"ANC" (space) message & send to 7575

خارجہ اور سکیورٹی پالیسی کے بزرجمہر

امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں تحریک طالبان کے امیر ملا اختر منصور کی بلوچستان میں ہلاکت نے پاکستان کی افغانستان کے بارے میں ناقص پالیسی کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑ دیا ہے۔ پاکستانی حکومت سراپا احتجاج ہے کہ ڈرون کارروائی پاکستان کی خود مختاری کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ اتوار کو لندن پہنچتے ہی وزیر اعظم میاں نواز شریف نے انکشاف کیا کہ ہفتے کی رات ساڑھے دس بجے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ملا اختر منصور کی ہلاکت کی خبر دی۔ یہ حملہ صدر اوباما کی منظوری اور افغا ن حکومت کی آشیرباد سے کیا گیا‘ لیکن اس خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے حلیف پاکستان کو دانستہ طور پر پہلے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان عدم اعتماد کی خلیج بہت بڑھ چکی ہے۔ غالباً واشنگٹن کے پالیسی سازوں کو یہ خدشہ رہتا ہے کہ اگر کسی اہم آپریشن کی اطلاع متعلقہ پاکستانی حکام کو دی گئی تو ان عناصر‘ جن کے خلاف آپریشن کیا جانا ہو‘ کو پیشگی خبر مل سکتی ہے۔
بہرحال ملا اختر منصور کا پاکستانی سرزمین پر دندناتے پھرنا‘ اور ایک اطلاع کے مطابق کراچی میں مقیم رہنا‘ اور ولی محمد کے طور پر آزادانہ بیرون ملک سفر کرنا‘ ہماری علانیہ افغان پالیسی اور عملی افغان پالیسی میں تفاوت کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک طرف تو ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ افغان طالبان مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے تیار نہیں اور اس معاملے میں حال ہی میں اسلام آباد میں ہو نے والے چار فریقی مذاکرات میں بھی ہم نے یہی موقف اختیار کیے رکھا اور دوسری جانب یہ صورتحال ہے۔ گز شتہ ہفتے ہونے والے اس اجلاس کو افغان حکومت نے سنجیدگی سے نہیں لیا‘ اور اپنا نمائندہ بھیجنے کے بجائے اسلام آباد میں مقیم اپنے سفیر کو ہدایت کر دی کہ وہ اس اجلاس میں شریک ہو جائیں۔ پاکستان نے تو افغانستان کے معاملے میں کوئی خصوصی نمائندہ سرے سے مقرر ہی نہیں کیا۔ پاکستان کی خارجہ اور سکیورٹی پالیسی کے بزرجمہروں سے یقینا اب یہ سوال پوچھا جائے گا کہ آیا افغان طالبان رہنما ہماری سکیورٹی ایجنسیوں کو جُل دے کر خفیہ طور پر پاکستان میں مقیم تھے‘ یا مقتدر اداروں کی آشیرباد سے دندناتے پھر رہے تھے۔ پانچ برس قبل اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں کاکول اکیڈمی کے قریب ہی امریکی نیوی سیلزکی خفیہ کارروائی میں مارا گیا تھا۔ اس وقت جنرل اشفاق پرویز کیانی فوج کے سربراہ اور جنرل شجاع پاشا آئی ایس آئی کے ڈی جی تھے۔ انہوں نے یہی موقف اختیار کیا کہ اسامہ بن لادن کی موجودگی سے ہمارے سکیورٹی ادارے لاعلم تھے۔ اب ملا اختر منصور کے بارے میں سرکاری طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کی جا رہی کہ ڈرون حملے میں مارا جانے والا شخص ملا اختر منصور ہی تھا۔ اس سے پہلے کوئٹہ شوریٰ کے سربراہ اور تحریک طالبان کے امیر ملا عمر بھی پاکستان میں ہی مقیم تھے اور وہ یہیں علالت کے باعث انتقال کر گئے تھے‘ لیکن ان کی موت کا انکشاف گزشتہ برس ہوا‘ جس کے بعد ملا اختر منصور نے امارت کا منصب سنبھالا تھا‘ جس کے لیے انہیں طالبان کی صفوں میں اندرونی خلفشار کا مقابلہ بھی کرنا پڑا۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق پاکستانی انٹیلی جنس نے ملا منصور کی حرکات و سکنات کے بارے میں امریکہ کو اہم معلومات فراہم کیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالباً اسی لئے ہمارے عسکری ادارے اس بارے میں چپ سادھے ہوئے ہیں۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے آپریشن کی طرح اس ضمن میں بھی پاکستان کا رول جلد طشت از بام نہیں ہو گا۔
جولا ئی 2015ء میں جب ملا منصور نے امارت کا منصب سنبھالا اس وقت یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا تھا کہ وہ افغانستا ن میں مستقبل کی حکومت کے بارے میں امریکہ اور افغانستان سے بات چیت کے حامی ہیں‘ لیکن بعد ازاں یہ منکشف ہوا کہ بقول پاکستان وہ مذاکراتی عمل کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔ واضح رہے کہ ملا منصور‘ جو طالبان کی حکومت کے دوران افغان ہوا بازی کے وزیر بھی رہے‘ مبینہ طور پر قطر میں طالبان کا دفتر کھولنے میں بھی ممد و معاون تھے۔ اس دفتر کا مقصد ہی مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانا تھا‘ لیکن امارت کا منصب سنبھالنے کے بعد افغان طالبان نے افغانستان کے اندر خون کی ہولی کھیلنا شروع کر دی اور دہشت گردی کے ایسے آپریشن کیے‘ جن کے نتیجے میں سینکڑوں افغان باشندوں کے علاوہ متعدد امریکی بھی ہلاک ہو گئے۔ اس دوران حکومت پاکستان افغانستان کی الزام تراشیوں کے جواب میں بھی یہ موقف اختیار کرتی رہی کہ افغان طالبان کی ایسی کارروائیوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں اور ہم اپنے علاقے کو ایسی کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے اور ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی دہشت گردی کے لیے افغانستان اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دے۔ افغانستان نے بھی تحریک طالبان کے لیڈر ملا فضل اللہ کو مسلسل پنا ہ دے رکھی ہے۔ اس کا بھی دعویٰ یہ ہے کہ فضل اللہ ہمارے کنٹرول میں نہیں۔ اس قسم کی 'پراکسی وار‘ نے ہماری مغربی سرحد کے دونوں طرف امن و آشتی کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے۔ یقینا مسئلے کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی تلاش کیا جا سکتا ہے؛ تاہم امریکی ڈرون حملے کے بعد یہ عمل اور پیچھے چلا جائے گا۔ 
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ طالبان کو نئی لیڈرشپ ملنے میں خاصی دقت کا سامنا ہو گا‘ کیونکہ ملا منصور کو بھی خاصی تگ و دو کے بعد یہ منصب نصیب ہوا تھا۔ دوسر ے اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ ملا اختر منصور کا جانشین ایک ہارڈ لائنر ہو جو اپنی لیڈرشپ کا سکہ جمانے کے لیے زیادہ غیر لچکدار رویہ اختیار کرے۔ ان تمام صورتوں میں پاکستان کو صدق دل سے افغانستان میں قیام امن کے عمل کو تقویت دینی چاہیے۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے مروجہ سٹریٹیجک ڈیپتھ (STRATEGIC DEPTH) کا سکیورٹی پیراڈائم فرسودہ ہو چکا ہے۔ اس تھیوری پر عمل درآمد کی کوشش سے قیام امن کے بجا ئے الٹا نقصان ہی ہوا ہے۔ 
ہمارے جسد سیاست کا ایک بڑا المیہ یہ بن گیا ہے کہ خارجہ اور سکیورٹی پالیسیوں کی تشکیل اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے سویلین حکومتوں کی صلاحیت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور ویٹو پاور کہیں اور ہے۔ ایک فرانسیسی مدبر کا مقولہ ہے کہ جنگ جیسا سنجیدہ معاملہ محض فو ج پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس کے جواب میں ایک مورخ ابن خلدون کا کہنا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جنگ جیسے سنجیدہ عمل کو محض جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا، اس بات کا ادراک کرنے میں شرمناک حد تک ناکام رہتے ہیں کہ کسی علاقے کی سالمیت اتنا تکنیکی معاملہ ہے جسے صرف سیاستدانوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ان حوالوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان کی خارجہ اور سکیورٹی پالیسی بالخصوص خطے میں بھارت، افغانستان اور ایران کے علاوہ امریکہ سے تعلقات کے لیے حکومت کو فوج کے ساتھ مل کر فعال کردار ادا کرنا چاہیے‘ لیکن میاں صاحب 'پاناما گیٹ‘ کے بعد اتنے بے بس نظر آتے ہیں کہ خارجہ اور سکیورٹی پالیسیوں کے بارے میں کوئی عملی قدم اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں