اس کے باوجود کہ پاکستان کی بنیادی اساس کو‘جسے قراردادِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے‘منظور ہوئے آج 76 برس بیت گئے ہیں لیکن دو تہائی صدی گزرنے کے باوجود اب تک یہ بحث و کشمکش جاری ہے کہ وطن عزیز کے لئے کونسا نظام زیادہ سود مند ہے۔ویسے تو وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام پر قریباً تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں اور ہونا بھی ایسے ہی چاہیے کیونکہ پاکستان ووٹ کے ذریعے ہی معرض وجود میں آیا لیکن بظاہر اس عمومی اتفاق کے باوجود بھانت بھانت کی بولیاں بولنا ہمارا وتیرہ بن چکا ہے ۔ہمارے جسدِ سیاست میں ان لوگوں کی کمی نہیں جو اپنی اپنی تاویل کے مطابق مخصوص قسم کے غیر جمہوری فارمولے قوم پر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔بعض مذہبی جماعتیں شریعت کے نام پر ایک ایسا نظام چاہتی ہیں جس کے تحت انہیں ویٹو پاور حاصل ہو جائے ،وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان میں سے اکثریت تصور پاکستان کے ہی خلاف تھی ،ان کے نزدیک پاکستان کا بننا اسلام کومحض ایک علاقے میں محدود کرنا تھا۔
جماعت اسلامی کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم یا مولانا فضل الرحمن کے بزرگوں کا بس چلتا تو پاکستان بنتا ہی نہ لیکن اب جبکہ یہ معرض وجود میں آ چکا ہے اور ان کی جماعتیں ووٹ کے ذریعے حکومت پر قبضہ نہیں کر پاتیں۔اسی لئے ملکی نظام کو اپنے ڈھب سے چلانے کے لئے طرح طرح کی موشگافیاں کی جاتی ہیں۔جہاں تک حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے یہ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی مسلم لیگ ہونے کی دعوے دار بھی ہے۔ماضی میں پیپلز پارٹی مخالف ووٹ پر قبضہ کرنے کے لئے اس کی اور مذہبی جماعتوں کی سیاست میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا لیکن اب جبکہ پیپلز پارٹی کی سیاست کا سندھ کے سوا باقی صوبوں بالخصوص پنجاب میں بوریا بستر گول ہو چکا ہے اور پاک فوج بھی اسلام کے نام پر دہشتگردی کرنے والوں کے درپے ہے تو میاں صاحب نے بھی پینترا بدل لیا ہے۔اس ملک میں جہاں لبرل کہلانا ایک مخصوص طبقے کی رائے کے مطابق گالی تصور کیا جا تا ہے ۔میاں نواز شریف نے روشن خیالی کو فروغ دینا شروع کر دیا ہے جس کا ایک مظہر تحفظ حقوق نسواں قانون ہے۔اس کیخلاف جماعت اسلامی کی قیادت میں مذہبی جماعتوں نے ہا ہا کار مچا رکھی ہے۔دوسری طرف عمران خان نے‘ جو بزعم خود نوجوانوں،خواتین اور نسبتاً روشن خیال طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں‘یہ دوہرا طرز عمل اختیار کر رکھا ہے کہ عورتوں کے حقوق اور برابری اپنی جگہ لیکن کوئی بھی قانون ہو اس پرپہلے اسلامی نظریاتی کونسل سے ٹھپہ لگوایا جائے۔وہ اس بات کو یکسر نظرانداز کر دیتے ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کا تعلق جمعیت علمائے اسلام (ف) سے ہے اور کونسل کے اکثر ارکان انتہائی قنوطیت پسند ہیں۔مقام شکر ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو ویٹو پاور حاصل نہیں ہے بصورت دیگر ان کا بس چلے تو یہ ملک کو قدیم دور میں لے جائیں۔یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اسلام کا نام لینے والی قوتیں کسی جمہوری حکومت کیخلاف یکجا ہوئی ہوں،اس حوالے سے اکثر مذہبی جماعتوں کا ماضی اتنا درخشندہ نہیں ہے۔یحییٰ خان کے دور میں یوم شوکت اسلام منا نے اور مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کے خلاف یہی قوتیں سینہ سپر ہو گئیں۔1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک نظام مصطفی بھی اسی سٹریٹیجی کا حصہ تھی۔اسی تحریک کے نتیجے میں جنرل ضیا ء الحق نے اقتدار پر شب خون مارا اور بھٹو کی چھٹی کرا دی اور معاملہ بھٹو کی پھانسی تک پہنچ گیا‘ جس کی اکثر مذہبی اور بعض سیاسی جماعتوں نے مکمل حمایت کی ۔کیا آج وہ طبقات جو اسلامی نظام کے داعی ہیں اس پوزیشن میں ہیں کہ موجودہ جمہوری نظام کو ملیا میٹ کر سکیں یقیناً ایسا نہیں لگتا کیونکہ ملک میں بری بھلی جمہوریت جڑ پکڑ چکی ہے۔میاں نواز شریف ہوں یا آصف زرداری یا عمران خان سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ جمہوریت میں ہی پاکستان کی بقا ہے البتہ ہر ایک سیاسی جماعت کی جمہوریت کے بارے میں اپنی اپنی تاویلات ہیں۔کچھ اپنے قلابے جی ایچ کیو سے ملانے کی کوشش کرتی ہیں تو کچھ اسلام کے نام پر اپنی دکان چمکانا چاہتی ہیں۔
شہری سندھ پر ایم کیو ایم قابض ہے ۔مقتدر حلقے لسانیت کی بنیاد پرالطاف حسین کی اس گرفت کو توڑنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں ۔ایم کیو ایم کے تحت کام کرنے والے بھتہ خوری ، دہشتگردی اور دیگر جرائم میں ملوث افراد کی بیخ کنی کافی حد تک تو ہو چکی ہے ۔اب رینجرزان کے سرپرستوں پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔یہ جماعت اب تک اس الزام کو نہیں دھو پائی کہ اسے بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کی طرف سے فنڈنگ بھی ہوتی رہی ہے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ایم کیو ایم مہاجروں کے حقوق کے نام پر الیکشن لڑتی اور جیتتی بھی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مصطفی کمال جن کی نئی سیاسی جماعت آج لانچ ہونے جا رہی ہے کوئی گل کھلانے یا اس اجارہ داری کو توڑنے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ وطن عزیز کے وجود میں آنے سے لے کر اب تک قریباً نصف سے زائد عرصہ فوجی و نیم فوجی حکومتوں کے ادوار پر محیط ہے ۔2013 ء میں پہلی مرتبہ عام انتخابات کے ذریعے انتقال اقتدار ممکن ہوا وگرنہ یہاں تو ہر جمہوری حکومت کو صدر اور آرمی چیف کی آشیرباد سے وقت سے پہلے ہی گھر بھجوا دیا جاتا تھا اور عام انتخابات کا سوانگ رچا کر پہلی حکومت کے مخالفین کو اقتدار میں لایا جاتا تھا۔آج بھی جمہوریت پسندوں کو یہ شکایت رہتی ہے کہ افواج پاکستان کو سویلین حکومت کے بہت سے معاملات پر ویٹو پاور حاصل ہے،ان کے نزدیک جمہوریت تب تک جمہوریت نہیں کہلا سکتی جب تک سویلین اداروں پر منتخب حکومت کا پورا کنٹرول نہ ہو۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ امید،امید موہوم ہی رہے گی اور فوج کا سویلین معاملات میں دخل برقرار رہے گا۔لیکن دوسری طرف مقام شکر ہے کہ افواج پاکستان کو بھی اس امر کا ادراک ہو چکا ہے کہ براہ راست حکومت کرنا ان کے بس کا روگ نہیں ہے ۔جنرل راحیل شریف کی قیادت میں ضرب عضب کی وجہ سے ‘جسے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مکمل حمایت اور مدد حاصل ہے‘ پوری قوم دہشتگردی کے خلاف یکجا ہے۔بقول آرمی چیف دہشت گردوں کے خلاف جنگ اپنے آخری مراحل میں ہے لیکن اصل کام تو ہمارے جسد سیاست کے ذریعے ہونا ہے اور وہ ہے کہ علامہ اقبالؒ کے افکار اور قائد اعظمؒ کے فرمودات کے مطابق پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک جمہوری،اسلامی اور فلاحی ریاست بنایا جائے جہاں پر ہر شہری کو برابر کے حقوق حاصل ہوں اور کسی کو اپنا مخصوص ایجنڈا بزور بازو اکثریت پر ٹھونسنے کی جرأت نہ ہو۔