میاں صاحب کے سمد ھی اور معتمد خصوصی اسحق ڈار نے نوید سنائی ہے کہ وزیر اعظم عید الفطر کے ایام میں وطن لوٹ آ ئیں گے اور فی الحال رائے ونڈ میںاپنی اقامت گاہ پر آرام کر یںگے۔ سنا ہے کہ میاں صاحب کی واپسی پر ان کے بے مثال استقبال کی تیاریاں کی جا رہی ہیں ۔نواز شر یف کی واپسی ایک اچھی خبر ہے کیو نکہ پانچ ہفتوںسے وطن عزیز بغیر وزیر اعظم کے ہی چل رہا تھا ۔ میاں صاحب کے میڈیا منیجروں نے کمال مہارت سے یہ تا ثر دینے کی کو شش کی ہے کہ ان کی غیر حا ضری میں بھی معاملات احسن طریقے سے چل رہے ہیں اور خود میاں صاحب بھی بعض وزراء اور اعلیٰ سرکاری افسروں کولندن بلا کریہ تا ثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ لندن بیٹھ کر بھی معاملات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ لیکن حقیقت حال اس کے بر عکس ہے ۔اگر مدعا یہ تھا کہ میاں صاحب کی غیرحاضر ی کے دوران اسحق ڈار اورمیاں صاحب کی ہونہار صاحبزادی مر یم نواز معاملات کو دیکھ لیںگے تو یہ فارمولہ روز اول سے ہی چوپٹ ہو گیا۔ حکمران جماعت کے ارکان اسمبلی تو کجا محترم ڈار صا حب کے کا بینہ کے ساتھی بھی ان کے ہاتھ پر بیعت کر نے کو تیار نہیں ہوئے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان خود کو ڈار صاحب کے مقا بلے میں سینئر تصور کرتے ہیں اور شاذ ہی ایسے کسی اجلاس میں جاتے ہیں جو ڈار صاحب نے بلایا ہو۔ دوسر ی طرف مر یم نواز کا رول بڑ ی حد تک میاں صاحب کی صحت کے بارے میں تصاویر اور ٹویٹس تک محدودنظرآتا ہے۔
میاں صاحب کی غیر حا ضری میں ملکی حالات اندرونی اور بیرونی طور پر بہتر نہیں ہو پائے بلکہ رجعت قہقہر ی کا شکار ہیں۔ سیاسی محاذ آرائی عروج پر ہے۔عمران خان اور پیپلز پارٹی کے شعلہ نوا اور انقلابی لیکن نو آموز چیئر پرسن بلاول بھٹو زرداری خم ٹھونک کر میدان میںہیں اور اپنے والد صاحب کے بر عکس دھڑا دھڑبڑ ھکیں لگا رہے ہیں۔ ان کی طر ف سے اس امکان کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ وہ اور عمران خان عید کے بعد نواز شر یف مخالف تحریک میں ایک ہی کنٹینر پر ہو نگے۔ ''پاناماگیٹ‘‘ پر ٹی اوآرز بنانے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کی کمیٹیوں کے مذاکرات قر یباً ناکام ہو چکے ہیں۔حکومتی ارکان کا اصرار ہے کہ میاں نواز شریف کانام کسی آ ف شوز کمپنی میں سامنے نہیںآیا،لہٰذا انھیں تحقیقاتی کمیشن میں فر یق اوّل نہیں بنایا جا سکتا ۔دوسری طرف اپوزیشن مُصرہے کہ وزیر اعظم کے نام کے بغیر ٹی اوآرز بے کا ر ہیں۔پاکستان عوامی تحریک کے سر برا ہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے میرے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت دونوں نہیں چاہتیں کہ ٹی اوآرز پر سمجھو تہ ہواور کمیشن بنے کیونکہ کمیشن بنا تو اس میںاپوزیشن کے پردہ نشینوں کے نام بھی آجائیںگے۔ اس بگڑتی ہو ئی سیاسی صورتحال کے باوجو د میاں صاحب رائے ونڈ میں اپنی فیملی کے ساتھ زیادہ آرام تو محسو س کریں گے، لیکن ذہنی طور پریہ صورتحال ان کے لیے شدید ٹینشن کا باعث بھی ہوگی۔
پاکستان کی خطے میں صورتحال اور بیرون ملک ساکھ داؤ پر لگی ہو ئی ہے ۔ اس کا اندازہ ڈی جی، آئی ایس پی آ ر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم با جوہ کے جرمن ریڈیو سے اس انٹرویو سے لگایا جا سکتا ہے جس میں ان کہنا تھا کہ دنیا نے پاکستان کو دہشت گردی کا مقا بلہ کر نے کے لیے تنہا چھوڑ دیا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کی قربانیوں کی چنداں قدر نہیں کی گئی۔ اصولی طور پر ایسا بیان دفتر خارجہ کی طرف سے آنا چاہیے تھا لیکن جہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہو اور دفتر خارجہ محض پوسٹ آفس بن جائے اس بیان پرکسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن جنرل باجوہ نے جو نکتہ اٹھایا ہے وہ کافی حد تک زمینی حقائق کی عکا سی کرتا ہے۔ آخر کیو نکر امریکہ نے ہمارا ساتھ چھوڑ کر بھارت کی پیٹھ ٹھونکنی شروع کر دی ہے۔خطے میں ہمارے اپنے ہمسایوں افغانستان، ایران اور بھارت سب سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ ما سوائے چین کے ہم کسی ملک کے اپنے قر یبی دوست ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے ۔ ہمارا یہ استدلال کہ ہم بلا کم وکا ست اور بلاامتیا ز ہر قسم کی دہشت گردی کی سرکوبی کر رہے ہیں، کوئی ماننے کو تیا ر نہیں۔ پاک فوج نے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں سویلین حکومت کے طو عاً وکرہا ًتعاون سے گز شتہ دوبرس میں آپر یشن 'ضر ب عضب ‘ کے تحت دہشت گردی کی کافی حد تک بیخ کنی کی ہے۔ لیکن یہ امر یکہ یا دنیا کی لڑائی نہیں ہے بلکہ ہم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے، لہٰذا اس میں دنیا سے گلے شکوے کر نے کے بجا ئے اپناگھر ٹھیک کرنا چاہیے۔ افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی امر یکی نما ئندے رچرڈ اولسن نے جو پاکستان میں امریکہ کے سفیر بھی رہ چکے ہیں، چونکا دینے والی بات کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کوبھارت اور افغا نستان کے گٹھ جوڑ کو بیان کر نے میں مبا لغہ آ رائی سے کا م نہیں لینا چاہیے۔ امریکی نمائندے کے مطابق بھارت کا افغانستان میں اقتصادی اورفوجی رول مثبت ہے،یہ تا ثر بھی غلط ہے کہ نئی دہلی نے پاکستان میں تخریب کاری کے لیے افغان سر حد کے ساتھ24 قونصل خانے قائم کر رکھے ہیں۔ ان کے مطابق قونصل خانوں کی تعداد چار سے زیادہ نہیں ہے۔ متذکرہ بیان سے تو بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ امر یکہ نے پاکستان کے اس موقف کو یکسر رد کر دیا ہے کہ افغانستان کے معاملا ت میں بھارت کا کو ئی رول نہیں ہونا چاہیے۔ اولسن نے پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دیگر ممالک کی فکر کر نے کے بجائے اپنی فکر کر ے اور ہر قسم کے دہشت گردوں کی سرکوبی کرنے کے لیے کام کر ے۔دوسری طرف جنرل راحیل شریف نے پھر واضح کیا ہے حقا نی نیٹ ورک سمیت پاکستان میں کسی کو بھی' پراکسی وار‘ نہیںلڑنے دی جائے گی ۔اس حوالے سے مشیر خارجہ سرتاج عزیز فرماتے ہیں کہ امر یکہ میں مقیم ایک سابق پاکستانی سفیر امر یکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو مخالف لابنگ کے ذریعے سبو تاژ کر رہے ہیں۔ یہ سفیر یقیناً حسین حقانی ہی ہیں جنہوں نے سرتاج عزیز کے بیان پر شدید رد عمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پاکستان اپنی ناکامیوں کاملبہ ان پر کیوں ڈال رہی ہے۔ وہ تو محض ایک امر یکی تھنک ٹینک میں محقق کے طور پرکام کر رہے ہیں۔ حقانی صاحب ہوں یا رچرڈاولسن، ان کی باتیں ناپسند یدہ ہونے کے باوجود توجہ طلب ہیں۔ یقیناً امریکہ نے افغانستان میں اپنا الو سیدھا کرنے کے بعد پینترا بد ل لیا ہے۔ لیکن اس پر نوحہ گری کرنے کے بجائے ہمیں اپنے معاملات درست کرنا پڑیںگے کیونکہ ممالک کے درمیان دوستی عشق ومحبت نہیں بلکہ مفادات کی آبیاری کا کھیل ہوتا ہے۔
جہاں تک اس دعوے کا تعلق ہے کہ ہم نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے، حقائق سے لگا نہیںکھاتا۔کراچی میں گزشتہ ہفتے معروف قوال امجد صابری کا قتل اور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے اویس شاہ کا اغوا اس بات کا ثبوت ہے کہ مذہب کی من مانی تاویل کر نے والے دہشت گرد دند ناتے پھر رہے ہیں اور زخمی سانپ کی طر ح پھنکار رہے ہیں۔ اگر واقعی افغانستان اور بھارت میں تربیت پانے والے پاکستان میں دہشت گردی اور کھل کھیل رہے ہیں تو انھیںکیفرکردار تک پہنچانے کے لیے سویلین اور فوجی قیادت میں تال میل بڑ ھانے کی ضرورت ہے۔ میاں نواز شریف کو وطن واپسی پر کچھ بنیادی فیصلے کرنا ہوںگے، ان میں سرفہرست ان کا اپنا مستقبل ہے۔ اگر خرابی صحت کی بنا پر وہ ذمہ داری نہیں نبھا سکتے تو پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلا کر عبوری طور پر ہی سہی انھیں نیا وزیر اعظم مقرر کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے، ضروری نہیں کہ اس وزیر اعظم کا تعلق شر یف فیملی سے ہی ہو۔ زرداری صاحب نے اپنے دور میں اپنے خاندان سے ہٹ کر وزرائے اعظم بنائے جس سے کوئی طوفان نہیں آ گیاتھا، بلکہ انھوںنے تمام ترمشکلات کے باوجود اپنی حکومت کی پانچ سالہ مدت پوری کی۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ زرداری صاحب خود صدر بن گئے تھے۔ میاں صاحب کو بھی کسی ایسے فارمولے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ جہاں تک وزارت خارجہ کا تعلق ہے، وقت آ گیا ہے کہ کل وقتی وزیر خارجہ مقررکیاجائے اور محض یہ کہہ کر جان نہ چھڑائی جائے کہ ہمیں تو فوج کچھ نہیں کرنے دیتی۔اسی طرح نیشنل سکیورٹی کونسل کو پارلیمنٹ کے ایکٹ کے تحت فعال بنایا جائے اور اس کا ایک باقاعدہ سیکرٹریٹ بنایا جائے۔ یہ ادارہ فوجی اور سویلین سٹیک ہولڈروں کے درمیان اتفاق رائے پیداکر نے کے لیے انتہائی ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ نیشنل سکیو رٹی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل(ر) ناصر جنجوعہ نہ جانے کہاں غائب ہیں، وہ کسی اجلاس میں بھی نظر نہیں آ رہے، ان کے لیے تلاش گمشدہ کا اشتہا ر دینا پڑے گا۔