"ANC" (space) message & send to 7575

رائیونڈ مارچ ، مولا جٹ اور نوری نت کی بڑھکیں

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان شدید غصے میں ہیں اور 30 ستمبر کو رائیونڈ کی طرف مارچ کرنے پر بضد بھی۔ اگرچہ یہ مارچ جاتی امرا میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کی اقامت گاہ سے قریباً تین کلو میٹر دور اڈہ پلاٹ چوک پر ہو گا لیکن جس انداز سے اس احتجاج کو کامیاب بنانے کے لئے تیاریاں کی جا رہی ہیں اور خان صاحب اور ان کے حواری جس قسم کی زبان استعمال کر رہے ہیں، وہ تشویشناک حد تک تشدد پر اکسانے کے مترادف ہے۔ ادھر دانیال عزیز ،طلال چودھری، عابد شیر علی اور زعیم قادری جیسے حکومتی بھونپو دھمکی آمیز بیانات کے ذریعے جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں؛ حالانکہ حکومتی جماعت کا مفاد تو اس میں ہے کہ خان صاحب کا احتجاج پر امن رہے۔ عمران خان اس اجتماع کو تاریخی بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ رائیونڈ کسی کے باپ کی جاگیر نہیں اور حکومتی گلو بٹ 'جنون‘ کے سامنے نہیں ٹھہر سکیں گے۔ اس تناظر میں جانثار فورس، ڈنڈا بردار فورس اور بلا فورس زوروشور سے تیار کی جا رہی ہیں۔ یقیناً رائیونڈ کسی کی جاگیر نہیں ہے لیکن وہاں ان کی ذاتی اقامت گاہ ضرور ہے جسے ان کے منصب کے لحاظ سے وزیر اعظم ہاؤس کا درجہ حاصل ہے جیسے بنی گالہ میں خان صاحب کی اسٹیٹ ان کی جاگیر ہے۔ چودھری برادران معاملے کی نزاکت کو پوری طرح بھانپ گئے ہیں اور انہی کی تحریک پر خان صاحب نے اپنے پروگرام میں معمولی سا ردوبدل کیا ہے لیکن شاید انہیں احساس ہی نہیں ہے کہ وہ سیاست میں ایسی روایات قائم کرتے چلے جا رہے ہیں جن کو نرم سے نرم الفاظ میں بھی غیر صحت مند ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ میڈیا کے عمران نواز حلقے بھی اس قسم کے رجحان کو خوب ہوا دے رہے ہیں۔ اس قسم کے باقاعدہ سٹیج کردہ فوٹیج دکھائے جا رہے ہیں کہ گویا پرانی پنجابی فلموں کے دو سرکردہ کرداروں مولا جٹ اور نوری نت کی لڑائی ہونے جا رہی ہے،کہیں گوجرانوالہ میں انڈے اور ٹماٹر باری کی پریکٹس تو کہیں سیالکوٹ میں بلا فورس کی ٹک ٹک دکھائی جا رہی ہے۔ پنجاب حکومت کے ترجمان زعیم قادری نے احتجاج کا مقام تبدیل نہ کرنے کی صورت میں سبق سکھانے کی دھمکی بھی دیدی ہے۔
اگر شریف فیملی کی اقامت گاہ سے چند کلو میٹر دور بقول خان صاحب کے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہو گیا، جس میں بڑی تعداد بلوں سے مسلح ہوئی تو انہیں جاتی امرا جانے سے کون روک سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کا راستہ روکنے کے لئے پولیس کی بھاری نفری استعمال کی جائے گی، جس طرح ماڈل ٹاؤن میں ہوا اس تصادم کی فضا میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر کون سی ایسی افتاد آن پڑی ہے کہ خان صاحب دیگر اپوزیشن جماعتوں کو ویٹو کر کے اور خود اپنی جماعت میں میانہ روی کا مشورہ دینے والوں کو رد کر کے ہر قیمت پر شریف حکومت کو گرانے کے درپے ہیں۔ یقیناً 'پاناما لیکس‘ کے بارے میں حکومتی رویہ ڈنگ ٹپاؤ قسم کا ہے۔ پچھلے پانچ ماہ میں میاں نواز شریف نے اتنے اہم معاملے کی عدالتی تحقیقات نہیں ہونے دی اور معاملہ ٹی او آرز پر ہی رکا ہوا ہے۔ 'پاناما لیکس‘ کے ابتدائی دنوں میں میاں نواز شریف نے قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ وہ اس ضمن میں سب سے پہلے اپنی ذات کو احتساب کے لئے پیش کرتے ہیں لیکن اس کے بعد حکومتی زعما نے قلا بازی کھائی کہ میاں نواز شریف کا تو 'پاناما لیکس‘میں نام ہی نہیں ہے، لہٰذا وہ کیونکر خود کو احتساب کے لئے پیش کریں اور جہاں تک ان کے بچوں کا تعلق ہے تو وہ اپنے معاملات کے خود ذمہ دار ہیں لیکن اس بات کا جواب اب تک نہیں مل سکا کہ بلوغت تک پہنچنے سے پہلے ہی لندن میں اتنی مہنگی پراپرٹیز خریدنے کے لئے ان کے پاس مال کہاں سے آیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خان صاحب محض شیخ رشید کی معیت میں پورے ملک میں ہذیانی کیفیت طاری کئے رکھیں۔ انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ اپوزیشن میں باقی سیاستدان جو نواز شریف کے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے آخر ان کا ساتھ کیوں نہیں دے رہے؟ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ علامہ طاہرالقادری جن کی زبان اس حد تک بہک گئی تھی کہ انہوں نے میاں نواز شریف پر نریندر مودی کا تنخواہ دار ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا اور کہا کہ ان کی شوگر ملوں میں تین سو سے زائد بھارتی جاسوس کام کرتے ہیں اور جو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے شریف خاندان کے خون کے پیاسے ہیں، رائیونڈ احتجاج سے پہلے ہی لندن کو نکل گئے ہیں۔ یقیناً معاملہ 'پاناما لیکس‘ کی تحقیقات سے کچھ زیادہ گہرا لگتا ہے۔ غالباً خان صاحب کے بعض نادان اور عاقبت نا اندیش مشیروں نے انہیں سبز باغ دکھایا ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور میاں نواز شریف کے تعلقات کشیدہ ہیں، لہٰذا فوج کے سربراہ کی ریٹائرمنٹ سے قبل سڑکوں پر ایسی صورت حال پیدا کر دی جائے تاکہ غیر جمہوری قوتوں کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا جا سکے۔
گزشتہ روز جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت کور کمانڈرز کا اجلاس ہوا جس میں اندرونی و بیرونی چیلنجز کا جائزہ لیا گیا اور یہ عندیہ دیا گیا کہ افواج پاکستان ہر قسم کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں لیکن جنرل راحیل شریف جنہوں نے بطور سپہ سالار مثالی کردار ادا کیا ہے کسی صورت بھی جنرل ضیاء الحق ،جنرل پرویز مشرف یا ان سے پہلے جنرل ایوب خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جمہوریت کو اپنے بوٹوں تلے روندنے پر تیار نظر نہیں آتے۔ وہ لوگ جو ان کی مقبولیت کو جمہوریت کی نفی سے تعبیر کرتے ہیں احمقوں کی جنت میںبستے ہیں۔ ملک میں بعض حکومتی عہدیداروں کی بداعمالیوں، ناقص گورننس اور اپوزیشن اور میڈیا کے ایک حلقے کی خواہشات کے گھوڑے دوڑانے کے باوجود جمہوری ادارے مستحکم ہیں۔ اللہ کے فضل سے خان صاحب کو ڈیڑھ برس بعد عام انتخابات میں اپنی قسمت آزمانے کا موقع ملے گا، انہیں جاتی امرا مارچ کا کٹا کٹی نکالنے کے بعد اپنی پارٹی کے تنظیمی امور پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ پی ٹی آئی میں خلفشار روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں پی ٹی آئی کے سابق ایڈیشنل سیکرٹری سیف اللہ نیازی کا احتجاجاً استعفیٰ اور یوتھ ونگ کا جہانگیر ترین کے خلاف اعلان بغاوت خان صاحب کیلئے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔ یقیناپی ٹی آئی میں اتنی اہلیت ہے کہ وہ عام انتخابات جیت کر اقتدار میں آ سکے لیکن اس کے لئے پارٹی قیادت کو بہت سے پاپڑ بیلنے پڑیں گے محض ہلے گلے کی سیاست سے انتخابات نہیں جیتے جا سکتے۔ میاں نواز شریف، برادر خورد میاں شہباز شریف اور ان کی ٹیم خان صاحب جتنامجمع تو اکٹھا نہیں کر سکتے لیکن انہوں نے حلقوں کی سیاست پر خاصا عبور حاصل کر رکھا ہے۔ لہٰذا خان صاحب کو اپنے ساتھیوں کیساتھ سر جوڑ کر ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہے باقی کام ساتھ ساتھ چلتے رہیں گے۔
ویسے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا مشورہ بہت صائب ہے کہ حکومت بڑھک بازی کے بجائے محتاط رویہ اختیار کرے، ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی گڑ بڑ ہوئی تو ذمہ داری حکومت کی ہو گی اور نقصان بھی سراسر حکومت کا۔خان صاحب تو دھرنے دیتے رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں