"ANC" (space) message & send to 7575

خیبر پختونخوا۔۔۔۔۔۔’’تبدیلی آ گئی‘‘

صحافی برادری بالخصوص ایڈیٹروں کا خیبر پختونخوا جانا کم ہی ہو تا ہے۔ان کی نما ئند ہ تنظیمو ں کے زیا دہ تر اجلاس لا ہو ر ،کرا چی یا اسلام آ با د میں ہی ہو تے ہیں ۔شاید اسی بنا ء پرایڈ یٹروں کی نمائندہ تنظیم سی پی این ای کے صدر ضیا ء شاہد اور سیکرٹری جنر ل اعجاز الحق نے مجلس قا ئمہ کا اجلاس پشاور میں منعقد کر نے کا فیصلہ کیا ۔جمعرات کو ایڈیٹرز حضرا ت نے پشا ور کے معروف ہو ٹل پرل کا نٹی نینٹل میں اپنے اجلاس کا انعقا د کیا ۔وہاں جانے کامقصد نہ صرف عمومی طور پر ایڈیٹروں اور اخبارات کو درپیش مسائل کا جا ئز ہ لینا تھا بلکہ خیبر پختو نخو اکے ایڈ یٹروں کی کتھا کو بھی سننا تھا ،اسی بنا پر اجلاس میں انھیں خصوصی طور پر مد عو کیا گیا ۔ مقامی ایڈیٹرز بہت خوش تھے کہ ملک کے بڑے بڑے شہروں میں رہنے والے اخبارات کے ایڈیٹروں کو ان کا بھی خیال آیا۔اکثر ایڈیٹروں نے نہ صرف اپنے مسا ئل بیان کیے بلکہ سی پی این ای کی نومنتخب قیا دت کے پشاور میں اجلاس کرنے کے فیصلے کو سر اہا ۔سٹینڈ نگ کمیٹی کے اکثر ارکان کا خیال تھا کہ ہمیںبلوچستان بھی جانا چا ہیے اوروہاں بھی اجلا س کر نا چاہیے جس پر بشمول صدر سب نے صاد کہا ۔ سی پی این ای جو ایڈ یٹروں کی واحد تنظیم ہے اس کا میں خو د بھی چار مر تبہ صدر رہا ہوں ،ہمیشہ ایڈیٹروں کی طر ح غر یب تنظیم رہی ہے ۔لیکن مختلف ادوار میں حکومتوںسے ملنے والی گرانٹس کی بنا پر اب ایک امیر تنظیم بن چکی ہے اور اسلام آ باد میں اپنے ہیڈ کوارٹرز کی تعمیر کے منصوبے پر بھی عمل پیرا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنوں نے ہی ایک نئی بحث شروع کر دی ہے ۔یہ طر فہ تما شا ہے کہ اے پی این ایس جو کہ اخباری مالکان اور پبلشرز کی تنظیم ہے، کے کا ر پردازان اس بات پر سیخ پا ہیں کہ سی پی این ای اشتہاروں کی بات کیوں کرتی ہے،ایڈیٹروں کا کام تو صرف ایڈیٹروں کے مسائل تک محدود رہنا چاہیے۔دوسری طرف سی پی این ای کااستدلال سید ھا سادا ہے کہ کمر شل اشتہا رات تو یقینا اے پی این ایس کامخصوص دائر ہ کار ہے نیز یہ تنظیم اخبارات کو اشتہا ری کمپنیوں سے بروقت ادائیگیوں کے لیے کلیئرنس ہا ؤس ہے لیکن جب حکو متیں اخبارات کو ان کی پالیسی کی بنا ء پر اشتہا رات سے محروم رکھیں تو سی پی این ای کا آواز اٹھا نا اس کے فرا ئض منصبی میں شامل ہے ۔یہ بحث اے پی این ایس اور سی پی این ای کے عہد یداران آپس میں کر تے تو بہتر تھا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ 
اجلاس کے موقع پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے سی پی این ای کے ارکان کے اعزاز میں وزیر اعلیٰ ہاؤس میں پر تکلف عشائیہ بھی دیا ۔ اس سے پہلے انھوں نے اجلاس میں اپنے وزیر اطلا عات مشتا ق غنی اور انتہا ئی فعال سیکر ٹر ی اطلا عات طاہر حسین کو خصوصی طورپر بھجو ایا ۔لگتا تھا کہ خیبر پختو نخوا کی حکومت نے بالا ٓخر صحا فیوں کو انگیج کر نے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔میر ی وہاں کے چیف سیکر ٹری امجد خان سے بھی ملا قات ہو ئی میری ان سے ذاتی یاداللہ ہے، انتہائی دبنگ شخصیت ہیں اور ٹھو نک بجا کر فیصلے کر تے ہیں ۔وہ قواعد وضوابط پر سختی سے عمل کرتے ہیں ، ان کا تعلق بھی خیبر پختونخوا سے ہی ہے ۔،سرکاری معا ملا ت میں بے جا سیا سی مداخلت کو برداشت نہیں کرتے اور سب سے احسن بات یہ ہے کہ انھیں ان معاملا ت میں تحر یک انصاف کے سر بر اہ عمران خان کی بھر پو ر تا ئید اور حما یت حا صل ہو تی ہے ۔وزیر اعلیٰ پرویز خٹک جو خود بھی ایک ایما ندار سیاست دان ہیں، اس حوالے سے اپنے چیف سیکر ٹر ی کو سپو رٹ کر تے ہیں ۔اس امر کا ایک کڑا امتحان اس وقت آیا جب چیف سیکر ٹر ی نے بینک آف خیبرجس میں خیبر پختو نخوا کی حکومت ستر فیصد کی شراکت دار ہے کو ٹھیک کر نے کی ٹھا نی ۔اس حوالے سے بینک کے نئے سر برا ہ شمس القیوم نے پہلی مر تبہ ٹیکس کٹو تی کے بعد ایک ارب سے بھی زیا دہ خا لص منا فع کمایا ۔ خیبر پختو نخوا میں فنا نس کا محکمہ جما عت اسلامی کے پاس ہے ۔ پہلے سراج الحق خو د سینئر وزیر کے ساتھ ساتھ وزیر خزا نہ بھی تھے اور ان کے جماعت اسلامی کے امیر بننے کے بعدسے مظفر سیدوزیر خزانہ ہیں۔ باخبر ذرا ئع کے مطابق جما عت اسلامی کے بہت سے اللے تللے بینک کی جیب سے ہی پو رے ہو تے تھے اور اس حوالے سے وہاں خو ب بھر تیاں بھی کی گئیں ۔جب 2014ء میں مقرر ہو نے والے ایم ڈی شمس القیوم نے وہا ں صفا ئی شروع کی تو ان کے خلا ف میڈیا میں بھی مہم چلا دی گئی لیکن تحر یک انصاف کے سر برا ہ عمران خان، وزیر اعلیٰ خیبر پختو نخوا اورچیف سیکر ٹر ی نے بینک کی نئی انتظا میہ کی بھر پو ر حما یت کی ۔جما عت اسلامی نے دھمکی دی کہ اگر ایم ڈی کو فارغ نہ کیا گیا تو وہ مخلو ط حکومت کو خیر با د کہہ دیں گے لیکن عمران خان نے فیصلہ کیا کہ اگر حکومت جاتی ہے تو جا ئے لیکن غلط کام نہیں کراونگا۔
پرویز خٹک نے، جو بڑے نر م لہجے میں گفتگو کرتے ہیں، عشا ئیہ سے پہلے ہی صحافیوں پر واضح کر دیا کہ وہ آ ج لمبی بات کر یں گے، وہ پو ری تیا ری کے ساتھ آ ئے تھے اور ایک گھنٹے سے بھی زائد اپنی بر یفنگ میں انھوں نے تفصیل سے بتا یا کہ ان کی حکومت صوبے میں کیا کیا اصلا حا ت نا فذ کر چکی ہے ۔ اس موقع پر سی پی این ای کے صدر ضیا شاہد نے سوال کیا کہ آپ نے جو جو اصلاحات نافذ کیں اور کارنامے سر انجام دئیے ہیں ان کے متعلق آپ کے صوبے سے باہر تو کوئی نہیں جا نتا،اس پر پرویز خٹک کا دعویٰ تھا کہ تبد یلی لانے سے پہلے وہ اپنی ڈ فلی نہیں بجانا چا ہتے تھے لیکن اب جبکہ بقول ان کے تبد یلی ا ٓچکی ہے ، انھوں نے میڈ یا کو اعتما د میں لینے کا فیصلہ کیا ۔اس حوالے سے انھوں نے خیبر پختو نخوا میں پو لیس اصلاحات ، احتساب بیو رو،پٹواری کلچر کے خاتمے،خیبر پختونخوا لیمی ٹیشن ترمیمی ایکٹ2016 کی منظوری ،نجی قرضوں پر سود وکرپشن کے خاتمے اور بلین ٹری سونامی منصوبے کے حوالے سے بتایا۔انہوں نے کہا کہ کو ئی بھی شخص جو حکومتی کام میں بد دیا نتی یا بے قاعد گی کی شکا یت کر ے گا نہ صرف اس کا نام خفیہ رکھا جا ئے گا بلکہ اسے لو ٹی ہو ئی دولت کی بازیا بی میں سے25فیصد حصہ دیا جائے گا ۔وزیر اعلیٰ نے بتا یا کہ پری کیورمنٹ اورسر کا ری ٹھیکوں کو بالکل صاف شفاف اور آن لائن کر دیا گیا جس بنا پرمڈ ل مین اور مخصوص لوگوں کو کنٹریکٹ دینے کا معا ملہ سر ے سے ہی ختم ہو گیا ہے۔ جہاں تک پشاور شہر کا تعلق ہے ۔یہ عروس البلا د کراچی یا لا ہو ر کی طر ح تو نہیں بنا لیکن جس انداز سے وہاں نئی سڑ کیں ،با ئی پاس بنے ہیں اور تجا وزات کا بلا امتیاز صفا یا کیا گیا ہے اس سے شہر کی حا لت میں نما یا ں تبدیلی آ ئی ہے ۔ پشاور کی انتظا میہ نے اس حوالے سے ایک بڑے مقا می صحا فتی گروپ کے زیر قبضہ سرکاری زمین کو واگزار کرانے میں بھی کو ئی تا مل نہیں بر تا ،یقینا خیبر پختو نخوا میں ہو نے والی اصلا حات سے باقی ملک اس طرح نا واقف نہیں ہے جیسا کہ وفاق اور پنجاب اخباری اور الیکٹر انک تشہیر اور بر یفنگ کے ذریعے اپنا پیغام بھر پو ر طر یقے سے عوام تک پہنچاتے رہتے ہیں ۔اب خیبر پختو نخو ا کی حکومت نے بھی اس حوالے سے اشتہاری مہم شروع کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے انکشا ف کیا کہ اس ضمن میں صوبے کے محدود وسائل کے باوجود ایک خطیر رقم بھی مخصوص کی گئی ہے۔ ظا ہر ہے کہ یہ خبر سی پی این ای کے ارکان کے لیے خو شی کا باعث تھی اور یقینا اس میں سی پی این ای کی قیا دت کی کا وشیںبھی شامل ہیں۔ 
وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے جو ایک کا روباری گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، بتا یا کہ ان کا اسلام آباد کے علا وہ لاہو ر ڈی ایچ اے میں بھی اپنا گھر ہے۔ وہ ایچی سن کا لج سے تعلیم یافتہ اور اس دوران کئی برس لاہو ر میں گزارنے کی وجہ سے آ دھے لاہوری ہیں ۔یقینا ان کا مقا بلہ خا دم اعلیٰ سے بھی ہے ۔لیکن خیبر پختو نخوا کی روایا ت پنجاب سے کچھ مختلف ہیں ،یہاں کے حکمرانوں کو نہ صرف اپنی جماعت کی قیا دت اور کا رکنوں میں گھل مل کر رہنا پڑتا ہے بلکہ بیوروکریسی اور عوام کے ساتھ بھی 'اوپن ہاؤس‘ پالیسی رکھنا پڑ تی ہے۔
وزیراعلیٰ نے صحا فیوں کی چپلی کباب ،نمکین گوشت اور سا گ سے تواضع کی ۔کھانے کے بعد وزیر اعلیٰ نے سگر یٹ سلگا لیا ،میرے استفسار پر انھوںنے کہا کہ' چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر سگریٹ لگی ہوئی ‘۔اگرچہ ملک کے آئین کے تحت مشتر کہ مفادات کو نسل موجو د ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کے صوبوں کادورہ کریں۔لیکن اس وقت تو خان صاحب،طاہر القا دری اور شیخ رشید کی شعلہ نو ائی اور وزیر اعظم کی 'پاناماگیٹ ‘ کی بے لاگ تحقیقات کے بارے میں لیت ولعل اور ٹال مٹو ل نے پو رے سیاسی ما حو ل کو مکدر کر رکھا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں