اب اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ ارب پتی امریکی بزنس مین ڈونلڈ ٹرمپ رواں برس 8 نومبر کو ہونے والے امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ری پبلیکن پارٹی کی طرف سے نامزد امیدوار ہوںگے۔ یہ دنیائے اسلام کے لئے بالعموم اور امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے بالخصوص کوئی اچھی خبر نہیں ہے کیونکہ ٹرمپ نے مسلمانوں کے بارے میں اپنی شدید نفرت کو کبھی نہیں چھپایا۔ امریکہ ایسا ملک ہے جہاں دنیا بھر سے آ کر قومیتیں آباد ہوئی ہیں لیکن یہاں ڈونلڈ ٹرمپ مسلمانوں توکیا، ہر غیر امریکی کی نقل مکانی کا راستہ یکسر بند کرنا چاہتا ہے۔ میکسیکو کے ساتھ بارڈر پر بھی دیوار چننا اس کے پروگرام میں شامل ہے۔ ری پبلیکن پارٹی میں حریف امیدوار ٹیڈ کروز کے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ بہتر امیدوار ٹھہرے، اس کی وجہ صرف ٹرمپ کی بے پناہ دولت ہی نہیں بلکہ میڈیا کو استعمال کرنے میں ملکہ اور اس وقت قدامت پسند امریکیوں میں مسلمانوں اور تارکین وطن کے خلاف نفرت کو ایکسپلائٹ کرنے کی مہارت بھی شامل ہے۔ ٹرمپ کا انتخاب محض ایک اتفاق نہیں ہے کیونکہ امریکی پرائمریوں کا نظام اتنا کٹھن ہے کہ اس سے گزر کر کامیابی اسی شخصیت کو ملتی ہے جسے اس پارٹی کے ووٹرز امیدواری کا اہل سمجھتے ہیں۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن ابھی تک فیصلہ کن طور پر اپنی پارٹی کی امیدوار نہیں بن پائیں اور اپنے مدمقابل برنی سینڈرز سے آگے ہونے کے باوجود انہیں صدارتی امیدوار ہونے کے لئے ابھی کچھ پرائمریوں کے مراحل طے کرنا باقی ہیں۔ حالانکہ یہ کہا جا رہا تھا کہ ری پبلیکن پارٹی میں بڑی گروپ بندیاں اور انتشار ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ بڑے فیصلہ کن انداز سے ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار بن کر ابھرے ہیں۔ ٹرمپ نے بہت پہلے ہی یہ بھانپ لیا تھاکہ گزشتہ چند برسوں میں امریکہ میں بڑھتے ہوئے 'اسلامو فوبیا ‘یعنی مسلمانوں سے نفرت اور خوف کو ابھار کر وہ برملا طور پر مسلمانوں کے خلاف بات کرنے سے ری پبلیکن رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کر لیںگے۔
ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ اگر وہ صدر منتخب ہو گئے تو تمام غیر امریکی مسلمانوں کا امریکہ میں داخلہ بند کر دیںگے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ یورپ کو تباہ کر رہے ہیں لیکن میں امریکہ میں ایسے نہیں ہونے دوںگا۔ یقیناً ٹرمپ کے اس نفرت انگیز پیغام کو وہاں پذیرائی حاصل ہونا مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ اگر ایسا شخص امریکہ کا صدر منتخب ہو گیا تو وہ ان پر عرصہ حیات تنگ کر دے گا۔ ٹرمپ کی نفرت انگیز تقریروں کا نتیجہ اس صورت میں نکلا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تعصب پر مبنی Hate Crimes تشویشناک حد تک بڑھ گئے ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ ماہ امریکہ کی ریاست واشنگٹن میں کافی شاپ کے باہر ایک خاتون نے حجاب میں ملبوس مسلمان خاتون کو پٹرول چھڑک کر آگ لگانے کی کوشش کی اور کہا: ''تمھارے جیسے مسلمان یہاں کیا کر رہے ہیں؟ جاؤ جہاں سے تم آئے ہو‘‘۔ حملہ آور خاتون نے برملا کہا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سپورٹر ہے اور جب وہ صدر بنے گا تم جیسے لوگوں کی چھٹی ہو جائے گی۔ 'واشنگٹن پوسٹ ‘کے مطابق یہ الگ بات ہے کہ جس مسلمان خاتون پر متعصب خاتون حملہ آور ہوئی وہ امریکہ میں ہی پیدا ہوئی اور امریکہ کی ہی شہری ہے۔ امریکہ میں ایسے واقعات بھی ہو رہے ہیں جہاں بعض ریستورانوں اور پروازوں سے محض اس لئے کچھ لوگوں کو نکالا جا رہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ ٹرمپ کو اس چیز پر بھی اعتراض ہے کہ بقول اس کے صدر اوباما بھی مسلمان ہیں، گویا مسلمان ہونا امریکہ کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں اس سے پوچھا گیا تو اس نے دعویٰ کیا
کہ دنیائے اسلام ہم سے نفرت کرتی ہے۔ انٹرویو کرنے والے کے اس سوال پر کہ کیا دنیا میں بسنے والے 1.6 بلین مسلمان سب امریکہ سے نفرت کرتے ہیں؟ تو اس نے جواب دیا: ''جی ہاں، بہت سے مسلمان‘‘۔ اس طرح کے کئی واقعات گنوائے جا سکتے ہیں جن میں ٹرمپ کی ریلیوں میں اس کے حامیوں نے مسلمانوں کو گالیاں دیں۔ امید تو یہ رکھنی چاہیے کہ امریکی عوام اس قسم کے متعصب شخص کو منتخب نہیں کریں گے اور اس کی متوقع مد مقابل ہیلری کلنٹن امریکہ کی آئندہ صدر ہوںگی کیونکہ بحیثیت مجموعی امریکی عوام اتنے متعصب نہیں ہو سکتے۔ تاہم ٹرمپ کی نفرت انگیز مہم کی کامیابی اس امرکی غمازی کرتی ہے کہ القاعدہ اور داعش کی مغرب میں سرگرمیاں اور خود امریکہ میں دہشت گردی کے بعض واقعات اپنا رنگ دکھا رہے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو Clash of Civilizations (تہذیبوں کا تصادم) کے امریکی مصنف سیموئل پی ہٹنگٹن کی یہ پیش گوئی کہ سرد جنگ کے بعد عوام کا ثقافتی اور مذہبی تشخص ہی تہذیبوں کے ٹکراؤ کا موجب بنے گا، درست ثابت ہو رہی ہے۔ نجانے ٹرمپ جیسے ان پڑھ شخص کو کس نے ایسا سبق پڑھایا جسے اس نے گھول کر پی لیا ہے اور اب امریکہ کی صدارتی معرکہ آرائی میں کامیابی سے اس کا استعمال کر رہا ہے۔ یہ شخص خواتین سے بھی نفرت کرتا ہے، تارکین وطن کے خلاف بھی ہے، مسلمان حتیٰ کہ یہودی بھی اس کی گالی گلوچ کی زد میں آتے رہتے ہیں ۔
دوسری طرف ہیلری کلنٹن ایک لبرل ایجنڈا لے کر سامنے آ رہی ہیں۔ وہ امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی پالیسیوں یعنی ہر شخص کے برابر ہونے، تارکین وطن کو خوش آمدیدکہنے اور تعصب سے پاک ہونے کی داعی ہوںگی، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ چاہے حکومت ڈیموکریٹک کی ہو یا ری پبلیکن کی‘ پاکستان سمیت دنیائے اسلام میں امریکی پالیسیوں کو عمومی طور پر مسلمان دشمن ہی سمجھا جاتا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، صدر خواہ کوئی بنے امریکی انتظامیہ اور کانگریس کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہی ہوگا۔ یقیناً امریکہ بھارت کے ساتھ اپنے سٹریٹیجک،اقتصادی اور تجارتی مفادات وابستہ کئے ہوئے ہے، وہ چین کے خلاف بھارت کو اپنا سٹریٹیجک پارٹنر سمجھتا ہے جبکہ پاکستان نے اقتصادی راہداری کا حصہ بن کر خود کو اقتصادی اور دفاعی طور پر چین کے قریب تر کر لیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی ترسیل کے لئے اقتصادی مدد دینے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ اسی بنا پر ٹرمپ ہو یا ہیلری، پاکستان کو چین، روس اور خطے میں دیگر ممالک سے تعلقات بہتر بنانے پڑیںگے۔ ایسا کرنے کے لئے فوجی قیادت سمیت ہماری خارجہ پالیسی کے بزرجمہروں کو شاید کچھ بنیادی فیصلے کرنا پڑیں۔ امریکی پالیسیوں نے حالیہ دو دہائیوں میں افغانستان،ایران ،عراق، لیبیا،شام اور مصر میں جو تباہی مچائی اس کا نقصان مسلمانوں کو ہی ہوا۔ اسرائیل( جس کی لابی امریکہ میں انتہائی مضبوط ہے) کی پشت پناہی کے باعث فلسطینیوں کے قتل عام اور انہیں اپنے علاقے سے بے دخل کرنے کو بھی امریکی پالیسیوں کا شاخسانہ قرار دیا جاتا ہے۔ صرف وہ مسلمان بادشاہ جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اور اپنے عوام کو جمہوری حقوق دینے سے قاصر ہیں امریکہ کے دوست ہیں۔ اس تناظر میں ٹرمپ جیسے لوگوں کو اپنا ''لچ تلنے‘‘ کا بھرپور موقع فراہم ہوگا۔ دعا کرنی چاہیے کہ امریکی انتخابات میں ہیلری کلنٹن صدر بن جائیں تو یہ کم خسارے کا سودا ہو گا، لیکن اتنی مایوسی کی بھی بات نہیں، اگر برطانیہ میں ایک بس ڈرائیور کا پاکستانی نژاد بیٹا صادق خان لندن کا میئر بن سکتا ہے تو امریکہ میں بھی لبرل ازم کا وجود ہے اورامریکی نظام ٹرمپ جیسے شخص کے نظریات کوپنپنے نہیں دے گا۔ صادق خان پہلا نوجوان مسلمان ہے جو برطانوی کابینہ میں شامل تھا اور اس کا تعلق لیبر پارٹی سے ہے۔ عام طور پر توقع کی جا رہی تھی کہ لیبر پارٹی کی خاتون ٹیسا جوول جوکہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی فیورٹ اور اسٹیبلشمنٹ کا بھی''انتخاب‘‘ تھیں میئر بننے کے لئے نامزد ہوںگی لیکن قرعہ فال صادق خان کے نام نکلا۔ عمران خان کے سابق برادر نسبتی زیک گولڈ سمتھ‘ صادق خان کے مدمقابل تھے لیکن انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ صادق خان کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ وہ نہ صرف برطانیہ بلکہ یورپ کی تاریخ میں پہلے مسلمان ہیں جو میئر منتخب ہوئے ہیں۔ برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ اس امکان کو رد نہیں کرتا کہ لندن کا میئر برطانیہ کا متوقع وزیر اعظم ہو تا ہے جو صادق خان بھی ہو سکتا ہے اور یہ برطانیہ اور امریکہ جیسے ملکوں میں ہی ممکن ہے جہاں ایک عام آدمی بھی ریاست کے بڑے عہدوں پر فائز ہو سکتا ہے۔