یقینا الطاف حسین کے گرد گھیرا تنگ ہو گیا ہے اورعروس البلادکرا چی میں اب وہ کچھ دیکھنے کومل رہا ہے جس کاتین سال قبل دہشت گردوں ،بھتہ خوروں اور ٹا رگٹ کلرز کے خلا ف آپر یشن شر وع ہو نے سے پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔یہ دن بھی دیکھنے کو ملا، جس طر ح امر یکہ کے ہا تھوں صدام حسین کے انخلا کے بعد بغداد میں اس کے مجسمے گرا ئے گئے با لکل اسی طر ح کرا چی کو الطاف سے پاک کیا جا رہا ہے ۔کرا چی آپر یشن باقاعدہ شروع کر نے کا کریڈٹ وزیراعظم میاں نواز شریف کو ہی جا تا ہے جنہو ںنے دسمبر 2013ء میں وزیر دفا ع خواجہ آ صف اوروزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے ہمرا ہ کرا چی کا دور ہ کیا اور ایم کیو ایم اور پیپلز پا رٹی کی رضامند ی سے رینجرز کے تعاون سے آپر یشن کے آ غاز کا اعلان کیا ۔ اس موقع پر جب میاںنواز شر یف ،قا ئم علی شاہ اور ڈاکٹر فاروق ستا ر گورنر ہا ؤس میںایک ہی صف میں بیٹھے میڈ یا کو بر یف کر رہے تھے تو میں بھی وہاں مو جود تھا ۔تا ہم عملی میدان میں دہشت گردوں اور بھتہ خوروں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچا نے کا سہرا رینجرز کے سر ہے ۔اس ضمن میں میجر جنر ل بلال اکبر اور ان کے پیش رو میجرجنر ل رضوان اختر جو اس وقت ڈی جی، آ ئی ایس آ ئی ہیں کا کردارنا قابل فراموش ہے ۔لیکن اس ضمن میں سب سے زیا دہ 'کر یڈ ٹ ‘ خودایم کیو ایم کے قا ئد الطا ف حسین کے نام ہے جو نوشتہ دیوار پڑ ھنے میں یکسرناکام رہے ،لند ن میں بیٹھ کر انھوں نے نہ تو فاروق ستا ر کی قیا دت میں ایم کیو ایم کی مقامی قیادت کو مکمل طور پر با اختیا ر کیا اور نہ ہی اپنے منفی رو یے میں کو ئی تبد یلی لا نے کی ذرہ برابر کوشش کی۔جوں جوں دوا کی مر ض بڑھتا گیا کے مترادف جب وہ تمام حد یں پھلا نگ گئے تو ہا ئیکو رٹ کے احکا مات کے ذریعے الطاف حسین کی ہرزہ سرائیاں اور لن ترا نیاں ٹی وی چینلز پر نشر کر نے اور اخبارات میں شا ئع کر نے پر پا بند ی لگا دی گئی لیکن ان کی چیخ وپکار میں اضا فہ ہی ہو تا گیا ۔ 22اگست اس لحا ظ سے ڈراپ سین ثا بت ہوا جب نام نہا د قا ئد تحر یک نے اپنے پاؤں پر کلہا ڑی مارتے ہو ئے ہرزہ سرا ئی کر نے کے اپنے ہی قا ئم کردہ ما ضی کے تمام ریکا رڈ زکومات دے دی ۔ انھوں نے نہ صرف پاکستان اور پاک فوج کو بے نقط گالیاں بکیں بلکہ وہاں موجود ٹیلی فونک خطاب سننے والے مٹی کے مادھو ؤںسے پاکستان کے خلاف نعر ے بھی لگو ادیئے اورمعاملا ت اس وقت مزید خراب ہو گئے جب انھوںنے وہاں پر مو جو دخواتین وحضرات کو بعض چینلز کے دفا تر پرحملہ آور ہو نے کا حکم دے دیا کیو نکہ وہ بوجو ہ ان کی پبلسٹی کر نے سے انکا ر ی تھے ۔
ایک وقت وہ بھی تھا جب الطاف حسین کے ایک اشارے پر تمام چینلزاور قر یباً سب ہی اخبارات سجدہ سہو کر دیتے تھے اور اپنی معمول کی ٹرانسمیشن روک کر ان کی ہر ادا لا ئیو دکھا نے پر مجبور تھے اور جو چینل ان کے سامنے سر نہ جھکا تا اسے کیبل آپر یٹرزکے ذریعے بند کرادیا جا تا تھا ۔ یہ 90کی دہا ئی کے شروع کی بات ہے جب میا ں نواز شر یف وزیر اعظم تھے۔ الطاف حسین اس وقت کرا چی کے سب سے بڑ ے انگریزی اور اردو کے اخبار کی کو ریج سے ناراض ہو گئے حا لا نکہ ان اخباروں میں ایم کیو ایم کے شعبہ مخبرات سے سر خیاں اور ڈسپلے فیکس کیے جاتے تھے اور وہاں قا ئد کے حکم پر من وعن عمل درآمد کیا جا تا تھا ۔الطاف حسین کے حکم پر ان دونوں اخبارات کی تقسیم کرا چی میں بند ہو گئی ۔ اس حوالے سے اے پی این ایس اور سی پی این ای کا کرا چی میں مشتر کہ اجلا س بلا یا گیا جس میںفیصلہ کیا گیا کہ نائن زیر و جا کر الطا ف حسین سے مذ اکرات کر کے یہ 'پابندی ‘ختم کرائی جا ئے۔ مجھے اچھی طر ح یا د ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا، برادرم الیاس شاکر کے ذریعے الطاف حسین سے وقت طے کیا گیا اورافطاری کے بعد ہم وہاں پہنچے ۔وفد میںبطور صدر سی پی این ای میرے علاوہ اے پی این ایس کے صدر فر ہاد زیدی ، میر جا وید ر حمن اور محمود العزیزشامل تھے۔ الطاف حسین میٹنگ کے آ غاز میں ہی اس بات پر آ گ بگو لہ ہو گئے کہ ڈان کے مدارالمہام حمید ہارون یہاں کیوںموجود نہیں؟ انھیں حا ضر کیا جا ئے، جس پرانھیں فو ن کر کے بلا یا گیا۔ 12گھنٹے کے مذاکرات کے دوران ہمیں الطاف حسین کی کئی تقا ریر سننا پڑ یںاورمذاکرات اس وقت تک کامیا ب نہیں ہو ئے جب تک دونوں اخبا رات کے مالکان نے غیر مشروط معافی نہیں ما نگی ۔ 'نوائے وقت ‘ اس لحاظ سے منفرد اخبا ر تھا کہ اس نے سجد ہ سہو نہیں کیا، اسی بنا پر کرا چی میں اس کے دفتر پر خو د کش حملہ ہوا، اس کے بعد راکٹ حملہ اور پھر دفتر کو نذر آ تش کرد یا گیا ۔ یہ سب کچھ لندن سے قا ئد تحر یک کے حکم پر ہی ہو رہا تھا ۔آ ج اللہ کے کر م سے صورتحال یکسر مختلف ہے اور اخبارات اور چینلز نہ صرف الطاف حسین کا بلیک آ ؤٹ کر رہے ہیں بلکہ ایم کیو ایم کو کڑ ی تنقید کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے اور شہر میں لگے الطاف حسین کے بت گرادیئے گئے ہیں،تصویر یں اکھا ڑ دی گئی ہیں۔ شنید ہے کہ الطاف حسین کے خلا ف سپر یم کورٹ میں ریفر نس دائر کر دیا گیاہے اور عمران فاروق قتل کیس کی بھی ازسر نوپیروی شروع کر دی گئی ہے۔
دوسر ی طرف ڈاکٹر فاروق ستار رینجرز کی مختصر 'مہمان نوازی‘ کے بعد الطاف حسین اور لند ن کی رابطہ کمیٹی سے 'طلاق ‘ کا اعلان کر چکے ہیں لیکن لگتا ہے کہ معا ملہ اتنا بھی سید ھا نہیں ہے ۔الطاف حسین لندن سے امر یکہ اور جنو بی افر یقہ جیسے ممالک میں خطاب کر کے پاکستان کے خلا ف مسلسل زہر اگل رہے ہیں، اس امر کے باوجو د کہ ایم کیو ایم کا ووٹ بینک پہلے سے کم ہوا ہے، لیکن یہ کہنا کہ پاکستان میں مہا جر ان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں ،زمینی حقا ئق کے منا فی ہو گا ۔الطاف حسین اور ایم کیو ایم لسانیت کی بنیاد پر ایک سو چ کانام ہے۔ اس سو چ کا پہلی مر تبہ برملا اظہاراس وقت ہوا جب 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وزیر اعلیٰ ممتاز بھٹو نے سند ھ میں سند ھی زبان نا فذ کر نے کی کوشش کی تھی جس پر اردو بو لنے والوں نے ایجی ٹیشن شروع کر دی اور یہ نعر ہ لگا یا: 'اردو کا جنا زہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘ ۔آل پاکستان مہا جر سٹو ڈنٹس آرگنا ئز یشن کے صدر الطاف حسین نے قیام پاکستان کے وقت اور بعد میں بھارت سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین کی جا ئز یا مفروضوں پر مبنی شکا یا ت کواپنے مذموم مقا صد کے لیے استعمال کر نا شروع کر دیا۔ بعدازاں جماعت اسلامی کا سیا سی تو ڑ کر نے کے لیے ڈکٹیٹر ضیا ء الحق اور ان کے وزیر اعلیٰ سند ھ غو ث علی شاہ کرا چی میں ایم کیو ایم کی بنیا د رکھنے میں ممدومعا ون ثابت ہو ئے ۔ آجکل 'ما ئنس ون‘ فارمولے کا بڑ اچر چا ہے۔ اگر پاکستان میں بیک جنبش قلم کسی پا رٹی کے سر برا ہ کو ہٹا کر کام چل سکتا ہوتا تو کو ئی خا ص مسئلہ نہیں تھا، لیکن کیا یہ تصو ر کیا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ما ئنس نواز شر یف ، تحریک انصاف ما ئنس عمران خا ن ،پیپلز پا رٹی مائنس زرداری /بھٹو ،مسلم لیگ(ق) ما ئنس چوہدری برادران چل سکتی ہیں؟شاید جما عت اسلامی واحد جماعت ہے جہاں مائنس ون فارمو لہ نا فذالعمل ہوجا تا ہے ۔لیکن یہ جما عت پارلیمنٹ میں کتنی نشستیں حا صل کر تی ہے ،یہ سب کو معلوم ہے ۔اب شاید بھتہ ما فیا ،اغوا برا ئے تا وان اور دہشت گردی کر نے والوں سے کسی حد تک چھٹکا را ہو جا ئے لیکن ایم کیو ایم جو ملک کی چو تھی بڑ ی جما عت ہے سے چھٹکا را اتنا آسان نہیں ہو گا ۔ البتہ سپر یم کو رٹ کے ریفر نس کے ذریعے ایم کیوایم کی لیڈر شپ کو مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ کو ئی نیا بورڈ لگا کر اپنی دکان چمکا ئیں، صرف اس طر یقے سے ہی الطاف حسین سے معنو ی طور پر چھٹکا را ممکن ہو سکتا ہے ۔ماضی میں ذوالفقا ر علی بھٹونے فروری 1975ء میں حیات محمد شیر پا ؤ کے قتل کے بعد نیشنل عوامی پارٹی کو ریفر نس کے ذریعے کالعدم قرار دلوایا تھا ۔لیکن اس کی جگہ این ڈی پی اور بعدازاں اے این پی نے لی، جس کے سر برا ہ آ ج بھی ولی خان کے صاحبزادے اسفند یا رولی ہیں ۔ خان عبدالغفارکے خدائی خدمت گاروں کی کوکھ سے جنم لینے والی یہ جما عت کئی بار حکومتوں اور اپوزیشن میں رہی لیکن وہ سوچ جو کہ سر حدی گاند ھی چھوڑ گئے تھے آ ج بھی اس کی رو ح ہے۔