں سیاسی غلبے کو ختم کر نا ہے تو اس قسم کے ہتھکنڈوں سے کامیابی حا صل کرنامشکل ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم سمیت دیگر سیاسی قوتوں کو ختم کر نے کے لیے پہلے بھی اس قسم کے فارمو لے آ زما چکی ہے ۔ جنر ل ضیا ء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھا نسی دینے کے بعد بھٹو خا ندان پر عر صہ حیا ت تنگ کئے رکھا،خاندان اور پارٹی میں تقسیم کیلئے ڈورے ڈالے گئے ،ممتاز بھٹو اور حفیظ پیرزادہ جیسے ''انکل‘‘بھی پارٹی کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ بھٹو کی بیٹی دو مر تبہ وزیر اعظم بنیں اور ان کی شہا دت کے بعد بھٹو کے داما د آ صف زرداری نہ صرف مسند اقتدار پر فا ئز ہو ئے بلکہ اپنی پانچ سالہ مدت صدارت بھی پوری کی ۔دو فو جی آ مر ضیا ء الحق اور پر ویز مشرف بھی پیپلزپارٹی کا کریا کرم کرنے میں ناکام رہے۔ مشرف نے شر یفوں کو دیس نکالا دیا لیکن آج نواز شر یف تیسر ی مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) پرویز مشرف کے دور کو چھو ڑ کر تیس برس سے حکومت کر رہی ہے۔ پر ویز مشرف دور میں ہی اسٹیبلشمنٹ کی بنا ئی ہو ئی مسلم لیگ (ق) اب قر یباً قصہ پا رینہ بن چکی ہے اور پیپلز پارٹی سے نکال کرتراشے گئے پیٹریاٹس کا تووجو د ہی ختم ہو چکا ہے ۔اس کے سرخیل فیصل صالح حیات گم نامی میں اپنے زخم چاٹ رہے ہیں۔ آفاق احمد کو ساتھ ملا کر بنائی گئی ایم کیو ایم حقیقی بھی ایم کیو ایم کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔اسی طر ح مصطفی کمال نسبتاً اچھی شہرت رکھنے کے با وجو د متحدہ کو سیاسی طور پر شکست نہیں دے پا ئیں گے تا ہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اب ایم کیو ایم کومائنس ون فارمو لہ پر عمل کر نا پڑے گا۔اس وقت بھی عملی طورپر صورتحال یہی ہے کہ لندن میں بیٹھے الطاف حسین کی گرفت کمزور پڑتی جا رہی ہے اور ایم کیو ایم کی مقامی قیا دت الطاف حسین کے نام پر سیاست تو کر رہی ہے لیکن زیا دہ عر صے تک یہ سوانگ نہیں چل پا ئے گا ۔
کر اچی میں رینجرزاور قانون نا فذ کر نیوالے دیگر اداروں کو اس حد تک تو گرانقدر کامیابیاں حا صل ہوئی ہیں کہ عروس البلا د کرا چی کی روشنیا ں بحا ل ہو گئی ہیں نیز آ ج ایم کیو ایم کے ناراض رہنما ؤں میں اتنی جرات مندی سے کام لینے کا حو صلہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ اپنے قائد پر کھلم کھلا سنگین الزام تراشی کر سکیں وگر نہ ماضی میں پا رٹی کے اندر اور باہر حتیٰ کہ میڈ یا میںبھی کسی مائی کے لا ل کو الطاف حسین تو کجا ایم کیوایم پر نکتہ چینی کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی ۔ایک زما نے میں تو اکثر اخبارات میں خبر یں اور سرخیاں بھی ایم کیو ایم کی مر ضی کے بغیر نہیں لگ سکتی تھیں۔ الطا ف حسین کی لندن سے ایک بڑ ھک پر کر اچی بند کر دیا جا تا تھا ‘ اب صورتحا ل یکسر بدل چکی ہے، قائد تحریک کا سحر ماند پڑچکا ہے ۔میڈ یا نہ صرف کھل کر ان پر تنقید کرتا ہے بلکہ لاہو ر ہائیکو رٹ کے ایک حکم نامے کے ذریعے کوئی اخبار ان کی خبر اور تصویر شائع نہیں کرسکتا اوراپنی معمول کی نشریات روک کر آناً فاناً سجدہ سہو کر کے گھنٹوں ان کی لائیوتقریریںدکھانے والے چینل بھی انھیں لفٹ نہ کرانے پر اتر آ ئے ہیں ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایم کیو ایم کی سیا سی طاقت بھی ماند پڑ چکی ہے ۔حلقہ این اے 246کے ضمنی اور حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم نے اپنی برتری بر قرا ر رکھی ،اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ شہر ی سندھ کے مہا جر ین تمام تر قباحتوں کے باوجو د ایم کیو ایم کو ووٹ ڈالتے ہیں۔اب امید ہے کہ ایم کیو ایم اپنے رہنماالطاف حسین کے علاوہ بھتہ مافیا اور پارٹی لیبل کو استعمال کر کے جرائم کرنیوالے افراد سے بھی جان چھڑا لے گی۔
پنجاب کے خادم اعلیٰ نیب پر پھر خوب برسے ہیں ۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ اگر ایک پیسے کی بھی کرپشن ثابت ہو جائے تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے ۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی بھی نیب کے ہاتھوں'' نکو نک ‘‘ آچکی ہے ۔ ڈاکٹر عاصم نے نیب کے مطابق جواربوں روپے کی کرپشن کی ہے اگر یہ رقم ریکور ہو جائے تو کم از کم بجلی کے گردشی قرضے ادا کر کے پھر بھی بچ جائے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی ''خفیہ ہاتھ‘‘سسٹم کے در پے ہے۔ اس سے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ مقتدر قوتوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ کرپشن ختم کرنے کے نام پر سیاستدانوں کو ''یرکایا‘‘جا رہا ہے۔ یقینا نیب جیسے ادارے کو اپنا کام بھرپور انداز سے کرنا چاہیے لیکن کسی کے اشارے پر نہیں بلکہ صاف اور شفاف انداز سے ، جس سے کسی انتقامی جذبے کی بُو نہ آتی ہو۔