"ANC" (space) message & send to 7575

اونٹ کس کر وٹ بیٹھتا ہے!

مر ض بڑ ھتا گیاجوں جوں دوا کی، اس سے مراد یہ نہیں کہ خدانخواستہ میاں نواز شر یف کی صحت روبہ زوال ہے تا ہم ان کی ریکوری میں چند ہفتے ضرورلگیں گے۔اس پر اپیگنڈ ے کے با وجو د کہ میاں نواز شر یف کی با ئی پاس سر جر ی ہوئی ہی نہیں اور اس حوالے سے سوشل میڈ یا پر ڈاکٹر وں کے روپ میں طر ح طر ح کے مسخروں کو لا کر کنفیو ژن پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے، گزشتہ روز وہ اپنے ڈاکٹر کے پاس یہ فر ما ئش لے کر گئے تھے کہ انھیں سفر کی اجازت دے دی جائے تا کہ وہ سرجری کے بعد مکمل صحت یا بی تک لند ن کے فلیٹ کے بجا ئے رائے ونڈ میں آ رام کر سکیں، لیکن میر ی اطلا ع کے مطابق انھیں تا حال سفر کی اجا زت نہیں ملی۔ میاں صاحب کی بیما ری تھوڑی سی پیچید ہ ہے کیو نکہ آ پر یشن سے پہلے بھی عمومی طور پر ان کی صحت ٹھیک نہیں تھی۔ وہ مرغن غذائیں کھانے اور ورزش نہ کر نے کی بنا پر ذیا بیطس اور گا ؤٹ جیسے امراض کا پہلے ہی شکا ر تھے۔وزن بڑ ھا لینے کی وجہ سے ان کی عمومی صحت کمزور ہے، لہٰذا ان کی ریکوری بھی اسی حساب سے قدر ے آ ہستہ ہی ہو گی۔
میاں صاحب ایک با ہمت اور دلیر شخصیت ہیں اور ان کے اعصاب خا صے مضبو ط ہیں۔ اسی بنا پر بغرض علاج لندن جانے سے پہلے چند ہفتوں کے دوران وہ غیر معمو لی طورپر فعال تھے ۔لیکن ملکی معاملا ت ان کی چار ہفتوں کی عدم مو جو دگی میں ہی مزید بگڑتے جا رہے ہیں ۔ مختلف سیاسی عنا صریہ تصور کر کے کہ حکومت کمزور پڑتی جا رہی ہے، فعال ہو رہے ہیں حتی کہ خو د حکمران جماعت کے کچھ ارکان قومی اسمبلی بھی بغاوت پر آما دہ نظر آتے ہیں۔دوسر ی طرف اپوزیشن بھی ادھار کھائے بیٹھی ہے اور اس میں تازہ اضا فہ علامہ پر وفیسر ڈاکٹر طاہر القا دری کا ہواہے ۔ جمعہ کی شب چیئر نگ کراس پر ان کا دھرنا جو بقول ان کے عارضی طور پر ملتوی ہوا ہے ،میں وہ اسی سال ستمبر تک حکومت کی چھٹی کی پیشگو ئی کر چکے ہیں۔دوسر ی طرف شیخ رشید احمدجو خو د ہی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ سیاستدان سے زیا د ٹی وی اینکر پرسن بن چکے ہیں، حکومت کی رخصتی کی جو لا ئی سے ستمبر کے دوران کی تا ریخ دے رہے تھے۔ شیخ صاحب کی 'ون مین تا نگہ پارٹی‘ طا ہر القادری کے ساتھ بھی ہے اور عمران خان کے ساتھ بھی کھڑی ہے۔یعنی وہ ہر حالت میں نواز شر یف کی چھٹی کرانے کے درپے ہیںاور اپنے ٹی وی انٹر ویوز میں نئے نئے بر جستہ فقر ے چست کر کے اپنا الو سید ھا کرتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القا دری بجا طور پر سانحہ ماڈل ٹا ؤن کے حوالے سے انصاف مانگ رہے ہیں ۔حکومت کی یہ تا ویل کہ اس حوالے سے ہائیکو رٹ کے جج کی سربر اہی میں بننے والے کمیشن کی رپو رٹ اس لیے شا ئع نہیں جا سکتی کیو نکہ عوامی تحر یک نے ہی ایک انفرا دی استغا ثہ دائر کیا ہوا ہے، محض عذر لنگ ہے ۔
دوسر ی طرف طا ہر القا دری کے دھر نے کی ٹائمنگ بھی غور طلب ہے ۔انھیں 2014ء کے ٹھیک دوسال بعد اب دھر نا دینے کی کیوںسو جھی ہے ؟ وجہ صاف ظا ہر ہے کہ قادری صاحب ''اوپر سے ‘‘(اصلی یا نقلی )اشارے کے بغیر کچھ نہیں کرتے۔2014کے دھر نے کے دوران انھوں نے نت نئی فر ما ئشیں کر کے اپنے مر بی چو ہدری برادران کا ناک میں دم کردیا تھا۔ راتوں رات اٹھارہ ہزار کفنوں کی سلا ئی کرانے کے علا وہ عوامی تحر یک کے لیے نان نفقہ کا بند وبست کرنا انہی کے ذمے تھا۔ پھر بھی بقول شخصے قادری صاحب کو جب تک حساس قوت کے کسی اہلکا ر کا دو روز فون نہ آ تا تو وہ دھرنا ختم کر نے کی دھمکی داغ دیتے تھے۔ انھوں نے ما ل روڈ پر اپنی حلیم پارٹی میںجس کے بعد چھوڑے گئے کچر ے کو اٹھا نے کے لیے پورا دن لگ گیا ،بجا طور پر کہا کہ حکومت پر نز عی کیفیت طاری ہے۔یہ نز عی کیفیت ''پاناما لیکس ‘‘ جس میں میاں نواز شر یف کی اولا د کے نام آ ئے ہیں کے علا وہ ان کی خرا بی صحت اور کچھ اندرونی وبیرونی صورتحا ل کی وجہ سے طا ری ہو ئی ہے ۔ اب یہ سوال بر ملا پو چھا جا رہاہے کہ ملکی معاملا ت کون چلا رہا ہے ۔پہلے خبر آ ئی تھی کہ میاں نواز شر یف کے سمدھی ، معتمد خصوصی اور عملاً نا ئب وزیر اعظم اسحق ڈار ان کی عدم مو جو دگی میں معاملا ت چلا ئیں گے لیکن پھر بو جو ہ اس کی تر دید کر دی گئی کیو نکہ وزیر داخلہ چو ہدری نثار علی خان بھی بڑے' اینٹھے خان‘ ہیں وہ خو د کو اسحق ڈار سے زیا دہ سینئر قرار دیتے ہیں۔محتر مہ مر یم نواز شر یف وزیر اعظم ہا ؤس میں واقع اپنے دفتر اور سیل کے ذریعے معاملا ت دیکھ رہی ہیں چو نکہ وہ قومی اسمبلی کی رکن نہیں ہیں؛لہٰذا ان کا کہنا ہے کہ میاں نواز شر یف نے انھیں جو ٹاسک دیئے ہیں وہ انھیں پورا کر رہی ہیں۔ میاں صاحب کی صحت کے حوالے سے آ نے والی اطلاعات بھی ان کے ذریعے ہی فلٹر ہو تی ہیں ۔
اس موقع پر فطر ی طور پر تو یہ ہو نا چاہیے تھا کہ برادر خورد وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شر یف معاملات کو کسی حد تک خو د دیکھتے لیکن بظا ہر ایسا نہیں ہے اور وہ پنجاب تک ہی محدود نظر آ تے ہیں۔ اس نفسا نفسی کے عا لم میں حکمران جما عت شتر بے مہا ر کی طر ح نظر آ رہی ہے ۔اب یہ اطلاعات آنا شروع ہو گئی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) میں84ارکان کا فارورڈ بلا ک بننے جا رہا ہے، بظاہر یہ لوگ وزیر اعظم اور وزراء کے رو یے سے نالا ں بتا ئے جا تے ہیں۔اسی بنا پر جب وزیر خزانہ محترم اسحق ڈار بجٹ پر بحث سمیٹ رہے تھے تو کورم ندارد تھا کیو نکہ حکمران جما عت سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کی کثیر تعداد ان کے رویے سے نالا ں ہے۔ ڈار صاحب، ان کے مطابق بالواسطہ طور پر سینیٹر منتخب ہو نے کے با وجود ان سے علیک سلیک کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔بجٹ اجلاس کے دوران اکثر ایسا ہوتا ہے اور ایوان میں کو رم پورا نہیںہوپاتا ۔مجھے یا د ہے کہ جب ذوالفقا ر علی بھٹو وزیر اعظم تھے اور پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی میں بھر پور اکثر یت حا صل تھی ، اس کے با وجو د عین موقع پر حکمران جماعت کو لا ئن اپ کرنے کے لیے بھٹو صاحب کے دست راست وزیر اعلیٰ پنجاب غلام مصطفی کھر سے کام لیا جا تا تھا۔ یہی رو ل خا دم اعلیٰ بھی ادا سکتے ہیں کیو نکہ وہ گز شتہ 8برس سے مسلسل پنجاب کے وزیر اعلیٰ چلے آ رہے ہیں اور مسلم لیگ(ن) کی طا قت کا مرکز بھی پنجاب ہی ہے۔ لیکن کچھ اندرونی مخبروں کا یہ دعویٰ ہے کہ میاں فیملی میں بھی گروپ بندی ہے اور اسی بنا پر شہباز شر یف کو آ گے نہیں لا یا جا رہا اور یہی گروپ انھیں عبوری طور پر بھی نواز شر یف کے جانشین کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتا ۔حالانکہ اگر معاملا ت کو سمیٹنا ہے تو وہی حقیقی چوائس ہیں ۔اگلے انتخابات میں بھی شر یف برادران کا اشتراک ہی مسلم لیگ (ن) کو کامیا بی سے ہمکنار کر سکتا ہے ۔ تازہ اطلاعات کے مطابق طوعاً و کرہاً شہباز شر یف کو ناراض ارکان کو منانے کا ٹا سک دے دیا گیا ہے۔علاوہ ازیں اسحق ڈار اور پرویز رشید کی اچانک لندن طلبی بھی معنی خیز ہے۔
موجو دہ صورتحال میں تین برس تو گز ر گئے ہیں لیکن حکومت کو اپنی باقیماند ہ مد ت پو ری کر نے میں مشکلا ت کاسامنا کر نا پڑ رہا ہے۔ لگتا ہے کہ نواز لیگ کے خلاف کئی سیاسی اور غیرسیاسی قوتیں برسرپیکا ر ہو گئی ہیں اور مبصر ین کے بقول یہ بات بھی اظہر من الشمس ہوگئی ہے کہ میاں نواز شر یف اور جنرل راحیل شر یف کے تعلقات میں سر د مہر ی آ چکی ہے ۔غا لباً میاں صاحب کو گلہ ہے کہ ' 'پاناما لیکس ‘‘ کے معاملے کو کچھ مخصوص عنا صر نے جان بوجھ کر اچھا لا ہے نیز قومی سلامتی کے نام پر خارجہ پالیسی کے بعض معاملا ت جی ایچ کیو کے پاس چلے گئے ہیں ۔ دوسر ی طر ف آ رمی چیف بر ملا کہتے ہیں کہ کر پشن کو برداشت نہیںکیاجا ئے گا کیونکہ اس سے دہشت گردی کو ہو املتی ہے اور اس حوالے سے وہ اپنے ادارے پاک فو ج میں محض چند سینئر افسروں کو علامتی طور پر قر با نی کا بکرا بنا چکے ہیں۔ فوجی قیا دت مسلم لیگ(ن) کی حکومت کی نااہلی، کر پشن اور بھارت کے بارے میں نر م رو یہ رکھنے کی بنا پر بھی خوش نہیں ہے۔
آپریشن ضر ب عضب شر وع ہو ئے دوبرس ہو چکے ہیں، اس حوالے سے فو جی اور سویلین قیا دت دونو ں کو کر یڈٹ جا تا ہے کیونکہ اس سے پہلے تو یہ طالبان کے لیے نرم گو شہ رکھتی تھیں لیکن بالآخر یہ حقیقت پو ری طرح منکشف ہو گئی کہ اگر بھا رت ہمارابیرونی دشمن ہے تو دہشت گرد ہمیں اندرونی طور پر کھوکھلا کر رہے ہیں اور ان کے آ پس میں کلا بے بھی ملے ہو ئے ہیں۔ اب میاں صاحب ایک بہت کلیدی فیصلے کی طرف بڑ ھ رہے ہیںیعنی جنر ل را حیل شریف کے جانشین کی نامز دگی یا ان کی مدت میں تو سیع کا معاملہ۔ با خبر ذرائع کے مطابق میا ں نواز شر یف اس حق میں نہیں ہیں کہ راحیل شر یف کی مدت ملا زمت میں توسیع کی جا ئے جبکہ میاں شہبا ز شر یف اور چو ہدری نثا ر علی خان جنر ل را حیل شریف کی مد ت میں ایک سال کی تو سیع کے حق میں ہیں لیکن خود فو ج کے سر برا ہ کے تر جمان یہ کہتے ہیں کہ جنر ل را حیل شر یف اپنے وقت پر رٹیا ئر ہونگے، وہ کسی قسم کی تو سیع کے حق میں نہیں۔ دیکھئے‘ اونٹ کس کر وٹ بیٹھتا ہے!

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں