"ANC" (space) message & send to 7575

پنجاب میںطلاطم؟

کفرٹوٹا خدا خدا کرکے!بالآخر پنجاب حکومت کو طوہاً و کرہاً صوبے میں رینجرز آپریشن پر آمادگی ظاہر کرنا پڑی۔پاک فوج نے بھی پنجاب میں باقاعدہ کومبنگ آپریشن شروع کر دیا ہے اور پہلے مرحلے پر ہی مثبت نتائج برآمد ہوگئے۔اس کومبنگ آپریشن کا آغاز صوبائی وزیر قانون رانا ثنا ء اللہ کے شہر فیصل آباد سے ہوا ہے۔تھانہ مدینہ ٹاؤن کے علاقے کینال پارک میں پاک فوج نے آپریشن کے دوران رانا ثنا ء اللہ کے قریبی ساتھی اشفاق چاچو،صنعتکار شیخ دانش اور ٹرانسپورٹر رانا پرویزکے گھروں اور فیکٹری کی تلاشی لی ۔چار گھنٹے تک جاری رہنے والے اس آپریشن کے دوران 7 کلاشنکوفیں اور بغیر رجسٹریشن ایک ڈالہ برآمد ہوا۔بتایا جاتا ہے کہ شیخ دانش جن کی فیکٹری کی بھی تلاشی لی گئی۔ مسلم لیگ ن کے فنانسر ہیں۔اس کے علاوہ پاک فوج نے جھنگ روڈ پربھی کئی گھروں کی تلاشی لی۔اگرچہ پاکستان کے موجودہ سیاسی کلچر کے تناظر میں فیصل آباد میں رانا ثنا ء اللہ کے ساتھیوں اور ن لیگ کے فنانسر کے گھر وں سے کلاشنکوفوں کی برآمدگی بظاہر کوئی اتنا بڑا واقعہ نہیں لگتا کیونکہ یہاں تو سیاستدانوں نے اپنی حفاظت کے نام پر غیر لائسنسی اسلحے کے انبار لگائے ہوتے ہیں۔بہرحال رانا ثنا ء اللہ نہ صرف صوبے کے وزیر قانون ہیں بلکہ عملی طور پر خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف کے بعد سب کچھ ہیں‘ان کے بارے میں اس قسم کی اطلاعات کہ ان کا غیر قانونی قرار دی جانیوالی بعض دہشتگرد تنظیموںسے تعلق رہا ہے، اسلحہ کی اس تازہ برآمدگی سے ان کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچا ہے۔علامہ طاہر القادری تو پہلے ہی 16 جون 2014 ء کے سانحہ ماڈل ٹاؤن‘ جس میں ان کی جماعت‘ پاکستان عوامی تحریک کے چودہ کارکن پولیس کی اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میںجاں بحق ہو گئے تھے ،کا سرغنہ رانا ثنا ء اللہ کو قرار دیتے ہیں۔اس واقعہ کی تفتیش کے دوران رانا صاحب کو بڑے سٹریٹجک انداز سے فارغ کر دیا گیا تھا لیکن عملی طور پر اس دوران بھی وہ غیر رسمی طور پر اپنا کام کرتے رہے۔
فوج خاصے عرصے سے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف پر زور ڈال رہی تھی کہ رینجرز کو پنجاب میں آپریشن کرنے کے خصوصی اختیارات دئیے جائیں۔مقتدر حلقوں کے مطابق نہ صرف جنوبی پنجاب بلکہ صوبے کے دیگرحصوں میں بھی دہشتگرد تنظیموں کی پناہ گاہیں موجود ہیں۔ لیکن دوسری طرف میاں شہباز شریف کا دعویٰ تھا کہ پولیس اپنا کام کر رہی ہے۔چند روز قبل ہی آئی جی پولیس مشتاق سکھیرا نے کچھ میڈیا پرسنز کو سنٹرل پولیس آفس مدعو کرکے اس ضمن میں تفصیلی بریفنگ دی جس کے مطابق پولیس نے بڑی حد تک صوبے میں دہشتگردوں کیخلاف موثر کارروائی کی ہے اور ان کی پناہ گاہوں کو ختم کیا ہے ۔اپنے موقف کی تائید میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پنجاب میں دہشتگردی کی وارداتیں خاصی کم ہوئی ہیں،لیکن معاملہ صرف پنجاب کا نہیں ہے بلکہ یہاں بیٹھے دہشت گرد اپنی کمین گاہوں سے ملک بھر میں کہیں بھی وار کر سکتے ہیں۔ایک با خبر ذریعے کا کہنا ہے کہ پنجاب میں پولیس کی استعداد بڑھنے کے بارے میں زیادہ تر دعوے کھوکھلے ہیں۔مثال کے طور پر پنجاب کے 36 اضلاع میں سے کوتوال اعلیٰ نے صرف چند کا ہی دورہ کیا ہے۔پنجاب میں‘ سندھ بالخصوص شہری سندھ جیسی صورتحال نہیں ہے۔اسی لئے پنجاب میں رینجرز کو وہ اختیارات حاصل نہیں ہونگے جو کراچی میں ہیں۔یقیناً حکومت اور فوج کو اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کیلئے کہ وہ بلا کم و کاست تمام دہشتگرد گروپوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں ،پورے ملک میں کومبنگ آپریشن بھرپور طریقے سے کرنا ہوگا۔
مقام شکر ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ نے رائے ونڈ میں میاں نواز شریف کی اقامت گاہ پر یلغار کا پروگرام ملتوی کر دیا ہے۔اب وہ ان کے گھر سے متصل علاقے میں جلسہ کرینگے اور اس جلسے کی تاریخ بھی باہمی مشاورت سے طے ہوگی اور یہ محرم الحرام سے پہلے ہو گا۔میاں نواز شریف، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کیلئے نیو یارک جاتے اور اور آتے اپنے لندن میں قیام کے دوران غالباً اپنا چیک اپ بھی کرائینگے ،گویا کچھ عرصہ پھر ملک سے باہر رہیں گے۔توقع ہے وہ عیدکے فوری بعدبیر ون ملک روانہ ہو جائینگے۔ شاید اسی بنا پر وہ آج کل کچھ زیادہ فعال ہیںاور ملک کے طول و عرض میں جا کر فیتے کاٹنے کے ساتھ ساتھ دھواں دار تقریریں بھی کر رہے ہیں۔وہ نام لئے بغیر خان صاحب کو بھی ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ادھر اپنے باس کی تقلیدکرتے ہوئے میاں نواز شریف کے نورتن بھی دھمکی آمیز زبان استعمال کر رہے ہیں۔گزشتہ دنوں میاں شہباز شریف کے ترجمان اعلیٰ زعیم قادری نے عمران خان کے حواریوں کو دھمکی دی کہ انہوں نے رائیونڈ آنے کی کوشش کی تو ان کی ٹانگیں توڑ دی جائینگی۔کچھ اسی قسم کی زبان عابد شیر علی اور طلال چودھری بھی استعمال کر رہے ہیں۔اس امر کے باوجود کہ خان صاحب مسلم لیگ (ن) کو ایک مافیا قرار دیتے ہیں ،حکمران جماعت کے رہنما اس قسم کی لچر زبان استعمال کر کے گویا عمران خان کے الزامات پر مہر تصدیق ثبت کر رہے ہیں۔میاں نواز شریف کا الزام ہے کہ اپوزیشن ملک کو اندھیروں میں دھکیلنا چاہتی ہے جبکہ وہ شبانہ روز محنت کر کے ملک کو اجالوں کی طرف لے جا رہے ہیں‘ لیکن حقیقت حال اتنی روشن نہیں جتنی بتائی جا رہی ہے۔
حال ہی میں 'پاناما لیکس‘ کا جائزہ لینے کیلئے قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس ہوئے ۔اول الذکر کمیٹی کے سربراہ حکمران جماعت کے رکن قیصر احمد شیخ نے 'پاناما گیٹ‘ کے حوالے سے وزارت خزانہ اور ایف بی آر کی بریفنگ کو کھوہ کھاتے ڈال دیا اور اجلاس اس معاملے پر کوئی کارروائی نہ کر پایا۔اسی طرح پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ سید خورشید شاہ اس بنا پر کوئی کارروائی نہ کر سکے کہ گورنر سٹیٹ بینک ،ایف بی آر‘سکیورٹی ایکسچینج کمیشن کے سربراہان اور وزارت خارجہ کا نمائندہ غیر حاضر تھا حالانکہ انہیں حاضری کا باقاعدہ اوربروقت نوٹس دیا گیا تھا۔دیکھا جائے تو میاں نواز شریف نے بڑی کامیابی کیساتھ پانچ ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس معاملے پر نہ تو ٹی او آرز بننے دئیے ہیں اور نہ ہی کمیشن تشکیل پا سکا ہے۔اس حوالے سے ان کے تاخیری حربے کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔ویسے بھی لگتا ہے کہ تحریک انصاف کے علاوہ باقی اپوزیشن اور عوام کو 'پاناما گیٹ‘ کے حوالے سے میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ پر اٹھنے والے سوالات کے جوابات حاصل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ویسے تو مملکت خداداد میں جمہوریت کا دور دورہ ہے ،میڈیا بھی بظاہر آزاد ہے،عدالتیں بھی خود مختار ہیں لیکن بدقسمتی سے حکمرانوں کا رویہ جمہوری نہیں ہے۔ انہوں نے احتساب کرنے اور قد غن لگانے والے اداروں کو اپنے من پسند افراد سے بھر دیا ہے۔میاں نواز شریف جو اپنے پہلے والے دور میں ریاستی اداروں کو تباہ کرنے کے بعد امیرالمومنین بننا چاہتے تھے لیکن مشرف کے 'کو‘ کی وجہ سے نہیں کر پائے تھے‘ اب انہوں نے جمہوریت کے نام پر ہی جمہوری اداروں کو قریباً مفلوج کر دیا ہے۔
جمعہ کو عابد شیر علی نے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کے خوب لتے لئے جس پر جہانگیر ترین نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ جہانگیر خان ترین نے سپیکر کی طرف سے ان کیخلاف ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجنے پر ایک دفعہ پھر واضح کیا کہ مجھ پر لگائے گئے الزامات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ،میری کسی کمپنی نے قرضہ معاف نہیں کرایا بلکہ وہ کمپنیاں ہارون اختر کی ہیں۔ جہانگیر ترین نے کہا کہ میرے خلاف کارروائی کی اصل وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم کی فیملی اور میرا بزنس ایک ہے،حکومت مجھے کاروباری مسابقت کی وجہ سے انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔دوسرا یہ کہ شریف فیملی کی چودھری شوگر ملز کو ٹوبہ چنیوٹ روڈ سے رحیم یار خان غیر قانونی طور پر منتقل کیا جا رہا ہے جس کے خلاف میں نے عدالت سے سٹے حاصل کر رکھا ہے،اس وجہ سے بھی ن لیگ مجھے ٹارگٹ کر رہی ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ سٹے آرڈر کے باوجود شوگر ملز کی منتقلی کاکام جاری ہے ۔جہانگیر ترین نے اس دوران اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ میں عمران خان کا سپاہی ہوں اور کھڑا رہوں گا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ جہانگیر ترین جب قومی اسمبلی میں وزیر اعظم اورانکی فیملی کے کاروبار کی بات کرنے لگے تو میاں نواز شریف اسمبلی سے باہر چلے گئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں