اس مرتبہ یوم آزادی بھرپور جوش و خروش سے منانے کی تیاریاں تھیں،سرکاری و غیر سرکاری میڈیا اس ضمن میں پیش پیش تھالیکن سانحہ کوئٹہ کے تناظر میں یہ تیاریاں کچھ گہنا سی گئیں۔یوں14 اگست کے موقع پرروایتی جشن تو نہ ہوا البتہ یوم آزادی باوقار طریقے سے منایا گیا۔عمومی طور پر میڈیا میں کالم نگار ،تجزیہ کار اور اینکرز ہمیشہ یہ جائزہ لیتے ہیں کہ آزادی کے بعد ہم نے کیا کچھ کھویا کیا پایا؟ان میں سے اکثر مملکت خداداد کو نعمت ہی تصور کرتے ہیںلیکن چندمایوس عناصرپر مشتمل طبقے کو اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے۔ان کے مطابق سول و فوجی حکمرانوں اور بہرہ مند طبقے نے پاکستان کو خوب لوٹا ہے اور غریب آدمی کو کچھ حاصل نہیں ہوا ،اخلاقی اقدار انحطاط کا شکار ہیںاور ملک میں دہشتگردی کا دور دورہ ہے۔دراصل معاملہ ایسے ہی ہے کہ گلاس پانی سے آدھا بھر اہو ا یا آدھا خالی ہے۔اگر آدھے بھرے ہوئے گلاس کا جائزہ لیں تو پاکستان نیوکلیئر طاقت اور چھٹی بڑی فوج کا حامل ہے۔دفاعی طور پر اپنی حفاظت کی پوری صلاحیت رکھتاہے۔اقتصادی محاذ پر غربت اور پسماندگی کے وسیع سمندر میں خوشحالی کے کچھ جزیرے موجود ہیں لیکن مجموعی طورپر عوام کامعیار زندگی قیام پاکستان کے وقت سے بہت بہتر ہے۔گاڑیوںکی ریل پیل کے علاوہ موٹرسائیکل،موبائل فون،سیٹیلائٹ ٹی وی ایسی اشیا روز مرہ کی ضرورت بن چکی ہیںجن سے ہر شہری مستفید ہوا چاہتا ہے۔دوسری طرف ایک بہت بڑی نعمت پاکستان میں جمہوریت کا دور دورہ ہے۔برسوں کی آمریت کے بعد جمہوری ادارے پھل پھول رہے ہیںاور پاکستان میںجتنا میڈیاآج آزاد ہے اس کی تیسری دنیا میں بالعموم اور اسلامی دنیا میں بالخصوص کم ہی مثال ملتی ہے۔تحریروتقریر کی اس حد تک آزادی ہے کہ بعض ناقدین اسے مادر پدر آزادی سے تعبیر کرتے ہیں،نیز وطن عزیز میں کوئی بھی سیاسی قیدی نہیں ہے۔آزاد عدلیہ کی مثال یہ ہے کہ عدالتی حکم عدولی پر ایک منتخب وزیر اعظم کو گھر جانا پڑ جاتا ہے۔ یوم آزادی کے موقع پر آدھا گلاس جو خالی ہے اس کے محرکات کا جائزہ لینا انتہائی ضروری ہے۔پاکستان کئی حوالوں سے اقوام عالم کی صف میں پیچھے جا رہا ہے،وطن عزیز میں بانیان پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیرہونا تو کجا ہم اس سے کافی دور ہٹتے جا رہے ہیں۔ فیض کے بقول:
یہ داغ داغ اجالا،یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا،یہ وہ سحرتو نہیں
قائد اعظم، ؒ علامہ اقبالؒکے افکار کی روشنی میں ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں جیو اور جینے دو کی روایت ہواور تمام پاکستانی عزت و وقار کی زندگی گزار سکیں لیکن ہوا اس کے برعکس۔۔اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں مذہب کا نام لیکر ہی اقدار کو پامال کیا گیا۔جمہوریت کے ذریعے بننے والے اس ملک میں فوجی آمروں نے گھر کر لیااور بانیان پاکستان کی تمام اقدار کو اپنے بوٹوں تلے روند ڈالا۔فیلڈ مارشل ایوب خان نے ترقی کے نام پر ایسا سوانگ رچایا کہ آدھا ملک ہی ہمارے ہاتھوں سے جاتا رہا۔جنرل ضیا ء الحق نے ایک طرف تو مذہبی قنوطیت پسندی کے نام پر پوری قوم میں تفرقہ ڈال دیادوسری طرف ان کے ذہن میں یہ فتور آ گیا کہ اسلام میں جمہوریت کا کوئی وجود نہیںاور وہ نوے کروڑ مسلمانوں کے نمائندہ ہیں۔ضیا ء الحق خود تو سی ون 30 طیارے کے پراسرار حادثے میں اللہ کو پیارے ہو گئے لیکن اپنے پیچھے کلاشنکوف کلچر،ہیروئن کلچر،فرقہ واریت اور نسلی و لسانی تفرقوں کی سوغاتیں چھوڑ گئے۔بعد ازاں جنرل پرویز مشرف نے بھی حقیقی جمہوریت اور روشن خیالی کے نام پر نو سال تک عوام پر سواری کی ۔یہ ڈکٹیٹر حضرات دہشتگردی کی ایسی لعنت چھوڑ گئے جو قوم کو گھن کی طرح کھا رہی ہے۔
سیاستدانوں نے بھی عوام اور اس ملک کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا،زیادہ تر سویلین حکمرانوں نے محض اپنی جیبیں بھریں اور اقتدار کو دوام بخشنے کے سوا کوئی اچھی روایات قائم نہیں کیں،جمہوریت کا یہ مطلب لیا گیا کہ ہم کسی کے سامنے جوابدہ نہیں کیونکہ عوام نے ہمیں منتخب کیا ہے لہٰذا ہم سیاہ و سفید کے مالک ہیں ،ہمیں کوئی نہیں پوچھ سکتا ،یہی وجہ ہے کہ موجودہ وزیر اعظم پارلیمنٹ میں جانا تو کجا کابینہ کے اجلاس بلانے سے بھی کتراتے ہیں۔یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں سات سات ماہ کابینہ کا اجلاس ہی نہیں ہوتا۔بدقسمتی سے وطن عزیز کے آزاد ہونے کے بعد قریباً آدھی مدت تک فوجی و نیم فوجی آمروں کے طفیل جمہوری کلچر پروان ہی نہیں چڑھ سکا۔موجودہ اپوزیشن جس میں عمران خان پیش پیش ہیں،ہر قیمت پر حکومت کو گرانے کے درپے رہتے ہیں اور سیاستدانوں کا ایک مخصوص طبقہ عسکری لیڈر شپ کی زلف کے اسیر ہونے کا دعویدار اور خواہش مند رہتا ہے۔
مقام شکر ہے کہ افواج پاکستان اب حکمرانی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں،اگرچہ کہ انہیں ہمارے جسد سیاست اور میڈیا کے بہت سے لوگ دعوت دینے میں سرگرم رہتے ہیں۔یہ بھی ایک المیہ ہے کہ سابق فوجی سربراہوں کی بوالعجبیوںاور سیاستدانوں کی اپنی کوتاہیوں کی بنا پر وطن عزیز میں اب تک افواج پاکستان پر سویلین کنٹرول کا اصول جا گزیں نہیں ہو سکا۔پاکستان جمہوری ملک ضرور ہے لیکن ایک نیشنل سکیورٹی سٹیٹ بھی ہے جہاں خارجہ حکمت عملی اور سکیورٹی کے معاملات میں افواج پاکستان کو ویٹو پاور حاصل ہے۔یہ بھی اچھی بات ہے کہ موجودہ فوجی اور سویلین قیادت کے درمیان تال میل موجود ہے جس کی وجہ سے گاڑی چل رہی ہے۔تاہم وطن عزیز میں نئی صدی کے جدید تقاضوں کے مطابق پالیسیاں وضع کرنے میں ہم بہت پیچھے ہیںجب تک اقتصادی ترقی اور تجارت کو مد نظر رکھتے ہوئے خارجہ حکمت عملی اور سکیورٹی پالیسی تشکیل نہیں دی جائیگی غربت اور پسماندگی میں اضافہ ہی ہوگا۔
یہ درست ہے کہ دہشتگردی کے عفریت سے جان چھڑانے کیلئے کوششیں کی گئی ہیں اور کافی حد تک اس میں کمی بھی آئی ہے لیکن سانحہ کوئٹہ سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بڑے اہتمام سے بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان پر بہت کم عمل درآمد ہوا ہے اور ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔نیشنل ایکشن پلان بظاہر تو چند نکات پر مشتمل کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے لیکن اس پر عمل درآمد کیلئے جس یکسوئی کی ضرورت ہے وہ کہیں نظر نہیں آرہی۔اس بات کا گلہ بجا طور پر فوج کے سربراہ نے بھی کیا ہے لیکن اس حوالے سے بعض کام تو فوج کے بھی کرنے کے ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک تعلیم عام نہیں ہوتی اور سوشل سیکٹر پر بجٹ کا خاطر خواہ حصہ خرچ نہیں کیا جاتاغربت اور پسماندگی کا خاتمہ نہیں ہوگا اور وطن عزیز میں دہشتگردی کی نرسریاں پنپتی رہیں گی۔اسی طرح دہشتگردی پھیلانے والے ہر قسم کے گروہ کی بلا کم و کاست اور بلا تفریق سرکوبی کے بغیر کام نہیں چلے گا۔ ہماری فوجی اور سویلین قیادت کواب یہ بنیادی حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ اقتصادی ترقی کے بغیر نہ تو تعلیم عام کی جا سکے گی اور نہ ہی روزگار فراہم ہو پائے گا۔یوم آزادی کے موقع پر بانیان پاکستان کو خراج عقیدت پیش کر نے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنا قبلہ درست کر لیںاور واقعی ایسی پالیسیاں اپنائیں جن سے تمام اہل وطن محسوس کریں کہ وہ اقتدار میں برابر کے حصہ داراور آزاد ملک کے فیوض و برکات سے مستفید ہو رہے ہیں۔