"ANC" (space) message & send to 7575

تجاہل عارفانہ

مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے عجیب منطق پیش کی ہے،فرماتے ہیں کہ ڈرون حملے گزشتہ حکومتوں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔کچھ اسی قسم کی بات وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کی ہے۔انہوں نے اپنے پیش کردہ 2016-17 ء کے بجٹ کے حق میں بحث کرتے ہوئے فرمایا کہ جب 2013 ء میں میاں نواز شریف نے حکومت سنبھالی تو انہیں ایک ٹوٹی پھوٹی اقتصادی صورتحال ورثے میں ملی،2016-17 ء کے پھس پھسے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے موصوف نے مزید ارشاد کیا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا تھا۔یہ طرفہ تماشا ہے کہ تین سال تک اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد بھی برسراقتدار جماعت خارجہ امور اور ابتر اقتصادی صورتحال کے حوالے سے سابق حکومتوں کو ہی مورد الزام ٹھہرا رہی ہے۔یہاں یہ بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ تین برس میں حکومت نے خود کیا کیا؟حکومتی زعما کو میگا پراجیکٹس ،موٹر ویز،ہائی ویز،بجلی کے منصوبوں کے افتتاح اور میٹرو ٹرینیں بنانے پر بڑا ناز ہے۔ڈار صاحب کا دعویٰ ہے کہ ان کی اقتصادی پالیسیوں کے نتیجے میں ملک میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کے مترادف تمام تر خرابیوں کی جڑ سابق حکمران ہیں جبکہ موجودہ برسراقتدار حضرات نے صرف نیک نامی کمانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔امریکی نظام حکومت جس میں صدر چار سال کیلئے منتخب ہوتا ہے، ہلکے پھلکے انداز میں یہ کہا جاتا ہے کہ نئی پارٹی کے نئے صدر کی ایڈمنسٹریشن پہلے دو سال تو سابق انتظامیہ کی کوتاہیوں پر ملبہ ڈالتی رہتی ہے اور اسے تمام تر خرابیوں کی ذمہ دار قرار دیتی ہے لیکن چار سالہ مدت کے آخری دوسال میں صدر کوامریکی الیکٹرول کے سامنے اپنی کارکردگی دکھانا پڑتی ہے۔لیکن ہمارے ہا ں الٹی گنگا بہہ رہی ہے ۔سرتاج عزیز صاحب بلوچستان میں پہلے ڈرون حملے پر تو ہا ہا کار ہی مچا رہے ہیں، ان کا یہ کہنا بھی سر آنکھوں پر کہ ڈرون پروگرام پرویز مشرف کے دور میں نائن الیون کے بعد شروع ہوا۔جیسا کہ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز اپنی کتاب From banking to the thorny world of politics میں لکھتے ہیں کہ جس وقت نائن الیون کا سانحہ ہوا اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی جنرل محمود اتفاق سے امریکہ کے ہی دورے پر تھے۔سانحے کے فوری بعد امریکی نائب وزیر دفاع رچرڈ آرمٹیج نے انہیںطلب کر کے عملدرآمد کیلئے سات نکاتی ایجنڈا پاکستان پرٹھونس دیا اور جنرل محمود نے اس پر فوراً صاد کر دیا۔وہ لکھتے ہیں کہ ہم نے نہ صرف ڈرون طیاروں کی پروازوں کیلئے شمسی اور جیکب آباد ائیر بیسز دے دیںبلکہ خلیج سے افغانستان تک پرواز کیلئے محفوظ ائیر کاریڈور بھی دیدیا۔یہ پالیسی پیپلزپارٹی کے دور میںختم کر کے اڈے بند کر دیئے گئے ،تاہم ڈرون پروازیں بدستور جاری رہیں اور اب بھی جاری ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پروازیں تو عمومی تاثر کے مطابق خاموش آشیرباد سے ہوتی ہیں ،اگریہ اتنی ہی ناقابل قبول ہیں تو موجودہ حکومت انہیں ختم کرا دیتی انہیں کس نے ایسا کرنے سے روکا تھا؟۔در حقیقت ہم نے امریکہ کی غلامی قبول کی ہوئی ہے،ہماری خاکی اور سویلین قیادت اس ضمن میں زبانی کلامی احتجاج تو کرتی ہے لیکن عملی طور پر وہ تجاہل عارفانہ سے کام لے رہی ہوتی ہے۔
دوسری طرف پیپلزپارٹی کے دورحکومت میں ریمنڈ ڈیوس کے واقعے،ایبٹ آباد میں نیوی سیلز کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کی ہلاکت،سلالہ میں پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے باوجود امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں اتنی سرد مہری نہیں تھی جتنی آج ہے۔اسی طرح پاکستان خطے میں اس حد تک تنہا ہو گیا ہے کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ افغانستان بھی ہماری سرحد پربلا جواز فائرنگ کر کے اپنی عسکری قوت دکھا رہا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کے بقول سارا قصور سابق حکومتوں کا ہے یا جرنیلوں کا،جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خارجہ پالیسی کے معاملات وہ خود ہی طے کرتے ہیں حالانکہ امور خارجہ کا قلمدان میاں نواز شریف کے پاس ہے۔ خارجہ امور کے معاون خصوصی طارق فاطمی میاں نواز شریف کو بریف کرنے کیلئے لندن میں ہیں۔یقیناً میاں صاحب کو افغانستان کی صورتحال ،نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کیلئے بھارت کی جارحانہ مہم اور نئی دہلی کی یہ بودی پیشکش کہ ہم اس گروپ میں پاکستان کی شمولیت کی حمایت کرنے کو تیار ہیں کے متعلق بھی بریفنگ دی گئی ہو گی۔
مقام شکر ہے کہ یہاں بھی چین ہی ہماری مدد کو آیا اور اس نے بھارتی سیکرٹری خارجہ جے شنکر کو ٹکا سا جواب دے دیا کہ ہم بھارت کی اس کلب میں شمولیت کی حمایت نہیں کریں گے،اسے بھی ہمارے خارجہ پالیسی کے کارپرداز اپنی ڈپلومیسی کی فتح قرار دیں گے ۔ہمیں ہوش ہی نہیںہے کہ مودی سفارتی محاذ پر کیا کیا گل کھلا رہا ہے ۔جہاں تک اسحاق ڈار کی اس ڈینگ کا تعلق ہے کہ ملکی معیشت سابق حکومتوں کی نااہلی کے باوجود بہت ترقی کر گئی ہے، زمینی حقائق سے لگا نہیں کھاتی۔شاید ایک اچھے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی طرح ساون کے اندھے کو سب ہرا ہی نظر آتا ہو۔تاہم ہمارے حکمرانوں بالخصوص اسحاق ڈار کی بے حسی کا اندازہ گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں ان کے ان ریمارکس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ''دالیں مہنگی ہو گئی ہیں تو چکن کھائیں‘‘۔چونکہ بقول ان کے دال ماش کی قیمت 260 اور چکن کی 200 روپے کلو ہے۔نہ جانے ڈار صاحب کون سے پنساری کی دکان سے سودا خریدتے ہیں کہ انہیں حقیقت حال کا علم ہی نہیں ہے۔ویسے بھی ان کے ریمارکس سے انقلاب فرانس کی یاد تازہ ہو گئی ہے جب غربت کی چکی میں پسے فرانسیسیوں کو ملکہ Marie Antoinette نے یہ مشورہ دیا تھا کہ اگر وہ بریڈ خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تو کیک کھائیں۔ ڈار صاحب کے نزدیک خوشحالی کی معراج زر مبادلہ کے ذخائر میں ریکارڈ اضافہ، چاہے وہ مانگے تانگے کے ڈالروں کے ذریعے ہی ہواور بجٹ خسارے میں کمی ہی ہے۔حقیقت حال تو یہ ہے کہ تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کے باوجود حکومت کی اقتصادی کارکردگی قابل رشک نہیں ہے۔ اس کا ایک بین ثبوت بجٹ میں ہی موجود ہے کہ تین سال گزرنے کے باوجود ہماری شرح نمو میں اضافہ 4.5 فیصدسے زیادہ نہیں ہو پایا۔واضح رہے کہ مشرف دور میں جب شوکت عزیز پہلے وزیر خزانہ پھر وزیر اعظم تھے شرح نمو آٹھ فیصد تک پہنچ گئی تھی۔یہ الگ بحث ہے کہ شوکت عزیز کے دور میں ہونے والی ترقی محض ترقی معکوس ثابت ہوئی اور ملک کے اقتصادی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں نہیں ہو سکیں ۔
اب موجودہ حکومت اپنے اقتدار کے آخری دو برسوں میں داخل ہو چکی ہے لہٰذا سابق حکومتوں کو کوسنے اور اپوزیشن کی ''سازشوں‘‘کا رونا رونے کے بجائے اسے خود کچھ کمال دکھانا ہو گا لیکن آثار یہ نظر آتے ہیں کہ حکومتی اہلکار اپنی ڈفلی بجانے کے اتنے عادی ہو چکے اور شتر مرغ کی طرح زمین میں ایسے سر دئیے بیٹھے ہیں گویا کہ وہ حقیقت حال کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں۔ اس کا خمیازہ شاید انہیں اگلے انتخابات سے پہلے ہی بھگتنا پڑے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں