وزیر قانون پنجاب رانا ثنا ء اللہ نے بڑے پتے کی بات کی ہے کہ عمران خان پاکستان کے 'ڈونلڈ ٹرمپ‘ ہیں لیکن پاکستان کے اصل 'ڈونلڈ ٹرمپ‘ تو ان کی پارٹی کے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان ثابت ہو رہے ہیں۔غالباً رانا صاحب اس لئے بھی لحاظ کر رہے ہیں کہ چودھری نثار ان کے سیاسی باس میاں شہباز شریف کے یار غار ہیں اور ان میں یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں ہی زیادہ سوشل نہیں ہیںاور بہت کم لوگ ان سے ذاتی دوستی کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔آج کل امریکی انتخابی مہم کے بارے میں رائے عامہ کے تمام جائزوں کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں اتنے پیچھے رہ گئے ہیں کہ نومبر میں صدارتی انتخاب سے پہلے ہی ان کابوریا بستر گول ہوتا نظر آ رہا ہے۔ری پبلکن پارٹی کے ان کے بہت سے ساتھی بھی ان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں اور بعض تو اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ ٹرمپ کی جگہ نیا امیدوار چننا چاہتے ہیں اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پارٹی کا فنڈ ٹرمپ پر خرچ کرنے کے بجائے اپنے سینیٹ کے امیداروں پر خرچ کر دیا جائے۔انہوں نے ٹرمپ کو یہ دھمکی بھی لگا دی ہے کہ وہ 5 ستمبر تک اپنا رویہ درست کر لیں ورنہ ہم ان کے نائب صدارت کے امیدوار مائیک پنس(PENCE) کو صدارتی امیدوار نامزد کر دینگے۔ٹرمپ کے زوال کا فوری باعث ڈیمو کریٹک کنونشن میں پاکستانی نژاد امریکی کیپٹن ہمایوں خان کے والد خضر خان کی تقریر بنی جس میں انہوں نے ٹرمپ کو آڑے ہاتھوں لیا، اس کے علاوہ ٹرمپ کے مسلمانوں کیخلاف مسلسل نفرت کے اظہار سے بھی ان کا گراف نیچے جا رہا ہے۔بعض امریکی ماہرین نفسیات کا دعویٰ ہے کہ وہ این پی ڈی یعنی Narsissistic Personality Disorder کا شکار ہیں۔ اس مرض کو عام فہم زبان میں ان لوگوں کے بارے میں استعمال کیا جاتا ہے جو نرگسیت کا شکار ہوتے ہیںاور انہیں اپنی اہمیت کے بارے میں جنون کی حد تک گھمنڈ ہوتا ہے۔
اگر پنجاب ہاؤس میں چودھری نثار علی خان کی تواتر سے ہونیوالی پریس کانفرنسوں کے مندرجات کا تجزیہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی بہت حد تک خود سے محبت کا شکار نظر آتے ہیں۔چند روز قبل جب یہ خبر سامنے آئی کہ میاں نواز شریف کے معتمد خصوصی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی آصف زرداری کے ساتھ دبئی میں ملاقات ہوئی ہے جس میں ڈاکٹر عاصم حسین کا معاملہ اور ایان علی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی بات زیر بحث آئی ہے تو چودھری صاحب آگ بگولہ ہو گئے،یہ بات ان کی طبع نازک پر گراں گزری کہ ان سے بالا بالاپیپلز پارٹی کے ساتھ 'مک مکا‘ کیوں کیا جا رہا ہے۔اپنی پر یس کانفر نس میں انھوں نے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں لیڈ رز آف اپو زیشن اعتزاز احسن اور سید خو رشید شاہ کو آڑے ہا تھوں لیا اور ان پر ذاتی نوعیت کے رکیک حملے کیے اور یہ بھی فر مایا کہ وہ چوہدری اعتزاز احسن سے مناظر ہ کرنے کے لیے بھی تیا ر ہیں۔ یہ ''انکشاف‘‘ کر کے کہ بلا ول بھٹو اور ایان علی کے ایئر ٹکٹ ایک ہی اکا ؤنٹ سے خرید ے جاتے ہیں، نہ جانے انھوں نے کس کی خد مت کی ہے ۔بجا ئے یہ کہ چودھری نثار علی خان نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے ٹا سک فورس ، عسکر ی اورسیاسی قیادت کے درمیان ملا قاتوں کے حوالے سے میڈ یا کو بر یف کرتے انھوں نے اپنے ناقد ین کے نکتہ نگاہ کو ایک فقر ے میں ہی ردکر دیا کہ وہ ہوا میں باتیں کر رہے ہیں اور انھوں نے تونیشنل ایکشن پلان کا مطا لعہ ہی نہیں کیا۔اسی روز فو جی قیا دت نے بھی نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ ہو نے کا گلہ کیا تھا تو کیا چو دھری نثا ر علی خان یہ بھی کہیں گے کہ فو جی قیا دت نے بھی نیشنل ایکشن پلان کو نہیں پڑ ھا ۔میڈ یا نے اس بات کو خاص طور پر نوٹ کیا تھا کہ چودھری نثار علی خان وزیر داخلہ ہو تے ہو ئے بھی سا نحہ کو ئٹہ کے روز وزیر اعظم نوازشر یف کے ہمراہ وہاں نہیں گئے تھے ۔ با خبر لو گوں کے مطابق میاں نواز شر یف کا روانگی کے وقت ان سے رابطہ نہیں ہو پایا کیو نکہ وہ اپنے معمول کے مطابق پہلے ٹر یڈ مل پر جو گنگ کرتے ہیںاس کے بعد پنجاب ہا ؤس میں لنچ اور وہیں دفتر لگا تے ہیںاور اپنے اصلی دفتر یعنی وزارت داخلہ میں بہت کم وقت دیتے ہیں ان کے پاس مو با ئل فو ن تو ہو تا ہے لیکن بقول ان کے سیکرٹری کے وہ فون سننے کے لیے نہیں صرف کال کر نے کے لیے استعمال کر تے ہیں لہٰذا زیا دہ وقت بند ہی رہتا ہے۔
اکثر حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ میاں نواز شر یف جو اپنے ارد گرد مبا رک سلامت کر نے والے ساتھیوں کا جمگھٹا لگا ئے رکھتے ہیں ،چودھری نثا ر علی خان جیسی خو د سر شخصیت کو کس طر ح بر داشت کر سکتے ہیں۔ ان حلقوں کا دعویٰ ہے کہ چودھری نثار علی خان جی ایچ کیو کے قر یب ہیں اسی لیے ان کے ناز ونخرے برداشت کئے جا تے ہیں لیکن دوسر ی طرف ایسے وقت میں جب عمران خان اور طاہر القا در ی کی صورت میں اپوزیشن میاں نواز شر یف کے ارد گرد اپنا حصار تنگ کر رہی ہے، پیپلز پا رٹی کے ساتھ بیک چینل کھو لنا ان کی سیا سی مجبوری ہے۔ دوسر ی طرف پیپلز پا رٹی جو خو د کو ملک کی سب سے بڑی جما عت سمجھتی ہے سیاسی کشتی میں اس حد تک ارتعا ش نہیں پید ا کر نا چا ہتی کہ وہ خود ہی ڈوب جا ئے، اسے تو خود کوابھی منظم کر نا ہے لہٰذا وہ نہیں چاہے گی کہ سسٹم میں رخنہ پڑ ے ۔
موجودہ حالات میں یہ بات تو اب واضح ہو گئی ہے کہ میاں نوازشر یف آ رمی چیف جنر ل را حیل شریف کی مدت ملازمت میں تو سیع کر رہے ہیں اور نہ ہی جنرل صاحب مانگ رہے ہیں ،البتہ انھیں فیلڈ مارشل بنانے کی پیشکش کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا را حیل شر یف دہشت گردی کے خلا ف جنگ میں اپنے قا بل قدر کردار کے پس منظر میں یہ اعلیٰ عہد ہ قبو ل کر تے ہیں یا نہیں؟ ۔اس صورتحال میں نہ صرف عمران خان کی تحر یک احتساب کے مو ثر ہونے کے امکا نات معدوم ہیں بلکہ چو دھری نثار علی خان کو بھی صبر سے ہی کام لیتے ہو ئے پہلے سے بھی کم تنخو اہ پر کام کر نا پڑے گا ۔قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کا کام قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر)ناصر جنجوعہ کے سپرد کر دیا گیا ہے اور بعض مبصرین کے مطابق چودھری صاحب کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے۔لگتا ہے کہ وزیر اعظم کیلئے بھی اپنے وزیر داخلہ کی 'اداؤں‘ سے صرف نظر کرنا اب ممکن نہیں تھا۔