جہاں ایک طرف عمران خان اور پروفیسر علامہ طاہر القادری کے جلسوں اور ریلیوںکی یلغار جا ری ہے وہیں میاں نواز شر یف سڑکوں اور پاور پراجیکٹس کے افتتاح کر نے کے لا متنا ہی سلسلے جاری رکھے ہو ئے ہیں ۔اب ان مواقع پر انھوںنے سیاسی تقر یر یں بھی شر وع کر دی ہیں جن میں وہ یہ تا ثر دیتے ہیں کہ انہوں نے ملک اور قوم کی خدمت کا جو سلسلہ شروع کیاتھا وہ پرویز مشرف کے اکتو بر1999ء میں شب خون مارنے کی وجہ سے منقطع ہوگیا تھا ورنہ ملک اس وقت مو ٹر ویز ،سڑ کو ں اور پاور پر اجیکٹس لگنے سے خوشحالی کی منزل سے ہمکنار ہو چکا ہو تا ۔ دوسر ی طرف خان صاحب اینڈ کمپنی میاں صاحب کو' تمام خرابیوں کی ماں‘قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق میاں صاحب کی بر سہا برس کی کرپشن نے ملک کو دیو الیہ کر دیاہے اور جسد سیاست کی اخلا قی قدروں کو (جوا گر کبھی تھیں)کو تبا ہ کر کے رکھ دیا ۔ ستم ظریفی ہے کہ میا ںنواز شر یف اور عمران خان جیسے' ملاؤں کے درمیان قوم کی مر غی حرا م ‘ہو رہی ہے۔خان صاحب نے ہفتہ کو لاہور میں احتساب مارچ سے خطاب میں عید کے بعد رائیونڈ دھرنا دینے کا عندیہ بھی دیدیا ہے جبکہ طاہر القادری نے اسلام آباد میں قصاص ریلی کے دوران آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے انصاف کیلئے مدد مانگتے ہوئے رائیونڈ یا اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے،اس حوالے سے' کزنوں ‘کی اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی مشاورت جاری ہے۔
میاں نواز شر یف کی حکومت کی کارکر دگی پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کے مقا بلے میںتو کئی لحاظ سے بہتر ہے لیکن یہ کہناکہ دودھ کی نہر یں بہنے والی ہیں، مبنی بر حقائق نہیں ۔خان صاحب کا یہ الزام کہ میاں نواز شر یف مافیا باس ہیں اور ان کی سیاسی جماعت مجر موں اور چوروں کا ٹو لہ ہے،بیکار سی بات ہے ۔یقینا میاں نواز شریف اور ان کے برادر خو رد شہباز شر یف Constituency Politics(حلقوں کی سیا ست)کے ما ہر ہیں اور انھوںنے طو یل عر صے تک اقتدار میں رہ کرالیکشن جیتنے کے فارمو لے کو آرٹ فارم بنا دیا ہے ۔ اس وقت بھی صورتحا ل یہ ہے کہ خود میاں صاحب کی زبان میںوہ ملک بھر میں سڑکوں اور مو ٹر ویز کا جال بچھا رہے ہیں۔ وہ اور ان کے برادر خو رد 2018ء سے پہلے پہلے بجلی فراہم کر نے کے ہنگامی منصوبوں کی خو د نگرانی کر رہے ہیں ۔ اس حوالے سے 47 ارب ڈالر کا چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ ان کے کام آ یا ۔'سی پیک ‘کو حکمران جماعت نے اپنی ذاتی جا گیر سمجھ لیا ہے اور دعویٰ کیا جا تا ہے کہ یہ منصوبہ چین نے پاکستان کے لیے نہیں بلکہ میاں نواز شر یف کی خا طر شروع کیا ہے حا لانکہ پاکستان کو اس چینی منصوبے کی جتنی ضرورت ہے چین کو بھی اتنی ہی ہے۔فو جی قیا دت نے بہت پہلے میاں نواز شر یف کو یہ تجو یز دی تھی کہ ' ایرا‘ کی طرز پر سی پیک ڈویلپمنٹ اتھا رٹی بنا ئی جا ئے جس کا سر برا ہ کو ئی وفا قی وزیر ہو اور اس کے تحت کسی جر نیل کو معاملا ت پر پیش رفت دیکھنے پر مامور کیا جائے کیو نکہ عسکری قیا دت کی را ئے میں اتنے بڑے منصوبے پر محض وزیرا عظم سیکر ٹر یٹ اور وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا کنٹرول ناکافی ہے۔
اس وقت تو کیفیت یہ ہے کہ مستقبل قر یب میں پاکستان پر قر ضوں کا بوجھ پڑنے کی پروا کئے بغیر 2018ء کے الیکشن کی فکر کی جا رہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب کی زبان سے ایسے فقر ے ادا نہیں ہو تے کہ ملک میں سکولو ں ،کالجوں،ہسپتالوں کے قیام،صاف پانی کی فراہمی ، قانون کی بالا دستی و انصاف تک عام آدمی کی رسائی اور شہر یوں کے اندراحساس عدم تحفظ دور کر نے کے منصوبوں پر بھی پیش رفت ہو رہی ہے ۔اس وقت تو جہاں عمران خان اورڈاکٹر طاہر القادری حکومت کو ہٹانے کے درپے ہیں وہاں حکمران جما عت پر یہ ہذیا نی کیفیت طاری ہے کہ 2018ء کا الیکشن جیت لو ، باقی بعد میں دیکھاجا ئے گا ۔یہ بات درست ہے کہ پرویز مشرف نے انفرا سٹر کچر کے منصوبوں کو ترجیح نہیں دی لیکن اس وقت ملک کی اقتصادی صورتحال آج سے بدرجہا بہتر تھی ،شر ح نمو 7فیصد ہو رہی تھی۔ملک میں غیر ملکی سر ما یہ کا ری بھی آرہی تھی اور شہروں کے علا وہ دیہی معیشت بھی ترقی کررہی تھی۔ جہاں تک انفر اسٹر کچر منصوبوں کا تعلق ہے ،میں نے ایک مر تبہ بطورصدر سی پی این ای ،ایک لنچ کی میزبانی کرتے ہوئے جنر ل پرویز مشرف سے پوچھا 'آ پ کا لا باغ ڈیم کیو ں نہیں بنا تے ؟‘جنر ل صاحب نے جواب دیا میں آ ج کالابا غ ڈیم بنا سکتا ہوں لیکن ملک ٹوٹ جا ئے گا ۔جہاں تک میاں صاحب کا تعلق ہے تووہ اس اہم تر ین منصو بے جس سے پاکستان کی بجلی اور آ بپا شی کی ضروریا ت پو ری ہوسکتی ہیں، کانام تک نہیں لیتے ۔حال ہی میں واپڈا کے چیئر مین ظفر محمود نے اخبارات میں کالا باغ ڈیم بنانے کی حما یت میں کچھ مضمون لکھے ۔غا لباً اس کی پاداش میں انھیں بیک جنبش قلم فارغ کرد یا گیا۔ جہاں تک معیشت کوچار چاند لگانے کا تعلق ہے، حکمران جما عت کے عمائدین، حکومت کے تابع سٹیٹ بینک اورسرکاری میڈ یا تعر یف وتو صیف کے ڈونگر ے بر ساتے رہتے ہیں اور اس شور وغو غا میں حقائق چھپ کر رہ گئے ہیں ۔اس وقت صور تحال یہ ہے کہ شر ح نمو 4.5فیصد سے زیا دہ نہیں ہے جو غر بت وافلاس کے خاتمے اورروزگار کے مواقع فراہم کر نے کے لیے ناکافی ہے ۔ برآمدات مسلسل روبہ زوال ہیں ،براہ راست غیر ملکی سرمایہ کا ری نہ ہو نے کے برابر ہے ،تارکین وطن کی طرف سے آ نے والا زرمبا دلہ بھی کم ہو تا جا رہا ہے ۔اس پرمستزاد یہ کہ میاں نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے47 روز بعد چار سواسی ارب کے گردشی قرضے کی یکمشت ادائیگی کی گئی وہ اب پھرسات سو ارب ہو چکا ہے جو پیپلز پارٹی کے دور سے بھی بہت زیادہ ہے ۔
میاں صاحب اب معمول کے بر عکس ترقیاتی منصوبوں کی افتتاحی تقریبات میں اپنی تقر یر وں میں مخا لفین کو رگیدنے لگے ہیں۔گزشتہ جمعہ کو انھوں نے شیخ رشید کا نام لیے بغیر یہ کہاکہ پنڈ ی کاایک سیا ست دان ہر وقت ٹیلی ویثر ن پر ٹا ک شوز میں حکو مت کے جانے کے فال نکالتا رہتا ہے، اس معاملے میں شیخ رشید تنہا نہیں ہیں بلکہ اینکروں اور تجز یہ کاروںکاایک مخصوص طبقہ صرف اسی کام پر لگا ہوا ہے،ان کے علاوہ بعض سیاستدان بھی اسی لائن پر سوچتے اورحکومت کی چھٹی کرا نے کے حوالے سے نئی نئی تاریخیں اور نئی نئی تا ویلیں لا تے رہتے ہیں ۔یہ ہما ری بد قسمتی ہے کہ جہاں ایک طرف حکمران جمہوری اداروں اور ریا ست کو اپنی ذات کے ساتھ لازم وملزوم قرار دیتے ہیں وہیں یہ طبقہ ہر قیمت پر فو جی مداخلت کی راہ ہموار کر نے کے لیے استخا رہ کرتا رہتا ہے ۔
مقام شکر ہے کہ عمران خان کا تیسر ے امپا ئر کی انگلی اٹھا نے کا بخا ر بظاہر اتر چکا ہے ۔ دوسری طرف آرمی چیف جنرل راحیل شریف اپنی مدت ملازمت قر یباًبارہ ہفتے میں پو ری کر نے والے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ ریٹائر ہو کرگھر چلے جا تے ہیں یا فیلڈ مارشل کا عہد ہ قبول کر لیتے ہیں ۔ لیکن جوں جوں آرمی چیف کی ریٹائر منٹ کا وقت قر یب آ رہا ہے تاریخیں دینے والے نجومیوں کی ہذیا نی کیفیت بڑ ھتی چلی جا رہی ہے ۔ خد ا نہ کرے کہ اس قسم کی پیش گو ئیاں درست ثابت ہو ں کیو نکہ فو ج کو بھی معلوم ہے کہ کوئی بھی ماورائے آئین تبدیلی پاکستان کے لیے زہر قاتل ہوگی۔ جہاں تک میاں نواز شر یف کا تعلق ہے، ''پاناما گیٹ ‘‘ کی تحقیقا ت کے حوالے سے لیت ولعل اور شفافیت کے معاملے میں ان کا حا لیہ ریکارڈ قابل رشک نہیں ہے۔یہ نہ ہو کہ منیر نیاز ی کے مطابق
کج شہر دے لوک وی ظالم سن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی