"ANC" (space) message & send to 7575

ذمہ دار کون؟

راجن پورکے کچا کے علاقے میں ''چھوٹو گینگ‘‘ سے نبٹنے کیلئے بھی بالآخر پاک فوج کو ہی میدان میں آنا پڑا۔بدقسمتی سے دہشتگردی، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اوردیگر سنگین جرائم سے نبٹنے کیلئے بھی پاک فوج یا رینجرز جیسی پیراملٹری فورس سے ہی کام لینا پڑتا ہے کیونکہ پولیس تمام تر کوششوں کے باوجود ان معاملات کے حوالے سے اب تک پوری طرح ٹرینڈ ہی نہیں ہو سکی۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن)گزشتہ 8 برس سے اصرار کرتی چلی آ رہی ہے کہ پنجاب میں رینجرز کی ضرورت نہیںاور پولیس میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ صوبے میں ایسے جرائم سے نبٹ سکتی ہے۔سب سے پہلے تو یہ صدا لگائی جاتی رہی کہ پنجاب میں ستے خیراں ہیں، قانون اور امن و امان کی صورتحال کنٹرول میں ہے‘ اور پولیس ہر قسم کی ایمرجنسی سے نبرد آزما ہونے کی اہلیت رکھتی ہے، ایک مرحلے پر تو یہ کہا گیا کہ اگر جہادی تنظیمیں پنجاب میں ہیں اور کچھ نہیں کر رہیں تو ہم کیونکر انہیں چھیڑیں۔
راجن پور میں چھوٹو گینگ کے کھل کھیلنے کے بعد پنجاب حکومت کے ان دعووں کی قلعی بیچ چوراہے کھل چکی ہے، اس کے باوجود یہ اصرار رہا کہ چھوٹو گینگ سے ہم خود نمٹ لیں گے‘ اور اسی سلسلے میں خادم اعلیٰ شہباز شریف اور وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے چند روز قبل آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات بھی کی؛ تاہم بعد از خرابیء بسیار پنجاب حکومت کو اعتراف کرنا پڑا کہ بغیر فوج کی مدد کے یہ معاملہ کنٹرول نہیں ہو سکتا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ پولیس اہلکار‘ جو اس آپریشن کے دوران شہید ہو گئے اور جنہیں یرغمال بنایا گیا‘ ان کو بے تیغ اس لڑائی میں جھونکنے کا ذمہ دار کون ہے؟ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے پنجاب حکومت کی طرف سے ہر شہید اہلکار کے لواحقین کیلئے 50 لاکھ مالی امداد، بیوہ اور بچوں کی کفالت‘ اور بچوں یا خاندان میں سے ایک فرد کو نوکری دینے کا اعلان کیا ہے۔ آئی جی پنجاب کی گیدڑ بھبکیوں کی روشنی میں ڈی جی آئی ایس پی آر کو اعلان کرنا پڑا کہ اب یہ آپریشن فوج کی قیادت میں ہو رہا ہے‘ اور پولیس اور رینجرز فوج کی کمان میں ہوں گی۔
ہمارے جسد سیاست کا یہ وتیرہ بن چکا ہے کہ نہ ذمہ داری کا تعین کیا جاتا ہے‘ اور نہ ہی وہ لوگ جن کو ذمہ داری قبول کرنا ہوتی ہے ٹس سے مس ہوتے ہیں۔ یہ اپنے عہدے سے چمٹے رہتے ہیں‘ حالانکہ ان کو برطرف کر دیا جانا چاہئے۔ اول تو وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ آئی جی پنجاب کو مجرمانہ غفلت پر برطرف کر دیں‘ اور اگر بوجوہ وہ ایسا نہیں کرتے تو آئی جی صاحب کو خود ہی استعفیٰ دے دینا چاہیے‘ لیکن وہ کیونکر ایسا کریں گے کیونکہ رانا ثناء اللہ جیسی شخصیات ان کا دامے درمے سخنے دفاع کرنے کیلئے ہمہ وقت موجود ہیں اور وہ ایسا کیوں نہ کریں کیونکہ جون 2014ء میں ماڈل ٹاؤن لاہور میں طاہرالقادری کے ہیڈ کوارٹرز پر حملے کے دوران 14 افراد کی ہلاکت کے بعد بطور وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو سائیڈ لائن کیا گیا تھا‘ لیکن اشک شوئی کی خاطر بنائے گئے ایک نام نہاد کمیشن کی رپورٹ کے بعد وہ دوبارہ پھنے خانیاں کرنے کیلئے واپس آ گئے تھے۔ انہیں شہباز شریف‘ جو گڈ گورننس کی مالا جپتے نہیں تھکتے‘ کی مکمل سپورٹ اور آشیرباد حاصل ہے بلکہ وہ عملی طور پر اس وقت نائب وزیر اعلیٰ ہیں۔ ان حالات میں گورننس کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے۔ کرکٹ کا معاملہ ہی لے لیں۔ اس کے باوجود کہ بورڈ کی موجودہ قیادت کے دور میں ملک میںکرکٹ کا جنازہ نکل گیا ہے‘ یہ حضرات ٹس سے مس نہیں ہوئے اور نہ ہی ان کی تقرری کرنے والی سیاسی قیادت نے انہیں فارغ کرنے کی سعی کی ہے۔ چھوٹو گینگ کی خوفناک کارروائیوں کے نتیجے میں یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی ہے کہ پنجاب میں معاملات باقی صوبوں سے بہتر نہیں‘ اور یہاں پر دہشتگرد ہی نہیں بلکہ کریمنل گینگز بھی دندناتے پھر رہے ہیں۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ جنوبی پنجاب میں دہشتگردوں کی آماجگاہیں موجود ہیں‘ اور نہ صرف بعض سیاستدان بلکہ سکیورٹی ادارے بھی ان کی موجودگی سے صرف نظر برتتے رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو لاہور میں حال ہی میں گلشن اقبال پارک میں دہشتگردی کی واردات‘ جس کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کی ہے‘ نہ ہوتی۔ اس سانحہ سے قبل ہمارے حکمران غفلت کی نیند سو رہے تھے اور برملا یہ دعوے کئے جا رہے تھے کہ ہم نے دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے‘ لیکن بعد میں یہ انتہائی ناگوار حقیقت قوم پر بجلی بن کر گری کہ پنجاب میں دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے نیٹ ورک نہ صرف ابھی تک برقرار ہیں‘ بلکہ پوری طرح فعال بھی ہیں۔
بعض سیاستدان اور پولیس اہلکار یہ نہیں چاہتے کہ 'چھوٹو‘ زندہ گرفتار ہو جائے کیونکہ اگر وہ پکڑا گیا تو تحقیقاتی ادارے اس کے روابط اور سہولت کاروںکے بارے میں سب کچھ اگلوا لیں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بہت سے دہشتگرد آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں اپنے علاقوں سے فرار ہو کر انہی گروہوں کی سرپرستی میں جنوبی پنجاب میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اب پنجاب میں 'سب اچھا ہے‘ کی گردان نہیں چلے گی‘ اور پنجاب حکومت کو دہشتگردی کا قلع قمع کرنے کیلئے بہت سے فوری اور دور رس اقدامات کرنا ہوں گے۔ حکومت کو بھی خواب خرگوش سے بیدار ہو کر اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ قانون اور امن و امان کے حوالے سے ترجیحات بدلنے کی ضرورت ہے۔ ڈولفن فورس، ایلیٹ فورس اور محافظ فورس جیسے فینسی اور مہنگے پروجیکٹس کے بجائے پولیس کے حالات کار بہتر بنانے کے علاوہ ان کی کپیسٹی بلڈنگ اور ٹریننگ کا خصوصی اہتمام کیا جانا چاہیے، کاؤنٹر ٹیررازم فورس کو مزید اختیارات دینے اور فعال بنانے کی فوری ضرورت ہے۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاک فوج دہشتگردی سے نبٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے اس سے ان کی ٹریننگ کا کام لینا چاہیے لیکن یہ کام کرنے کیلئے جس سیاسی عزم کی ضرورت ہے اس کا فقدان نظر آتا ہے۔ وطن عزیز میں بیانیہ بدلنے کی بات کرنا آج کل فیشن بن گیا ہے‘ لیکن عملی طور پر اس ضمن میں نہ ہونے کے برابر پیش رفت ہوئی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے ان نکات پر سرے سے عمل ہی شروع نہیں کیا گیا جن کے تحت فرقہ وارانہ، نفرت انگیز تقاریر کو روکنا، دہشتگردوں کی آماج گاہوں، بعض مدارس کے خلاف کارروائی کرنا اور نصاب میں تبدیلیاں کرنا تھیں۔ حکمران تو محض اپنے اقتدار کو بچانے اور اسے دوام بخشنے کیلئے مہنگے پروجیکٹس کی 2018ء تک تکمیل میں لگے ہوئے ہیں‘ اور شاید انہیں احساس نہیں ہے کہ یہ تاریخی کوتاہی حکمرانوں کو مہنگی پڑے گی ہی، ملک و قوم کا مستقبل بھی ان بنیادی معاملات کو سلجھائے بغیر بہتر نہیں ہو گا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں