قر یباً ایک ماہ قبل بظا ہر اپنے قائد الطاف حسین سے نجات حا صل کر نے کا اعلان کر نے کے باوجود ایم کیو ایم کے بر ے دن ختم نہیں ہورہے۔ سند ھ اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد، ایم کیوایم کے رہنما خو اجہ اظہا ر الحسن کی گرفتاری اور رہا ئی ایک معمہ بن گئی ہے۔ کرا چی کے متنا زعہ پولیس افسر ایس ایس پی ملیر راؤانوار اس پاداش میں معطل ہو چکے ہیں کہ انھیں خو اجہ صاحب پر ہا تھ ڈا لنے کی جرات کیو نکر ہو ئی ۔ایم کیو ایم پاکستان کے قا ئد فاروق ستار کے بقول ان کی جماعت کو مسلسل دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر ایم کیوایم کے رہنماؤںکو گرفتار کر نا ہی مقصود ہے توہم خو د ہی اجتما عی گر فتاریاں دے دیتے ہیں ۔ ایس ایس پی ملیر نے جو بڑ ی دلیر ی کے ساتھ ایم کیو ایم پرہاتھ ڈا لنے کے حوالے سے مشہور ہیں ‘اب تک یہ بتا نے کی زحمت گوارا نہیںکی کہ خو اجہ اظہار الحسن کی گر فتا ری کس کے حکم پر عمل میں لا ئی گئی۔ ان کا محض یہ کہنا ہے کہ لندن میں مقیم ایم کیو ایم کے قائد اور ندیم نصرت کی ہدایات پر ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کے سر غنہ خو اجہ صاحب ہی ہیں۔ لیکن جس انداز سے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سندھ نے اس معاملے سے لا تعلقی کا اظہا ر کیا ہے اس سے یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ سیا سی حکومت خو اہ میاں نواز شر یف کی ہو یا آصف زرداری کی، اس گر فتاری کو 'اون‘ نہیں کر نا چاہتی۔لیکن آ ج کل کرا چی میں فر یق اول نے جسے عرف عام میں رینجر زکہا جا تا ہے اس معاملے پر معنی خیز خا موشی اختیا ر کر رکھی ہے ۔دوسر ی طرف قومی اسمبلی میں قا ئد حزب اختلاف ، پیپلز پا رٹی کے رہنما سید خو رشید شاہ نے یہ کہہ کر کہ ایم کیو ایم نے تا حال الطاف حسین سے مکمل لا تعلقی نہیں کی ،بیچ چوراہے بھانڈا پھوڑ دیا ہے ۔مشیر اطلاعات سندھ مولابخش چانڈیو کا بھی کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اور لند ن ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔اس تنا ظر میں دیکھا جا ئے تو خو اجہ اظہا ر الحق کی رہا ئی عارضی لگتی ہے کیو نکہ وزیر اعلیٰ سند ھ مرادعلی شاہ کی جانب سے انتہائی سر عت کے ساتھ قائد حزب اختلاف کو رہا کروانے کے باوجو د سندھ کی سیا سی قیا دت اور عسکر ی قیا دت
ایم کیو ایم کے بارے میں ایک ہی پیج پر ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ راؤانوار اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے ہو ئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ ملازمت چھوڑ دیں گے، پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کراچی میں حملوں کیلئے جنوبی افریقہ سے ٹیم آ گئی ہے،میری معطلی نقصان دہ ہو گی۔ کیا واقعی ایک پو لیس افسر اتنا ہتھ چھٹ ہو سکتا ہے کہ وہ اظہار الحسن جیسی موٹی مچھلی پر ہا تھ ڈال دے۔ یہ دہائی بھی دی جارہی ہے کہ راؤانوار کی ٹیم نے اظہار الحسن کے گھر جا کر چادر اور چار دیوا ری کے تقدس کو پامال کیا ہے ۔یہ انتہا ئی سنگین الزام ہے جس کی تحقیقا ت ہو نی چاہیے ۔تا ہم عروس البلا د کراچی اندرون سند ھ یا جنو بی پنجاب کا دورافتا دہ علا قہ نہیں‘ جہاں پولیس بلا روک ٹو ک دندناتی پھرے۔ویسے وطن عزیز کی پولیس کا بھی عجیب المیہ ہے ‘ہر طرف رونا رو یا جا تا ہے کہ پو لیس کرپٹ اور نا اہل ہے لیکن جو پو لیس افسر اور اہلکار اپنے فرا ئض منصبی ایما نداری سے ادا کر نے کی کوشش کر یں ان پر بھی انگشت نما ئی کی جا تی ہے ۔ غر یب پولیس والے جدید سامان حر ب سے لیس نہ ہو نے کے با وجو د اپنے فرا ئض منصبی جا نفشا نی سے ادا کرتے ہیں ۔دہشت گرد وں کے ہا تھوں سینکڑوں پو لیس اہلکاروں نے جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے ۔عید کے روز بھی سند ھ کے علا قے شکار پو ر میں پو لیس نے شہر یوں کی مد د سے نما ز عید سے قبل دہشت گردی کا منصو بہ ناکام بنا دیا‘ایک خودکش بمبا ر کو ہلا ک جبکہ دوسرے کو گرفتا ر کرلیا۔ ہمارے ہاں فو جی جو انوں کی شہادت پر بجا طور پر افسوس کا بھی اظہا ر کیاجا تا ہے ۔یقینا ہمارے فوجی جوانوں اورافسروں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بیش بہا قر بانیاں دی ہیں اور جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے لیکن بدقسمتی سے پولیس والوں کو کوئی نہیں پو چھتا ۔اس حو الے سے میڈ یا بھی قصوروار ہے ،زیادہ ترمیڈیا میں بھی راؤ انوار کو ذمہ دار قرار دے کر نکتہ چینی کی جا رہی ہے۔دوسر ی طرف انسا نی حقو ق کی بعض تنظیمو ں نے الیکٹر انک میڈ یا پر بجا طور پر تنقید کی ہے کہ مہمند ایجنسی میں نما ز جمعہ کے دوران خودکش حملے میں28افراد کی شہادت کی خبر ٹی وی چینلز پر اس بنا پر نمایا ں نہیں ہو سکی کہ ہما رے اینکر حضرات اور تجز یہ کار خو اجہ اظہار کی گرفتاری اور راؤانوار کے معاملے پر نو حہ کناں تھے ۔سو شل میڈ یا پر ایک ٹویٹ کے مطابق اگر یہ واقعہ مہمند ایجنسی کے بجائے کشمیر میں ہوتا تو ہمارے سیا ستدان بشمول وزیر اعظم مذ متی بیان دینے کے لیے بے تاب ہوتے ۔یقینا یہ ہما رے میڈیا کا المیہ ہے کہ ریٹنگ پر سب کچھ قر بان کر دیا جا ئے ۔
بعض اخباری اطلا عات کے مطابق اس بات پر اصولی اتفاق کر نے کے با وجو د کہ پنجاب میں دہشت گردوں کا قلع قمع کر نے کے لیے رینجرزکی مدد حا صل کی جا ئے تا حال اس سلسلے میں نو ٹیفکیشن پر دستخط نہیں ہو پا ئے ۔خا دم اعلیٰ میاں شہباز شر یف اور انکے برادر اکبر میاں نواز شر یف چاہتے ہیں کہ رینجرزکے نیم فو جی دستے دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے دو ماہ کے لیے پنجاب کے کا ؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی مددکر یں لیکن کر اچی کی طر ح انھیں دیگر جرا ئم پیشہ افرا د پر ہا تھ ڈا لنے کی اجازت نہیں ہو گی ۔ دوسر ی طرف فو ج کا اصرار ہے کہ رینجرز کو جب تک خطر ناک مجر موں کوپکڑنے کی اجازت نہیں ملتی پنجاب میں عملی طور پر دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا صفایا نہیں ہو سکتا ۔لیکن صوبا ئی حکومت مصر ہے کہ وہ یہ کام خود بخو بی کر سکتی ہے ۔پنجاب حکومت کے تحفظا ت قا بل فہم ہیں کیو نکہ رینجرز کو مکمل اختیارات مل گئے تو کرا چی کی طر ح لا ہو ر میں بھی بعض سیا ستدان جن میں میاں نواز شریف ،میاں شہبازشر یف کی کو ر ٹیم کے ارکان بھی شامل ہیں شاید نہ بچ سکیں ۔فی الحا ل تو یہ قرعہ فال کرا چی کے نام نکلا ہے کہ وہاں کے میئر وسیم اختر پا بند سلاسل ہیں ، انیس قائم خا نی بھی جیل کی ہو ا کھا رہے ہیں اور زرداری صاحب کے دست راست ڈاکٹر عاصم حسین ایک سال سے زائدعرصہ سے دہشت گردوں کے سہو لت کار ہو نے اور کر پشن کے الزام میں پس دیوار زنداں ہیں ۔زرداری صاحب اور شر جیل میمن جیسی شخصیا ت نے بیر ون ملک رہنے میں ہی عافیت سمجھ رکھی ہے ۔اگر پنجاب میں ایسا معاملہ بنا تو رانا ثنا ء اللہ جن پر سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملو ث ہو نے اور جہا دی تنظیموں سے تعلقات کے سنگین الزامات لگائے جاتے رہے کہ علاوہ رانا مشہو د کا کیا بنے گا؟ ویسے اصولی طو ر پر وزیر اعلیٰ پنجاب کا مو قف درست ہے کہ پنجاب میں سند ھ جیسی صورتحا ل نہیں ہے۔