' فنانشل ٹائمز ‘میں حال ہی میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ امریکہ میں ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانیہ میں لیبر پارٹی کے لیڈر جرمی برنارڈ کوربن کے درمیان یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں نے ہی سائیڈ لائن سے آ کر امریکہ اور برطانیہ میں پارٹیوں کی کمان سنبھالی ہے۔اخبار کا کہنا ہے کہ ان دونوں حضرات نے نفاق کے بیج بونے کے علاوہ اپنی اپنی جماعت میںنظریاتی کنفیوژن پیدا کر دی ہے جس کے مستقبل میںجمہوریت کیلئے انتہائی منفی اثرات برآمد ہونگے۔رپورٹ کے مطابق ٹرمپ وائٹ ہاؤس اور جرمی کوربن ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ پہنچنے میں کامیاب نہیں بھی ہو تے تو انہوں نے مجموعی طور پر ان دونوں ملکوں کے سیاسی نظام کو نقصان پہنچایا ہے۔اخبار کا ٹیپ کا بند یہ ہے کہ صحت مند جمہوریتوں کیلئے قابل اعتماد اور با اعتبار اپوزیشن کا وجود ضروری ہے تاکہ غلط پالیسیوں پر حکومتوں کا احتساب کیا جا سکے لیکن امریکہ اور برطانیہ میں اپوزیشن کا یہ بنیادی فریضہ ٹھیک انداز سے ادا نہیں کیا جا رہا۔برطانیہ میں'بریگزٹ‘ سے انخلا کے بعد وزیر اعظم بننے والی تھریسا مے کو اقتدار میں آئے ہوئے دو ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن برطانیہ نے 'بریگزٹ‘کے بارے میں کوئی پیش رفت نہیں کی ۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ شایدجرمی کوربن کی قیادت میں لیبر اپوزیشن اس معاملے کو ٹھیک طرح سے اٹھاتی ہی نہیں ہے اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لیبر پارٹی کی لیڈرشپ اندر سے برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کی مخالف ہے۔جہاںایک طرف کوربن ذاتی حملے کرنے پر یقین نہیں رکھتا لیکن دوسری جانب ٹرمپ کا حال یکسر مختلف ہے، اپنے مخالفین پر رکیک ذاتی حملے کرنے،مسلمانوں اور تارکین وطن کے خلاف زہر اگلنے اور ہر معاملے میں سازش کی بو سونگھنے کے علاوہ اسے کچھ نہیں سوجھتا۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو اس وقت جن بنیادی مسائل کا سامنا ہے چاہے ان کا تعلق اوباما کی بعض اقتصادی پالیسیوں سے ہو یا داعش کا بڑھتا ہوا اثر و نفوذ اور امریکہ کیلئے خطرہ،ان پر کوئی بات نہیں کی جاتی۔ٹرمپ دائیں بازو اور امریکہ کے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کا نمائندہ ہے جبکہ جرمی کوربن کا تعلق انتہائی بائیں بازو سے ہے لیکن ان میں یہ قدر بھی مشترک ہے کہ دونوں 'اینٹی سسٹم‘ ہیں۔آج اسی قسم کا رجحان مغربی یورپ میں بھی نظر آتا ہے جہاں نظام مخالف جماعتیں سر اٹھا رہی ہیں۔اٹلی میں 'فائیو سٹار موومنٹ‘،فرانس میں 'نیشنل فرنٹ‘،سپین میں' یوڈو مس ‘اور جرمنی میں ' آلٹرنیٹو ‘سامنے آ رہی ہیں۔
اگر فنانشل ٹائمز کے اس تجزیے کو درست مان لیا جائے تو اس فہرست میں کسی حد تک عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کا نام بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔خان صاحب بھی موجودہ نظام کو کرپٹ قرار دیتے ہیں۔ان کے نزدیک ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اور انتخابی دھاندلی ہے۔خان صاحب اپنے اور اپنی جماعت میں شامل خواتین و حضرات کے سواقریباً سبھی سیاستدانوں کو کرپٹ سمجھتے ہیں۔ان کا یہ استدلال بھی ہے کہ 2013ء کے انتخابات اگر منصفانہ اور صاف شفاف ہوتے تو پی ٹی آئی سویپ کر جاتی ۔2014 ء کے دھرنے سے لیکر اب تک وہ کئی مرتبہ میاں نواز شریف کے مینڈیٹ کو جعلی قرار دے چکے ہیں۔خان صاحب کی باتیں کسی حد تک درست بھی ہیں۔کرپشن یقیناً ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور 'پاناما گیٹ‘ کی تحقیقات کے حوالے سے جس انداز سے میاں نواز شریف لیت و لعل سے کام لے رہے ہیںاس سے عوام کی نظر وں میں خان صاحب کے موقف کو تقویت پہنچی ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ تحقیقاتی کمیشن کے ٹی او آرز بنانے کے معاملے میں حکومت مخلص ہے نہ اپوزیشن۔یقیناً عمران خان کا بھی شمار بظاہر اینٹی سسٹم افراد میں کیا جا سکتا ہے۔اس امر کے با وجود کہ ان کی زیادہ تر پالیسیاں دائیں بازو کی سمجھی جاسکتی ہیں،انہیں دائیں بازو کا سیاستدان کہنا بھی درست نہیں ہو گا۔اس کی وجہ واضح ہے کہ اکثر ایسے معاملات پر‘ جو پاکستان کیلئے کلیدی اہمیت کے حامل ہیں‘ خان صاحب کا موقف مبہم ہے۔وہ دہشتگردی کیخلاف جنگ کی حمایت بھی کرتے ہیں لیکن دوسری طرف اس بات کے حق میں بھی تھے کہ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کئے جائیں ۔ بھارت کے بارے میں بھی بہت کم زبان کھولتے ہیں جس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بھی نواز شریف کی طرح بھارت سے اچھے اور خوشگوارتجارتی و اقتصادی تعلقات کے حامی ہیں۔شاید میاں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو طوہاً و کرہاً
بھارت اور مودی کی پالیسی کی مخالفت میں بیانات دینے پڑتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کی تو اس مسئلے میں زیادہ دلچسپی نظر نہیں آتی۔امریکہ سے تعلقات میں مدوجزر،افغانستان کے ساتھ معاملات ،اچھے اور برے طالبان میں تمیز روا رکھنے کی بحث ایسے معاملات ہیں جن پر خان صاحب اور ان کی پارٹی کے رہنما شاذ ہی لب کشائی کرتے ہیں۔ عام تاثر تو یہ ہے کہ ان کی جماعت جمہوریت کا ورد کرنے کے باوجود تیسرے امپائر کی طرف دیکھتی رہتی ہے۔جہاں تک اقتصادی مسائل کا تعلق ہے تو وہ پاکستان کی شرح نمو کم ہونے،برآمدات کے انحطاط اور بیرون سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہونے اور ملکی دولت کی بیرون ملک منتقلی کو ناقص پالیسیوں کے بجائے محض کرپشن کی عینک سے ہی دیکھتے ہیں۔گویا اگر بحث کی خاطر ہی ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو جائے تو یہاں دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں۔
جنرل مشرف نے 12 اکتوبر 1999 ء کو ٹیک اوور کیا تو اس وقت کے گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر یعقوب نے جنرل پرویز مشرف اور ان کے دست راست اور 'کو لیڈر‘ جنرل عزیزکو یہ سبق پڑھایا کہ اگر ملک کے کرپٹ صنعتکاروں کو الٹا لٹکا کر لوٹی ہوئی دولت برآمد کی جائے تو ان سے ملنے والی قومی دولت سے پاکستان کے سارے اقتصادی مسائل حل ہو جائینگے۔مشرف صاحب نے ایسا ہی کیا اور لاہور کا سرور روڈ تھانہ ملک کی بہت سی کاروباری شخصیات سے بھر گیا۔ایک ماہ بعد ہی جنرل صاحب کو احساس ہو گیا کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے ،آہستہ آہستہ بزنس مین رہا ہو گئے اور ڈاکٹر یعقوب مستقل طور پر امریکہ پدھار گئے۔بدقسمتی سے ملک کو درپیش بنیادی مسائل جن میں فیوڈل ازم،دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز، غربت، ناخواندگی،صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی اورعمومی طور پر عوام دشمن پالیسیاں شامل ہیں ،پر توجہ دلانے والا کوئی نہیں حالانکہ پی ٹی آئی میں بعض ایسی قابل شخصیات موجود ہیں جن کو ان بنیادی مسائل کا ادراک ہونا چاہیے۔میاں نواز شریف اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی جیسی اپوزیشن ملی ہے۔
خان صاحب کو ملکی مسائل پر بھرپور سٹینڈ لینا چاہیے اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہیے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ اور جرمی کوربن کیساتھ ان کی مماثلت ہونا مناسب نہیں لگتا۔ امکان غالب ہے کہ یہ دونوں حضرات اپنی اپنی پارٹیوں کو انتخابات میں کامیاب نہیں کرا سکیں گے۔خدشہ ہے کہ خان صاحب بھی اگر مرغے کی طرح ایک ٹانگ پر کھڑے رہے تو آئندہ انتخابات میں کامیابی تو دور کی بات ہے‘ وہ موجودہ منزل کو بھی کھو سکتے ہیں۔