خدمت خلق کے پیکر،خادم اعظم عبد الستار ایدھی کے انتقال پر پوری قوم بجا طور پر سوگوار ہے۔ وزیراعظم نوازشر یف سے لے کر آرمی چیف جنرل راحیل شر یف تک،آصف علی زرداری سے لے کر عمران خان تک سب ہی قومی رہنماؤں نے پاکستان کی پہچان اس شخصیت کے دنیا سے رخصت ہو نے پر اظہا ر رنج وغم کیا ہے۔ ایدھی اپنی وصیت کے مطابق اپنے استعمال شدہ کپڑوں میں ہی ایدھی ولیج میں اپنی ہی کھودی ہوئی قبر میں دفن ہو چکے ہیں لیکن ایدھی فاؤنڈیشن کی صورت میں ان کا مشن جاری و ساری رہے گا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عبدالستا ر ایدھی کو انسانیت کی خدمت کے اعتراف میں نوبل انعام ملنا چاہیے۔ یقیناً ایدھی صاحب جو نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں دکھی انسانیت کی خد مت کے حوالے سے احترام کی نگاہ سے دیکھے جا تے تھے اس انعام کے اہل ٹھہرتے ہیں ،لیکن میری رائے میں ان کی عظمت اس انعام سے بھی بالا تر ہے۔ میری عبدالستا ر ایدھی سے دو ملاقاتیں خادم اعلیٰ پنجاب میاںشہباز شریف کی تیسری زوجہ محترمہ تہمینہ درانی کے گلبرگ لا ہور والے گھر میں ہوئیں۔وہ ان کی عقیدت کی حد تک مرید تھیں اوران دنوں ایدھی کی سوانح عمری لکھ رہی تھیں۔ میں نے عبدالستا ر ایدھی کوکم گو اور انتہائی سادہ شخصیت پایا۔ یہ وہ دور تھا جب کراچی کی کچھ جماعتیں اور مذ ہب کی مرضی کی تاویل کر کے اپنی دکان چمکانے والے کچھ لوگ انہیں متنازعہ بنانے کی کو شش کر رہے تھے۔ عبدالستار ایدھی کا کہنا تھا، ان کے لیے مشعل راہ قائد اعظم محمد علی جناح اور مدر ٹریسا ہیں اور کوئی ان کو ان کے مشن سے نہیں روک سکتا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ عبدالستار ایدھی کو بابائے قوم محمد علی جنا ح کی کونسی ادا زیادہ پسند تھی، میرے فہم کے مطابق قائد اعظم جب علامہ اقبال کے خواب کی تعبیرکے لیے پاکستان بنانے کے مشن پرگامزن ہوئے تو وہ
بے سر و سامان تھے اور بقول قائد ان کی جیب میں چند کھو ٹے سکے ہی تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے مسلمانان ہندکو مسلم لیگ کے بینر تلے اکٹھا کر کے جہد مسلسل اور عزم مصمم کے ساتھ پاکستان حا صل کر لیا۔ اسی طرح اید ھی نے فلاح عامہ کا کام بغیر وسائل کے شروع کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جب وہ بھارتی ریاست گجرات سے ہجرت کرکے کرا چی آئے تو انہوں نے تھوک مارکیٹ میں کپڑے کا کام کرنا شروع کیا۔ بچپن میںان کی والدہ انہیں روزانہ 2 پیسے جیب خرچ دیتی تھیں اور ان کو ہدایت تھی کہ ایک پیسہ خود پرخرچ کرلو اور دوسرا پیسہ کسی ضرورت مند کو دے دینا۔ دوسروںکو دینے کے اسی جذبے نے ان کی زندگی کی کایا پلٹ دی۔ اید ھی صاحب کے آ خری الفاظ بھی یہی تھے کہ میرے ملک کے غریبوں کا خیال رکھنا۔
پاکستان ایسا ملک ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں کے عوام میں رفاہ عامہ کے لیے مال خر چ کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے جبکہ ہمارے حکمران طبقے اور اشرافیہ میں دولت کی جمع کر نے اور دنیاوی جاہ و جلا ل کی ہوس بھی بے پناہ ہے، ان میں غریبوں کے بارے میں مخصوص قسم کی بے حسی بھی پائی جاتی ہے۔ ایک وہ پاکستان ہے جس میں ایک محدود لیکن انتہائی با اثر طبقہ لینڈکروزر، مر سڈیز اور بی ایم ڈبلیو گاڑیوں میں سفرکرنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ ان کی کئی کئی کنال بلکہ ایکڑوں پر پھیلی کوٹھیاں ان کی پرتعیش زندگی کی غمازی کرتی ہیں۔ یہ طبقہ چھٹیاں بیرون ملک منانے اور اپنی اولاد کو بیرون ملک تعلیم دلوانے کو ترجیح دیتا ہے۔ حتیٰ کہ یہ لوگ علاج کے لیے بھی پاکستان کے ہسپتالوں پر اعتماد نہیں کرتے۔ لیکن ایدھی نے بیرون ملک علاج کی پیشکش ہر بار ٹھکرا دی۔ اس کی وجہ صاف ظا ہر ہے کہ عبدالستار ایدھی اس ملک کے نمائند ے تھے جو غریبوں کا پاکستان ہے۔ وہ پاکستان کے کروڑوں غریبوں کے ساتھ سانس لیتے تھے۔ ان کے انتقال پر ہر سیاسی رہنما یہ کہہ رہا ہے کہ ہمیں ایدھی صاحب کی زندگی کو مشعل راہ بناناچاہیے، یہ بڑی اچھی سوچ ہے لیکن اصلاح کا آغاز اپنے گھر سے کرنا چاہیے جس کے لیے ہمارا دولت مند طبقہ قطعاً تیار نہیں۔ ہمارے سیاسی نظام کاسب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ عام آدمی کی فلا ح و بہبود کے لیے بجٹ میں رکھی گئی رقوم کی شر ح دنیا میں کم ترین ہے، یہاں تک کہ صحت ، تعلیم اور پینے کے صاف پانی جیسی مدوں میں رکھی گئی رقوم اقوام متحدہ کے مقررکردہ اہداف سے بھی کم ترین ہیں۔ا سی طر ح شرح نمو کے تناسب سے ٹیکس کی شر ح بھی بہت کم ہے۔ یہی وہ خلا ہے جس کو پُر کر نے کے لیے عبدالستار ایدھی جیسی شخصیات سامنے آتی ہیںکیونکہ جب حکومتیں امن وامان ،علا ج معالجے کی سہولتیںاور ایمرجنسی سروسز فراہم نہ کر رہی ہوں تو عبدالستار ایدھی جیسی شخصیات کی ضرورت پیش آ تی ہے جو اپنی ذات کی نفی کر کے خدمت کے جذبوں سے بھر پور ہوتی ہیں۔ یقیناً اس ماحول میں محدود وسائل سے دنیا کا سب سے بڑا ایمبولینس کا نیٹ ورک بنانا اید ھی کا شاندار کارنامہ ہے۔ یہاںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایدھی اور ان کی فاؤنڈ یشن کو لوگ پیسے کیوں دیتے تھے۔ اس کی وجہ یقیناً یہی ہے کہ دینے والے کو اعتماد اور یقین تھا کہ اس کا دیا ہوا پیسہ ہڑپ نہیں ہو جائے گا بلکہ نیک،اعلیٰ وارفع مقصد کے لیے استعمال ہوگا اور واقعی اید ھی کے قا ئم کردہ خدمت خلق کے نیٹ ورک میں بارہ سو کے قریب ایمبولینسز، آٹھ ہسپتال، نفسیاتی مریضوں اور لاوارث بچوںکے لیے ''اپنا گھر‘‘ کے نام سے 15عمارتیں اور غریبوںکے لیے 17سے زیا دہ ''شیلٹر ہومز‘‘ موجود ہیں۔ لاوارث لاشوں کے کفن دفن کا انتظام بھی ایدھی کا عظیم کارنامہ ہے، وطن عزیز میں بعض این جی اوز بھی بظاہر نیک مقاصد کے لیے بیرونی ڈونرز سے مال اکٹھا کرتی ہیں لیکن ان این جی اوز کو چلانے والوں کے اخراجات اور اللوں تللوںکے بعد اصل مقاصدکے لیے کوئی قابل قدر رقم نہیں بچتی۔ اسی طرح بعض سیاسی جماعتیں رفاہ عامہ کے نام پر کھالیں اکٹھی کرتی ہیں لیکن یہ بھی بعض صورتوں میں کاروبار بن گیا ہے اور چونکہ یہ پیسہ سیاسی یا ذاتی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا تھا اس لیے کراچی جیسے بڑے شہر میں کھالیں اکٹھی کر نے کے لیے لڑائی،دھینگامشتی، چھینا جھپٹی حتیٰ کہ قتل وغارت معمول بن گیا تھا۔ اس کے برعکس عوام کو یقین تھا کہ اید ھی صاحب پیسے کو صرف فلاح و بہبود کے لیے استعمال کریںگے تو جیسا کہ وہ خود کہتے تھے کہ انھیں مانگے بغیر ہی مل جاتا ہے۔ وطن عزیز میںاس حو الے سے زیادہ مثالیں موجود نہیں ہیں۔ دوسری طرف عمران خان کی سیاست سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن عطیات کے ذریعے لاہور اور پشاور میں شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتالوں کا قیام ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ خان صاحب نے بھی ثابت کیا ہے کہ انسان کی نیت ٹھیک ہو اور دل میںکھو ٹ نہ ہو تو انسانیت کے نام پر پاکستانی قوم دامے درمے سخنے مدد کر تی ہے۔ ایدھی صاحب کی جب حالت زیادہ بگڑی تو مجھے محترمہ تہمینہ درانی کی لندن سے میاں نواز شریف کے نام لکھے خط کی کاپی موصول ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ ایدھی صاحب کی تدفین سرکاری اعزاز کے ساتھ کی جائے۔ محترمہ تہمینہ درانی اپنی صاحبزادی کی عیادت کے لیے گئی ہوئی تھیں، اید ھی صاحب کے انتقال کی خبر سن کر انھوں نے بتایا کہ وہ واپس آرہی ہیں۔ایدھی کو زبردست انتظامی صلاحیتوں پر بھی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے ایدھی فاؤنڈیشن کے نام پر رفاہ عامہ کا وسیع وعریض ڈھانچہ کھڑا کیا، اب یہ ان کی بیوہ بلقیس ایدھی اور صاحبزادے فیصل ایدھی کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ ایدھی صاحب کے مشن کو آگے بڑھائیں اور عوام جس اعتماد اور پیار سے ایدھی کو نوازتے تھے اسے برقرار رکھنے کے لیے انتہائی محنت اور استقامت سے کام کریں۔