"ANC" (space) message & send to 7575

مائنس ون؟

وطن عزیزمیں نفسا نفسی کا ما حول پید ا کر نے کی پو ری کوشش کی جا رہی ہے ۔عمران خان اورعلامہ طاہر القا دری تو حکومت کو گرا نے کے لیے ادھار کھائے بیٹھے ہیں ۔خان صاحب جلسے کر رہے ہیں جبکہ علا مہ صاحب ویڈ یو لنک کے ذریعے جلسیاں کر رہے ہیں ۔ عوامی مسلم لیگ کے واحد رکن اسمبلی شیخ رشید احمد بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ ان کے مطابق عید قر بان سے پہلے میاں صاحب کی سیاسی قر بانی ہو جا ئے گی ۔غا لباً یہ فقر ہ ان کابڑا پسند یدہ ہے اور دوسال قبل بھی انھوں نے عید قر بان سے پہلے قربانی کا نعر ہ دیا تھا ۔سونے پہ سہاگہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین ثابت ہوئے ہیں،انہوں نے اپنے ویڈیو لنک خطاب میں پاکستان اور پاک فوج کو ننگی گالیاں دی ہیںاور اجتماع میں شامل خواتین و حضرات سے پاکستان کے خلاف نعرے بازی کرائی،اس کے ایما پر ایم کیو ایم کے غنڈوں نے نجی چینلز کے دفاتر پر مسلح حملے بھی کئے۔دوسری طرف ملک انوا ع واقسام کی افواہوں کی زد میں ہے ۔ کو ئی کہتا ہے کہ میاں نواز شر یف خرابی صحت کی بنا پر استعفیٰ دے دیں گے ۔ بعض تجز یہ کاراپنے پروگراموںمیں ببانگ دہل دعویٰ کر تے ہیں کہ فوج میاں نواز شر یف کو کان سے پکڑ کر باہر نکالنے والی ہے اور کچھ کا خیال ہے کہ سپر یم کو رٹ اور الیکشن کمیشن میں ریفرنسوں کے حوالے سے ویسے ہی وزیرا عظم کا بوریا بستر گول ہو نے والاہے ۔ جواباً حکومتی بھونپوطلا ل چودھر ی اور دانیال عزیز حکومت کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑ ے ہو ئے افراد کوپا گل تک قرار دینے سے بھی اجتناب نہیں کرتے۔ وزیر اطلاعات پر ویز رشیدبھی اپنے مخصوص نرم و لطیف لہجے میں ہی اپو زیشن کو بے نقط سناتے ہیں۔ ادھر آ صف علی زرداری بھی کہتے ہیں کہ 'پاناماگیٹ‘کے معا ملے میںدودھ کا دودھ اور پانی کا پا نی ہونا چاہیے ۔لیکن ان کے دست راست رحمن ملک کا کہنا ہے کہ پیپلز پا رٹی تحر یک چلائے گی لیکن کنٹینر الگ ہو گا ۔ اس تنا ظر میں دیکھا جا ئے تو فو ج کا موڈ بھی اتنا اچھا نہیں ہے ۔
سانحہ کو ئٹہ جس میں بلوچستان کے وکلا کی قریباً پوری سینئر کھیپ دہشت گردی کی نذر ہو گئی ،الزام تراشیوں کے حوالے سے فٹبال بنا ہوا ہے ۔فوجی قیا دت سول حکومت کو سا نحہ کو ئٹہ کے تنا ظر میں نیشنل ایکشن پلا ن پر عمل درآمد نہ ہو نے پر مو ردالزام ٹھہراتی اور کور کما نڈرزبھی اس حوالے سے آئینی لحاظ سے اپنے سویلین کمانڈرانچیف پر نکتہ چینی کرتے ہیں۔ یہ حقیقت سب پر واضح ہے کہ باقی صوبوں کے بر عکس بلو چستان میں عملی طور پر فو ج کی حکمرا نی چلتی ہے ۔لیکن اتنی بڑ ی ٹریجڈی کے بعد محض ایک ا ٓئی جی کو ٹرا نسفر کیا گیا ہے ۔کو ئی یہ ماننے کو تیا رہی نہیں کہ دہشت گردوں کا بروقت سراغ لگانے میں انٹیلی جنس ناکامی کے علا وہ کچھ دیگر عوامل بھی شا مل ہیں۔میاں نواز شر یف نے فوج کی نکتہ چینی کے ردعمل کے طورپر قومی سلامتی کے مشیرلیفٹیننٹ جنرل (ر) نا صر جنجو عہ کو نیشنل ایکشن پلان عملدرآمد کمیٹی کا بھی سر برا ہ بنا دیا ہے، دیکھا جائے تو نیشنل ایکشن پلان کے بعض اہم اور بنیا دی نکا ت پر عمل درآمد نہ ہو نے کے تمام فر یق ہی ذمہ دار ہیں ۔ گز شتہ ڈھا ئی بر س کے دوران وزیر دا خلہ چو ہدر ی نثا ر علی خان صرف اسی چکر میں رہے کہ یہ پلان وزارت داخلہ کے ما تحت ہے ۔ شرو ع میں تو میاں نواز شر یف کو ہی اس کی قیا دت کر ناتھی اور اس حوالے سے پا رلیمنٹ میں فو جی عدالتوں کو آ ئینی وقانونی کو ردیا گیا اور نیپ پر عمل درآمد کے لئے15کمیٹیاں بھی قا ئم کی گئیں ۔ میاں نواز شر یف نے وزیر داخلہ کو عمل درآمد کا اختیار تو دے دیا لیکن ساتھ ہی چوہدری نثار اور ان کی 'کٹی‘ ہو گئی۔اسی طر ح 2009 ء میں بننے والانیکٹا (نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی)کا معا ملہ بھی عضو معطل بنا ہوا ہے ۔بعض تجز یہ کا ر وں کا کہنا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان بڑ ی عجلت میںبنا یا گیا تھا نیز یہ کہ چو ہدری نثار علی خان کے ماتحت کو ئی بھی کمانڈر بیٹھنے کو تیا ر نہیں اور اسی بنا پراس پر کو ئی عملی پیش رفت نہیں ہو پا ئی ۔اب جبکہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجو عہ کو اس کا سر برا ہ بنا یا گیا ہے اور پیر کو کمیٹی کا اجلاس بھی ہو گیاتھا جس میں بلوچستان میں دہشتگردوں کی مالی معاونت کے حوالے سے بریفنگ دی گئی اور خصوصی عدالتوں کا آرڈیننس دوبارہ نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا،یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ نیکٹا جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کا کام کر یگا جو معلومات کے تبادلے اور شیئرنگ کا کام کرے گا،دہشتگردوں کی ریڈ بک تیار کی جائے گی،نیکٹا کو مضبوط بنانے کیلئے وفاق جلد فنڈز فراہم کرے گا۔ قبل ازیں دہشت گردی پر قابو پانے کے معاملات میاں نواز شر یف اور جنر ل راحیل شر یف کے درمیان ون آن ون میٹنگز میںطے ہوتے رہے۔لیکن دہشت گردی ایک ایساناسورہے جس کامحض میٹنگز اور انتظامی معاملا ت سے خا تمہ نہیں ہو سکتا ۔
سابق پو لیس افسر طارق کھو سہ جو سکیو رٹی معاملات پرگہری نظر رکھتے اور اکثر لکھتے بھی رہتے ہیں ، نے ایک انگریزی روزنامہ میں اپنے تازہ کالم میں بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ جہا ں سول حکومتوں نے مستعدی کا مظا ہر ہ نہیں کیا وہاں نیشنل ایکشن پلان کے بعض نکا ت فو ج اور انٹیلی جنس ایجنسیوںکے مر ہون منت تھے ۔مثا ل کے طور پر نیپ کے ایجنڈے میں نان سٹیٹ ایکٹرزکا قلع قمع کر نا تھا اورغیر قانونی قرار دی جا نے والی جہا د ی تنظیموں کونئے ناموں کے ساتھ آپر یٹ کرنے سے باز رکھنا تھا ۔لیکن عملی طور پرفو ج اور اس کے انٹیلی جنس اداروں نے کو ئی عملی قدم اٹھا یا اور نہ صوبائی حکومتوں کی کو ئی اعانت کی ،یقیناً ہم جب تک اچھے اور بر ے دہشت گردوں کا فرق روا رکھیں گے دہشتگرد ی کا کیونکر خا تمہ ہو سکے گا ؟۔ کھوسہ صاحب کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت بنیا دی طور پرنیکٹا کو فعا ل بنانے میں ناکام رہی ہے ۔ یہ ادارہ جو تکنیکی طور پر وزیر اعظم کے ماتحت ہے، وزیر داخلہ اپنی جا ئیدادسمجھ کر اپنے پاس رکھنے پر مصر ہیں، نیکٹا کا سر برا ہ نہ ہو نے کے برابر ہے ۔ حتیٰ کہ نیشنل سکیو رٹی کمیٹی میں اسے مد عو ہی نہیں کیا جا تا ۔ایسے لگتا ہے ہمارے سویلین اور متعلقہ فوجی ادارے میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں اور دوملا ؤں کی اس لڑا ئی میں بلند بانگ دعوؤں کے باوجوددہشت گرد ی اور کراچی میں غنڈہ گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا اژدھا پھنکا ر رہاہے ۔وقت آ گیا ہے کہ حکومت الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے حوالے سے بنیادی فیصلے کر ڈالے۔ایم کیو ایم کو قومی دھارے میں لانے کی کوششیں اب تک سعی لاحاصل ہی ثابت ہوئی ہیں کیونکہ اس لسانی جماعت کی طنابیں لندن سے الطاف حسین ہی ہلاتے ہیں،اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ایم کیو ایم کی لیڈر شپ کو مائنس ون فارمولا اپنانے کاالٹی میٹم دے دیا جائے۔ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے اگرچہ گزشتہ روز پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم پاکستان کی طرف سے پاکستان مخالف نعروں، میڈیا ہاؤسز پر حملہ ، تشدد کرنے والوں اور ایم کیو ایم لندن سے لاتعلقی کا اعلان کر کے بظاہر مائنس ون فارمولا کی بنیاد رکھ دی ہے لیکن انہیں الطاف حسین سے برملا اور واشگاف الفاظ میں لا تعلقی کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ 
فو ج کے سر برا ہ اب اپنی مدت ملازمت ختم ہو نے سے پہلے بطور آ رمی چیف چند ما ہ کے مہمان ہیں۔ وہ اپنی مدت ملازمت میں تو سیع مانگ رہے ہیں اور نہ ہی تو سیع کی جارہی ہے ۔ لگتا ہے کہ بعض سیاسی عنا صر اور میڈ یا میں ان کے بزعم خودحواری اس صورتحا ل میں نواز شر یف حکومت کی گرتی ہو ئی دیوار کو ایک دھکا اور دیکرگرانا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب میاں نواز شریف بھی ہنوز'پاناما گیٹ‘ کے حوالے سے اپنی پاکدامنی ثابت نہیں کر پا ئے ۔ آئند ہ چند ہفتے میاں صاحب پر بھاری ہو سکتے ہیں لیکن اس سے زیا دہ وہ لو گ جو میاں نواز شر یف کے ساتھ جمہو ریت کا بھی بستر گو ل کر نے کے درپے ہیں کامیاب ہو تے نظر نہیں آ تے کیو نکہ فو ج اگر ایک طرف اپنے دائر ہ کا ر میں تو سیع کر تی جا رہی ہے تو دوسری طرف وہ جمہو ری حکومت کو گرا نے کی غلطی کیو نکر کر ے گی ؟۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں